6 ستمبر اور وطن کے سجیلے جوان۔۔۔


محمد فیصل شہزاد September 05, 2013

6ستمبر... اس دن ہماری قوم نے یک جہتی، اخوت اور قربانی کی بڑی عظیم الشان مثال قائم کی تھی۔ اِس دن ایک بے سروساماں ملک نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر خود سے پانچ گنا طاقتور حریف کو عبرت ناک نتائج بھگتنے پر مجبور کر دیا تھا۔ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں جب کسی بے وسیلہ قوم نے صرف عزم و ہمت کے سبب حیرت انگیز طور پر دشمنوں کے رخ موڑ دیے ہوں مگر پاکستانی قوم نے آزمائش کے اس وقت کچھ زیادہ ہی یگانگت و اخوت کا ثبوت دیا۔

آج ہم اس جنگ میں پاکستانیوں کے حوصلے اور عزم کی داستانیں پڑھتے ہیں تو سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ُاس وقت قوم کے جذبات کا کیا عالم ہو گا؟آہ وہ کیا دن ہوں گے اور کیا جذبے ہوں گے جن کے بارے میں صرف پڑھ کر ہی بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل جوش و جذبہ سے بھر جاتا ہے اور آنکھیںنم ہو جاتی ہیں ۔ یہ جذبہ ہی تو تھا کہ جس نے ایک عام پاکستانی کو فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑا کر دیا تھا...کسان ہو یا مزدور شاعر ہو یا اسکول کے طلبہ سب ایمانی جذبات سے معمور تھے۔ پاکستانی فوج نے اپنی صلاحیتوں کے عظیم جوہر دکھائے اور عزم و شجاعت کے ایسے واقعات ریکارڈ میں آئے ، جو اب خود ایک ریکارڈ ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے ہی جناب ایم ایم عالم صاحب کا انتقال ہوا ہے...یہی وہ ہمارے قومی ہیرو تھے جنہوں نے اس جنگ میں صرف آدھ منٹ میں چھ بھارتی طیارے یوں مار گرائے کہ دنیاکے قابل ترین ہوا باز حیران رہ گئے۔

پر ہوا یوںکہ جنگ کے وقت جس قوم نے اپنی یکجہتی اور جذبے سے دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا تھا، جنگ کے بعد داخلی انتشار میں بھی اس نے مثال قائم کر دی۔سمجھ نہیں آیا، ایسا کیا ہوا کہ اس جنگ کے بعد پاکستانیوں میں جذبوں کا کال ہی پڑ گیا۔کیسی عجیب بات ہے کہ ستمبر65ء کے بعد 48سال میں اخوت اور یگانگت کا پھرکبھی کوئی ایسا بلکہ اس کا دسواں حصہ بھی نظر نہیں آیا۔ آج اپنے اردگرد نظر ڈالیے تو ہر طرف بے حسی، نفسانفسی اور خود غرضی کے مظاہر عام ہیں، اور48 سال تو دور کی بات ہے، صرف چھ سال بعد سن 71ء میں یہ مبارک جذبے تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے اور ہمیں وہ منحوس دن دیکھنا پڑا کہ جب دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں ہی کے ہاتھوں ملکِ عزیز دو لخت ہو گیا۔

کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے مسلح افواج میں اضافے، زیادہ ہتھیار اور زیادہ فوجی ٹھکانے ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے اور بہت سے محاذ کھولنے پڑتے ہیں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ آج 65ء کے مقابلے میں ہمارے پاس زیادہ دفاعی ٹیکنالوجی، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ میزائل، تباہ کن ایٹمی ہتھیار اور ان کو استعمال کرنے والے ہاتھ بھی زیادہ تربیت یافتہ ہیں لیکن آج سے زیادہ ہم دنیا میں اتنے بے حیثیت بھی کبھی نہ تھے۔ سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے وقت تو شاید ہماری بے سروسامانی، ہمارے ''دوست'' کی طوطا چشمی اور بھارت کی کھلی جارحیت نے ہمارا کچھ بھرم رکھ لیا تھا لیکن آج کی ہماری معمولی حیثیت کے لیے ہمارے پاس کوئی عذر نہیں۔ آپ سبز پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی ایئر پورٹ پر آپ کی دوسروں سے ہٹ کر'' تواضع ''کی جائے گی۔

آج پھر خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اور پاکستان کی سرحدیں انتہائی غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ یہ خطرہ ہمہ جہتی ہے۔ ہماری مغربی سرحدیں بارود کا ڈھیر بن چکی ہیں، اور وہاں نفرتوں کے کئی آتش فشاں پھٹنے کو بے قرار ہیں، اور ہماری مشرقی سرحدیں!... آہ ہماری یک طرفہ دوستی کے راگ الاپنے کے باوجود ''اُدھر'' سے ہمارے نہتے اور معصوم دیہاتیوں پر فائرنگ کی جا رہی ہے اور ہمیں بھیانک نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت جاری کشیدگی کا ذمے دار صرف اور صرف بھارت ہے، اور بھارت اور اس کے حکمرانوں کی نفسیات سے واقف لوگ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح اچانک کشیدگی کی وجہ صرف اپنے ایک سابق افسر وی ایس مانی کے حلفیہ بیان کی خفت مٹانا ہے اور کچھ نہیں، جس میں اس نے ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں میں خود بھارتی ایجنسیوں کا ملوث ہونے کا کہا تھا۔

بھارت کا یہ حربہ بہت پرانا ہے...مثال کے طور پر دیکھیے کہ پچھلے چند سالوں سے جب بھارت میں سیاحوں خصوصاً خواتین سیاح پر مجرمانہ جنسی حملے ہو رہے ہیں اور وہ پوری دنیا میں سخت بدنام ہوا ہے تو نہایت ڈرامائی طور پر پاکستان میں بھی نانگا پربت پر سیاحوں کو خون سے نہلا دیا گیا... کہنے والے جو کہہ رہے کہ اس حملے میںبھارتی ایجنٹ ملوث تھے تو اس بات میں کافی وزن ہے۔ بہرحال آج یہ پوری قوم کے سوچنے کی بات ہے کہ بھارت سے یک طرفہ عشق کا مظاہرہ آخر کب تک چلے گا؟ ہمیں اس کاآخر کیا صلہ ملتا ہے؟ بلا اشتعال فائرنگ، ہمارے فوجیوں کے سینوں پر سوراخ ، بدترین انجام کی دھمکیاں اور آبی جارحیت...!!

آج ہماری سرمستی و قلندری کا وہی عالم ہے کہ جو ہو رہا ہے، ٹھیک ہو رہا ہے اور جونہیں ہو رہا وہ بھی ٹھیک ہے۔ ہم نے آج اپنے ملک کے لیے ''عبوری دور'' جیسی اصطلاح وضع کر کے اپنی اجتماعی نا اہلی اور غیرمعمولی سستی کا جواز تلاش کر لیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری قوم مجھ سمیت خوابوں کی دنیا میں رہنے والی ہے جو اس بات پر خوش رہتی ہے کہ وہ موقع آنے پر نبٹنا جانتے ہیں۔ آج ہمارا پورا سماجی ڈھانچا بدترین خامیوں کا شکار ہے۔ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیجیے تو اس میں جھول ہی جھول نظر آئے گا۔ فوج کے علاوہ ہمارے کسی ادارے میں پائیداری،نظم و سلیقہ اور ترتیب نہیں، انتشار ہی انتشار ہے۔ بڑی افراتفری اور مسموم فضا ہے۔ آج ستمبر 65ء کے برعکس قوم قوم نہیں رہی، پارٹیوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر ایک اپنی پارٹی کے قصیدے اور دوسروں کی ہجو کہنے میں مصروف ہے۔

ہائے اس سرزمین کی آبرو کے لیے نجانے کتنے چہرے اداس ہوئے، کتنی آنکھوں نے اشکباری کا سودا کیا، کتنی محبتیں سوگوار اور کتنی بہاروں کو خزاں کا منہ دیکھنا پڑا؟ آج ہم بھول گئے کہ 6ستمبر کی جنگ کس لیے ہوئی تھی اور اس کا فیصلہ کس طور انجام پایا تھا؟ اگر آج تاریخ کا طالبعلم صرف بات پر غور کر لے کہ کس طرح 6ستمبر65ء کو ہم نے میدان میں جیتی جنگ تاشقند کی ٹیبل پر ہار دی تو اسے ملک عزیز کی آج دنیا بھر میں بے حیثیتی کی وجوہات کا خوب اندازہ ہو جائے گا۔ وہ جان جائے گا کہ ہماری قوم دشمنوں کے ساتھ ہر محاذ پر جنگ لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن ہمارا نصیبا کہ ہمیں حکمراں ایسے نادان ملتے ہیں کہ چند لالی پاپ کے بدلے جیتی جنگ ہار جائیں اور چندکھوکھلی دھمکیوں سے ڈر کر اپنا سب کچھ دشمن کے قدموں پر رکھ دیں یہاں تک کہ اپنی عزت اور اپنی قوم کے بیٹے بیٹیاں بھی!

چلیں چھوڑیںیہ قنوطی باتیں! آج یوم دفاع ہے،چلیے اس دن کو شان و شوکت سے مناتے ہیں ، شہداء کی یاد میں کچھ آنسو بہاتے ہیں اور رزمیہ دھنوں پر گنگناتے ہیں ؎

اے وطن کے سجیلے جوانو!

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

بس نغمے... کل کا سورج طلوع ہو گا اورحسب معمول ہم سب اپنے روزمرہ میں گم ہو جائیں گے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں