کیا انڈیا کی کہانی تمام ہوگئی
صدر پرناب مکھرجی نے جب جنوری 2009ء سے 2012ء کے وسط تک بطور مرکزی وزیر خزانہ جو فیصلے کیے وہ بدنیتی پر مبنی تھے۔
انڈیا اقتصادی طور پر تباہ ہو چکا ہے، یہ ساری دنیا جانتی ہے، لیکن جو بات ابھی طشت ازبام نہیں ہوئی، وہ یہ ہے کہ موجودہ صدر پرناب مکھرجی نے جب جنوری 2009ء سے 2012ء کے وسط تک بطور مرکزی وزیر خزانہ جو فیصلے کیے وہ بدنیتی پر مبنی تھے اور موجودہ اقتصادی بحران انھی فیصلوں کا نتیجہ ہے، ان سے پہلے وزیر خزانہ پی چدمبرم 2008ء کے اختتام اور اس سے پہلے تک وزارت خزانہ کے سربراہ تھے۔
مکھرجی راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) کے پُر تعیش ماحول میں رہتے ہیں جب کہ چدمبرم اپنے ان لمبے چوڑے وعدوں کی آڑ میں رہتے ہیں جو وہ اقتصادی بحالی کے لیے کرتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں قابل تعزیر ہیں۔ انھیں بتانا چاہیے کہ انھوں نے ایسے اقدامات کیوں کیے جن کی وجہ سے ترقی کا توازن اس قدر بگڑ گیا۔ چونکہ حکومتی معاملات میں شفافیت کی خاصی کمی ہوتی ہے، اس لیے صرف چند لوگوں کو ہی علم ہے کہ ان دونوں نے کتنی بڑی بڑی حماقتیں کی ہیں۔
ایک فیصلہ یہ تھا جب مکھرجی نے ایک غیر ملکی موبائل کمپنی پر 1200 کروڑ روپے کا ٹیکس عائد کر دیا۔ 3 ستمبر 2010ء کو حکومت سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ ہار گئی تو حکومت نے 2012ء کے فنانس ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بجائے آرڈیننس جاری کر دیا۔ فنانس ایکٹ کی متعلقہ شق نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بری طرح ڈرا دیا حالانکہ بھارت کو سب سے زیادہ ضرورت ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ''وال مارٹ'' کے لیے بہت سی رعایتوں کا اعلان بھی کیا تھا مگر اس کے باوجود بھی یہ ملٹی نیشنل کمپنی بھارتی سر زمین پر نہیں آ سکی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے وہ تمام بھاری رقوم واپس نکلوا لی ہیں جن کی انھوں نے قبل ازیں سرمایہ کاری کی تھی۔ صرف چند ہفتوں کے دوران مبینہ طور پر 200 ارب امریکی ڈالر کی خطیر رقم ملک سے واپس چلی گئی۔ سرمایہ کاری کا یہ اخراج ہنوز جاری ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اس کے مضمرات کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملات کو اس بری طرح بگڑتا دیکھ کر، جو چدمبرم کی نہایت ناقص کارکردگی کا نتیجہ تھا، وزیراعظم کو وزارت خزانہ کا چارج خود سنبھال لینا چاہیے تھا کیونکہ ان کی اقتصادی معاملات میں مہارت تسلیم شدہ تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کوئلے کی وزارت کے دوران ان کا اپنا ریکارڈ بھی چنداں تسلی بخش نہ تھا۔ البتہ وزیر خزانہ کے طور پر وزیر اعظم یقینا بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے۔ بھارت کے پاس جتنی بڑی مقدار میں کوئلہ ہے اس لحاظ سے بھارت کو خود کوئلہ برآمد کرنا چاہیے تھا چہ جائیکہ اسے کوئلہ بیرون ممالک سے منگوانا پڑ رہا ہے۔ ممکن ہے منموہن سنگھ بذات خود کوئلے کے بلاکوں کی الاٹمنٹ میں کرپشن کے ذمے دار نہ ہوں مگر جب بدعنوانی ہزاروں کروڑ روپوں تک پہنچ جائے تب انھیں بھی کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس کی پوری کہانی تو شاید ابھی معلوم نہ ہو سکے کیونکہ بہت سی فائلیں غائب ہو چکی ہیں۔ اس کا حکومت نے سپریم کورٹ میں اعتراف بھی کیا ہے۔ لیکن ان فائلوں کے لیے حکومت نے نام نہاد فائلوں کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کے مطابق کم از کم 157 فائلیں غائب ہیں۔ ان گمشدہ فائلوں میں کوئلے کے بلاکوں کی الاٹمنٹ کے بارے میں مبینہ طور پر کچھ اہم دستاویز اور نوشتہ جات ہیں۔ وزیر اعظم خود کو اس ذمے داری سے مبرا قرار نہیں دے سکتے کہ وہ فائلیں ان کی نگرانی میں نہیں تھیں۔ وہ کوئلہ کی وزارت کے انچارج تھے۔ سی بی آئی (CBI) کا اعلیٰ عہدیدار جو اس سکینڈل کی تفتیش پر مامور ہے کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم سے بھی پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ 2006ء سے 2009ء تک یہ وزارت انھی کے چارج میں تھی۔ کیا وزیر اعظم قائل کر سکیں گے کہ یہ وزارت کیا گل کھلاتی رہی ہے جب کہ ان کی ذاتی ساکھ دائو پر لگی ہے؟
وزیر اعظم مجرموں کو قانون کے حصار میں لانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے تھے لیکن سیاسی طور پر کمزور ہونے کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ مکھرجی پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہوئے ان کو وزراء کے گروپ کی کئی ایک کمیٹیوں کا نہ صرف چیئرمین لگا دیا بلکہ کئی ایک بگڑے ہوئے معاملات کا حل تلاش کرنے کی ذمے داری بھی سونپ دی۔ بدقسمتی سے مکھرجی کے پاس نئی وزارت کے لیے چنداں وقت نہ تھا اور صورت حال مزید بگڑنے لگی۔
بڑھتے ہوئے افراط زر نے (10 فی صد کی حد تک) بحران کو سنگین تر کر دیا۔ ایک متوسط طبقے کے آدمی کی آمدنی تو جوں کی توں رہی لیکن اشیائے ضروریہ کی روزافزوں قیمتوں سے اخراجات کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ اگر حکومت پٹرول، ڈیزل، گھریلو استعمال کے لیے گیس اور دیگر اہم اشیا پر سبسڈی نہ دیتی تو معمولات زندگی چلانا کس قدر مشکل ہو جاتا۔ تاہم آئی ایم ایف (IMF) کے مطابق انڈیا میں 20 فیصد امیر طبقے کے افراد نچلے طبقے کے 20 فیصد افراد کی نسبت حکومت کی دی گئی سبسڈی سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اشرافیہ اس قدر بااثر ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا۔ بہت بڑے بڑے کاروباری گھرانے پارلیمنٹ کے اراکین پر مال لگاتے ہیں اور جواباً وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے کاروبار کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ دس مہینوں تک لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے۔ لوک سبھا کی ایک سیٹ پر اندازً دس کروڑ روپیہ خرچ اٹھتا ہے۔ فنڈز کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں پہلے ہی سے بڑے بڑے کاروباری گھرانوں سے رابطے میں ہیں۔ اب ان کی بدعنوانیوں اور غلط کاریوں کو کون چیلنج کرے گا؟
اس امر کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر چیف انفارمیشن کمشنر (RTI)-Right to Informetion) کے اس فیصلے کی دھجیاں اڑائی ہیں کہ حقِ معلومات کا اطلاق سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کے مطابق ہو گا۔
تاہم اقتصادی بحران پر قابو پانے کا مسئلہ فوری طور پر حل طلب ہے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں خود اعتراف کیا ہے کہ ملک کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ حکومت ہی اس خرابی کی ذمے دار ہے۔ اچھی حکمرانی ہے نہ قیادت ہے اور نہ ہی رہنمائی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وزیر اعظم کے دماغ میں اصلاحات کے بارے میں کیا منصوبے ہیں۔ تاہم تمام اقتصادی منصوبوں کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہو گا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، اشیائے ضروریہ سستے داموں دستیاب ہوں اور پیداواری حجم پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں ہونے والی پیداواری نمو یعنی 4 فیصد کی حد کو چھو لے جو ایک روایتی ہندو اقتصادیات کی عکاسی کرتی ہے۔ فیکٹریوں میں کام ٹھپ ہے اور پیداوار صرف 3 فیصد ہے اور اس میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
میں چاہتا تھا کہ نئے الیکشن ہو جاتے جیسا کہ میں نے 3 ماہ قبل توجیہات اور دلیلوں کے ساتھ واضح کیا تھا۔ اس سے بے یقینی کی فضا اب تک معدوم ہو چکی ہوتی جس سے سرمایہ کار بددل ہو گئے تھے۔ اب تک لوگ نئی منتخب حکومت کے ساتھ خُوگر ہو چکے ہوتے لیکن بہت سے خصوصاً کانگریس اراکین پارلیمنٹ اپنے پانچ سال کا دورانیہ مکمل کرنا اور پوری طرح استفادہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سوں کو معلوم ہے کہ وہ شاید اگلے الیکشن جیت نہ پائیں۔
سیاسی ماحول میں اضطراب اور تنائو مستقبل پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جب تک کہ کوئی ایک سیاسی جماعت الیکشن میں کلین سویپ نہ کر لے، اس وقت تک تناؤ کم نہ ہو گا، مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مستقبل میں بھی مخلوط حکومت ہی بنے گی جو انڈیا کی موجودہ صورتحال اور سنگین تر ہوئے بحران کے پیش نظر سخت فیصلے کرنے کی متحمل نہ ہو سکے گی۔ حالانکہ سیاسی پارٹیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ بنیادی امور پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ لیکن یہ اتفاق رائے الیکشن سے پہلے ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ملک کو یک جہتی اور اتفاق رائے ہی کی ضرورت ہے۔ چاہے یہ آج ہو یا بعدازاں۔ ہو سکتا ہے کہ میری سوچ غلط سمت میں رواں ہو۔ مگر لگتا ہے کہ انڈیا کی اقتصادی ترقی کی کہانی کم از کم آنیوالے کچھ سال کے لیے بس ختم ہی سمجھئے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)