مسئلہ شام اسرائیل امریکا سے نا امید
گذشتہ ڈھائی برس سے شام میں جاری بحرانی کیفیت کے بعد حال ہی میں صورتحال کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے
گذشتہ ڈھائی برس سے شام میں جاری بحرانی کیفیت کے بعد حال ہی میں صورتحال کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی وجہ 21اگست کو شام کے علاقے الغوطہ میں دہشت گردوں کی جانب سے کیمیائی حملہ ہے اور اس کے فوری بعد امریکی صدر کی جانب سے شام پر فضائی حملے کا اعلان ہے، البتہ شام میں استعمال ہونیوالے کیمیائی حملے کے عنوان سے بھی شام میں حکومت کے خلاف جنگ کرنیوالے گروہ ''جبھۃ النصرۃ '' کے ایک دہشت گرد نے گذشتہ روز شام میں ذرایع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔
شام میں حکومت مخالف دہشت گردوں نے معروف خبر رساں ادارے منٹ پریس کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں شام کے علاقے الغوطہ الشرقیہ میں سیرائین نامی کیمیکل گیس کا استعمال ان کے گروہ کے ہاتھوں ہوا ہے جوکہ غلطی سے انجام پایا ہے ، ان حکومت مخالف دہشتگردوں کے مطابق سیرائن گیس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا تھا تاہم اچانک سلنڈر پھٹ جانے سے سیرائین گیس پھیل گئی اور نزدیک ہی موجود اسکول اور اسپتال کی عمارت میں موجود افراد اس زہریلی گیس کی زد میں آئے۔واضح رہے کہ اسی رپورٹ کو ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے بھی شایع کیا ہے۔
بہر حال اس کے باوجود کہ ایک طرف شام میں جہاں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی اعلیٰ عہدیداروں نے اس تاثر کو مسترد کر دیا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار کا استعمال حکومت کی جانب سے ہوا ہے بلکہ دہشت گردوں کی جانب سے منٹ پریس کو دیے جانے والے انٹرویو کے بعد مزید واضح ہو گیا ہے کہ کیمیائی ہتھیار کا استعمال حکومت مخالف دہشتگردوں کی جانب سے کیا گیا ہے،دوسری طرف انھی دہشتگردوں نے منٹ پریس کو بتایا ہے کہ یہ کیمیائی ہتھیار ان کو ایک عرب ریاست کے چیف انٹلی جنس آفیسر کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے تا کہ شام میں حکومت کے خلاف استعمال کیے جائیں تاہم ان دہشت گردوں کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ کیمیائی نوعیت کے ہتھیار ہیں جو کہ دیکھنے میں ایک ٹیوب کی مانند ہیں۔ان تمام حالات کے باوجود بھی امریکا نے شام کی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کر رکھا ہے اور روز اول سے شام پر امریکی فضائی حملے کا عندیہ دیا جس کے نتیجے میں سلامتی کونسل میں روس اور چین نے اس حملے کو ویٹو کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا۔
بالآخر امریکی صدر نے 31اگست کو اس بات کا آخری اعلان کر ہی دیا کہ امریکا شام پر محدود فضائی حملہ کرے گا جس کے بعد اس معاملے کو امریکی کانگریس کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ آیا امریکا شام پر فضائی حملہ کرے یا نہ کرے، اب یہ فیصلہ امریکی کانگریس نے کرنا ہے اور امریکی کانگریس کا اجلاس اگلے ہفتے میں 9ستمبر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔اسرائیل جو خطے میں پہلے ہی کئی ممالک کی زمینوں اور علاقوں پر غاصب قبضہ جمائے ہوئے اس کی یہ کوشش رہی ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکا جلد از جلد شام پر حملہ کر دے تا کہ اس کے نتیجے میں ایران، حزب اللہ اور شام کا اتحاد کمزور کیا جائے اور اسرائیل کو کسی حد تک سکون حاصل ہو سکے۔البتہ امریکا کی جانب سے متعدد اعلانات کے سامنے آنے کے بعد معاملے کو کانگریس کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیل کو امریکا سے شدید ناامیدی ہوئی ہے اور اسرائیل سمیت ترکی اور اردن اس بات کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کہ امریکا جلد از جلد شام پر حملہ کر دے اور اس حوالے سے بعض مسلم ممالک کے خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اپنی بھرپور فعالیت دکھاتے رہے ہیں۔
گذشتہ دو روز میں اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں گردش کرنیوالی خبروں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایران، شام، اور حزب اللہ کی پالیسی اور حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی ہے اور شام پر امریکی ممکنہ حملے میں امریکی صدر کی کمزوری نے اسرائیلی انتظامیہ کو شدید ناامید کر دیا ہے ،تاہم اسرائیل مشکل کا شکار ہے ۔اسرائیلی ذرایع ابلاغ نے خبروں میں لکھا ہے کہ شام اور حزب اللہ کے دفاعی ہتھیار جدید نوعیت کے ہیں جو امریکی فضائی حملے کو روکنے اور اسے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹس کے مطابق امریکا کی جانب سے شام پر ہونیوالے ممکنہ حملے کی صورت میں روسی صدر پوٹن کو بہترین موقع حاصل ہو گا کہ وہ ایران اور شام کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں کے تبادلے کو یقینی بنائے،اسی عنوان سے اسرائیل کے ایک اعلی درجے کے خفیہ ادارے نے کہا کہ اسرائیل کو ایران سمیت شام اور حزب اللہ کے ساتھ ساتھ روس کی جانب سے شدید خطرہ لا حق ہے کیونکہ امریکی ممکنہ حملے کی وجہ سے روس اور ایران شام کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے اور جو کہ حزب اللہ کے ساتھ بھی ہو گا اور یہ تمام تر صورتحال اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔
اسرائیلی ادارے کا کہنا ہے کہ اگر امریکی قانون ساز ادارے کانگریس نے شام پر امریکی حملے کی منظوری مسترد کر دی تو اس صورتحال میں اسرائیل سمیت ترکی اور اردن کے لیے شدید پریشانی لاحق ہو گی۔اسرائیلی ذرایع ابلاغ نے فوجی ذرایع کے حوالے بتایا ہے کہ امریکی کانگریس کی جانب سے شام پر حملے کی مخالفت کی صورت میں اسرائیل کی کیا حکمت عملی ہونی چاہئیے تاہم اس حوالے سے اسرائیلی فورسز اور خفیہ اداروں کے درمیان بحث و مباحثہ جاری ہے جب کہ اسرائیلی انتظامیہ اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ اس صورتحال میں لبنان اور شام کی سرحدوں پر سیکیورٹی کے انتظامات کو کس طرح بہتر بنایا جائے اور اسرائیل کے اندر سیکیورٹی کو کس طرح بہتر انداز میں برقرار رکھا جائے؟اس حوالے سے اسرائیل نے اتوار 31اگست کو گیس ماسک کی تقسیم کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے اور دوسری طرف اسرائیل نے اپنے تین خطرناک میزائل نظاموں کو بھی ہائی الرٹ کر دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی افواج کے سابقہ کمانڈر جنرل اوزی نے اسرائیلی انتظامیہ کے جنگی اور خوف پر مبنی لہجہ پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس وقت امریکی صدر کی جانب سے شام پر ممکنہ حملے کے عنوان سے کمزوری کے بعد اور حملے کو محدود پیمانے پر کرنے کے عنوان سے شدید مشکلات سے دوچار ہو رہا ہے کیونکہ اسرائیل یہ بات نہیں جانتا کہ اب امریکی کانگریس اس حوالے سے کیا اقدامات انجام دے گی۔اسرائیلی سابق کمانڈر نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا ہے کہ اسرائیل کے شام پر جنگ مسلط کرنے کے عنوان سے سمجھداری سے کام لینا ہو گا اور سنجیدہ پالیسی اپنانا ہو گی۔اسرائیلی سابق کمانڈر نے مزید لکھا ہے کہ اسرائیل کو امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات جس میں معاشی، تعاون، تزویراتی اور دیگر نوعیت کے مشترک مفادات ہیں کا خیال رکھنا چاہئیے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ صیہونیت اور امریکا کے مابین موجود مشترکہ مفادات کو نقصان نہ پہنچنے پائے۔
اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی یہ تمام خبریں اتوار 31اگست کو وائٹ ہائوس کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو امریکی صدر کے نئے فیصلے سے آگاہ کرنے کے بعد سامنے آئی ہیں کہ جس میں امریکی صدر نے شام پر ممکنہ امریکی حملے کو موخر کرتے ہوئے مسئلے کو کانگریس میں بھیج دیا ہے۔دوسری جانب امریکا کی متعدد ریاستوں میں امریکی عوام امریکی حکومت کی جانب سے شام پر فضائی حملوں کے ممکنات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس حوالے سے امریکی ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں میں آیا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد امریکیوںنے شام پر امریکی ممکنہ حملے کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔البتہ وائٹ ہائوس کی جانب سے نئی پیش رفت سے آگاہی کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے بھی امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے تاہم یہ خبریں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔