نئے پاکستان کا پرانا تصور
سب سے پہلے نئے پاکستان کی تشریح و تعبیر پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی 66 سالہ روایتی اشرافیائی سیاست سے مایوس اور بیزار عوام نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی طرف امید بھری نظروں سے اس لیے دیکھا کہ انھوں نے ''ایک نئے پاکستان'' کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس نعرے میں عوام کے لیے دلکشی اس لیے تھی ۔ عمران خان سے عوام کی امیدیں اسی نئے پاکستان کے نعرے سے وابستہ ہوگئی تھیں۔عمران خان عوام کی اس توقع سے فائدہ اٹھانے میں اس حد تک آگے چلے گئے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو مستقبل کا وزیراعظم تصور کرلیا تھا لیکن عمران خان کو نہ پرانے سیاستدانوں کے داؤ پیچ کا اندازہ نہ تھا لہذا ان کی ساری امیدیں، ساری توقعات، سارے تصورات11 مئی 2013 کے روایتی الیکشن سے ٹکراکر پاش پاش ہوگئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کے اندھیرے میں کوئی اجلا اور روشن چہرہ کوئی عوام سے مخلص اور Status Quo کو توڑنے میں پرعزم اور منظم جماعت عوام کے سامنے نہ تھی ایسی مایوس کن صورت حال میں عوام عموماً اندھوں میں کانا راجا کے فارمولے پر چل پڑتے ہیں۔ سو عوام کی ایک قابل ذکر تعداد انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے جلسوں میں جاتی رہی ۔ اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے تحریک انصاف کی ہیئت ترکیبی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے ملک کے نوجوان طبقے میں ہلچل مچانے اور انھیں متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن اس نوجوان طبقے میں وہ مزدور، وہ کسان، وہ لوئرمڈل کلاس شامل نہ تھی جو کسی نظام کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
عمران خان کرکٹ کی دنیا کے ایک نامور کھلاڑی رہے ہیں اور وی آئی پی کلاس کی نوجوان نسل کرکٹ کے اس ہیرو کی ہمیشہ فین رہی ہے اس کلاس کی نوجوان نسل کو نہ معاشی استحصال کا کبھی سامنا رہتا ہے نہ وہ بھوک، بیماری، بے روزگاری کے عذابوں کو سمجھتی ہے۔ ایسی آسودہ حالی نوجوان نسل کے ذہن کے کسی گوشے میں نہ استحصالی نظام کی تباہ کاریوں کا کوئی تصور موجود ہوتا ہے نہ اسے اس نظام کی تبدیلی سے کوئی دلچسپی رہتی ہے وہ تو ہلا گلا، گٹار اور ماڈرن موسیقی کی دلدادہ ہوتی ہے اس نسل کے مزاج کو سمجھتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت نے نئے پرکشش نعروں پر مشتمل ایسی موسیقی ترتیب دی جو اس نوجوان نسل کے لیے اپنے اندر کشش رکھتی تھی اور یہ نوجوان نسل عمران خان کے جلسوں میں اس ''جدید سیاسی موسیقی'' سے لطف اندوز ہوتی رہی اور کسان، ہاری، مزدور اپنا سارا وقت وڈیروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں کی صنعتی اور زرعی جیلوں میں اپنے خون کا آخری قطرہ لٹاتا رہا۔
اور اپنا ووٹ بھی ان ظالموں کی خدمت میں پیش کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا اور نکلنا ہی تھا کہ وہی استحصالی طبقات کے راجے، مہاراجے، شہزادے، شہزادیاں، غریبوں، مجبوروں کے ووٹ حاصل کرکے قانون ساز اداروں صوبائی اور مرکزی کا بیناؤں میں پہنچ گئے اور وہ سیٹ اپ جوں کا توں برقرار رہا جو 66 سالوں سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ پسے ہوئے عوام کا مقدر بنا ہوا ہے۔ کپتان خیبرپختونخوا میں اب ایک نیا پختونخوا بنانے میں مصروف ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پختونخوا میں ایسی قوتیں متحرک اور بالادست بنی ہوئی ہیں جو 66 سالہ پرانے پاکستان کو ہزاروں سالہ پرانے پاکستان میں بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور جن کے سامنے کپتان بھی لرزہ براندام رہتے ہیں۔
عمران خان کا تعلق اگرچہ ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے لیکن کرکٹ کے میدان میں ان کی کامیابیوں نے انھیں اپر مڈل کلاس میں پہنچادیا جہاں نہ بھوک کا گزر ہوتا ہے نہ بیماری مجبوری بن جاتی ہے نہ بیکاری کی شکل نظر آتی ہے نہ کھونپڑیوں پر مشتمل آبادیاں ہوتی ہیں نہ کچے گھروں کی بستیاں نہ ان بستیوں میں صفائی سیوریج کا نظام ہوتا ہے نہ جدید شاپنگ سینٹر نہ چمکتی دمکتی کاریں اس کلاس کے بادشاہوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بھوکوں کو روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیتی ہے اور نظام کی تبدیلی کا نعرہ سیاسی فیشن کے طور پر لگاتی ہے۔ عمران خان 120 کروڑ مالیت کے مکان میں رہتے ہیں انھیں 40 گز پر رہنے والے لوگوں کے دکھوں کا احساس کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے اردگرد دائیں بائیں وہ پرانے پاپی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کپتان کے لیے پاکستان سے زیادہ نئے پاکستان میں نسل در نسل رہتے آرہے ہیں ان پاکستانیوں کے ساتھ عمران خان کیسے نیا پاکستان بناسکتے ہیں؟سب سے پہلے نئے پاکستان کی تشریح و تعبیر پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
نئے پاکستان کا عمومی مطلب ایک ترقی یافتہ جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی تحقیق و ایجادات صنعت و حرفت کا حامل پاکستان ہی لیا جاسکتا ہے۔ ایسے پاکستان کی عمارت اس وقت تک تعمیر نہیں ہوسکتی جب تک پرانے پاکستان کی عمارت کو منہدم نہیں کیا جاتا۔ پرانا پاکستان وڈیروں، نوابوں، سرداروں، خانوں کا پاکستان ہے اس پرانے پاکستان کی عمارت قبائلی، جاگیردارانہ، سرداری نظام کی بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے جو رہنما، جو جماعت خلوص دل سے نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے اسے اس پرانے پاکستان کی عمارت کو منہدم کرنا پڑے گا۔ جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات لانا ہوگی۔ قبائلی اور سرداری نظام کو غیر قانونی قرار دے کر اس نظام میں محبوس قبائلی عوام کو آزاد کرانا ہوگا۔ جاگیردارانہ کلچر کو صنعتی کلچر میں بدلنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپتان نئے پاکستان کی ان بنیادی ضرورتوں سے ناواقف ہیں؟ اگر وہ ناواقف ہیں تو ان کا نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ اگر وہ نئے پاکستان کی بنیادی ضرورتوں سے واقف ہیں تو پھر ان کے لیے پاکستان کا نعرہ محض ایک ڈرامے یا نئے خواب کے علاوہ کیا ہوگا جس کی کوئی تعبیر نہیں!!
کپتان صاحب اگر نئے پاکستان کی تشکیل میں مخلص ہوتے تو وہ کبھی ان قائدین کو ہاتھوں سے نکلنے نہ دیتے جو اپنے تجربہ کار ہاتھوں کے مشوروں کو نظرانداز کرکے اپنی پوری جماعت کے ساتھ اس امید پر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے کہ مڈل کلاس کا یہ نوجوان شاید اس عشروں پرانے وڈیرہ شاہی نظام کو بدلنے میں مخلص ہے۔ یہاں ہم معراج محمد خان اور ان کی جماعت کا حوالہ دیں گے۔ معراج محمد خان کی زندگی اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں گزری ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں، کسان، مزدور، راجے کے سحر میں مبتلا ہوکر بھٹو کے قافلے میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید جیسے کئی ایسے لوگ بھی پیپلزپارٹی کا حصہ بنے تھے جنھیں یہ امید تھی کہ بھٹو واقعی مزدور، کسان، راجے لانے میں مخلص ہے لیکن بہت جلد ان دوستوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو کی انقلابی پارٹی پر عملاً انقلاب دشمنوں کا قبضہ ہے سو وہ بھٹو کی پارٹی سے الگ ہوگئے۔
معراج محمد خان کے دوستوں نے جن میں یوسف مستی خان، عثمان بلوچ اور ہم پیش پیش تھے معراج محمد خان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ انھیں اس جماعت میں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن وہ ایک فیصد تجربہ کرنا چاہتے تھے اگر عمران خان نظام کی تبدیلی میں واقعی مخلص تھے تو پھر انھیں ہر قیمت پر معراج محمد خان کی جماعت کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شد'' معراج کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔اگر عمران خان ایک نئے پاکستان کی تشکیل میں مخلص ہیں تو پھر انھیں اس پرانے پاکستان کی عمارت کو گرانا ہوگا جو قبائلی، سرداری اور جاگیردارانہ نظام پر کھڑی ہوئی ہے اور اس کے لیے انھیں وی آئی پی کلاس کی خوشحالی نئی نسل کے بجائے مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور لوئر مڈل کلاس کی نئی نسل کو ساتھ لینا ہوگا اور زرعی اصلاحات سے اپنی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا ورنہ ان کا سونامی ہر بار الیکشن کی آہنی دیوار سے ٹکراکر واپس لوٹتا رہے گا۔