لائٹ کیمرہ ایکشن
لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔ یہ تین جملے فلمی ہدایت کار پکارتے ہیں جب کوئی فلمی منظر پکچرائز ہوتا ہے۔
KARACHI:
لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔ یہ تین جملے فلمی ہدایت کار پکارتے ہیں جب کوئی فلمی منظر پکچرائز ہوتا ہے۔ پھر اداکار اپنے فن کے جلوے بکھیرتے ہیں۔ سین اوکے ہوجاتاہے تو بس تالیاں بجاتے ہیں۔ سپر اسٹار نے اچھا کام نہ بھی کیا ہو تو تعریف اور خوشامد کی جاتی ہے۔ یہ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہی ہے جو اپنے سامنے آنے والوں کو عزت، دولت اور شہرت عطا کرتاہے۔ پہلے فلموں پھر ٹی وی اور اب سیاست کے کھلاڑیوں کو سامنے بٹھائے ٹی وی میزبان جیسی چیزوں نے تین چیزیں کس طرح عطا کیں؟ یہ پہلے دلچسپ کہانی ہوتی ہے جس کا اختتام بڑا المناک ہوتاہے۔ فلموں کے اداکار، ٹی وی کے فنکار، کھیلوں کے سپر اسٹارز اور اب حالات حاضرہ کے پروگراموں کے اینکر پرسن ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہیں۔ ہم دیکھیںگے کہ جگمگاتی روشنیوں میں جگمگانے والے سیاست دان، تجزیہ کار، فنکار و کھلاڑی کس نفسیاتی کامیڈی اور ٹریجڈی سے گزرتے ہیں۔
دلیپ کمار اور راج کپور کی ایک زمانے میں دھوم تھی تو نرگس اور مدھوبالا بھی بڑی اداکارائیں ہواکرتی تھیں۔ فلم اس دور کے لوگوں کے لیے واحد اچھی اور سستی تفریح تھی۔ (اسٹوڈیوز کی دنیا کے یہ تین جملے فلمی اسکرین تک آکر گمنام اداکاروں کو عزت، دولت اور شہرت کے مقام تک پہنچادیتے ہیں۔ فلمی دنیا ہالی وڈ سے بمبئی آئی تو یہ بالی وڈ کہلائی اور لاہور پہنچ کر لالی وڈ بن گئی۔ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کا جملہ اپنے ساتھ پرستاروں کا ہجوم لے کر آتاہے۔ جب پاکستان میں فلمیں بننے لگیں تو سنتوش، سدھیر، صبیحہ، اسلم پرویز، نور جہاں، درپن ہمارے اسٹارز کہلانے لگے۔ جب کیمرے نے اپنے رنگ بکھیرے تو زمانے نے وحید مراد، زیبا، محمد علی، ندیم، شاہد، شبنم، بابرا شریف کو بڑے اداکاروں کی صف میں دیکھا۔
جب پاکستان میں یہ زمانہ ختم ہوا تو فلمیں سینمائوں میں بڑی اسکرین کے بجائے چھوٹی اسکرین پر گھروں میں دیکھی جانے لگیں۔ اس دور کے سپر اسٹارز امیتابھ بچن، زینت امان، دھرمیندر، ریکھا، امجد خان اور ہیما مالنی کہلائے۔ ان کی کامیابی کا سبب بھی لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہی تھا۔ یہ تین جملے صرف فلمی دنیا تک محدود نہ رہے بلکہ کھیل اور سیاست کی دنیا میں آگئے۔ پھران تین جملوں نے نئے سپر اسٹارز جنم دیے۔ ابتدا میں اداکاروں کو ہزاروں تو پھر لاکھوں اور اب کروڑوں روپے مل رہے ہیں۔ پھر زمانہ خانوں کا آیا تو اس کا سبب بھی یہ تین جملے ہیں۔ شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان دو صدیوں کے سنگم کے کامیاب اداکار ہیں۔ اب فلمیں ہفتہ بھر میں کئی سو کروڑ روپے کمالیتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہے تو اس کا سبب لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہے۔ اب دیکھیں کہ جب یہ تین جملے کھیل، سیاست اور ٹی وی کی دنیا میں آئے تو انھوں نے کیا کچھ جولانیاں (Jolaniyan) بکھیری ہیں۔
کھیلوں کی دنیا میں جب لائٹ اور کیمرہ آیا تو اس نے کھلاڑیوں کو سپر اسٹار بنادیا۔ جب فضل محمود، حنیف محمد، نذر محمد اور امتیاز کے دور میں یہ تین جملے آئے تو یہ کھلاڑی بڑے کھلاڑی کہلائے۔ یہ ابتدائی زمانہ تھا اور کھلاڑیوں کو چند سو روپے بھی بمشکل ملا کرتے تھے۔ جب ٹی وی کی اسکرین پر میچ دکھائے جانے لگے تو آصف اقبال، ظہیر مشتاق اور ماجد کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ جب میچ لائیو دکھائے جانے لگے تو یہ عمران اور میانداد کا دور تھا۔ کھلاڑی سال بھر میں لاکھوں کمانے لگے اور ریٹائرڈ ہوتے ہوتے ایک دو کروڑ تک کمالیتے۔ کیمرے نے اپنے انداز کو بدلا۔ اب کرکٹ میچ کمنٹری اور جھلکیوں سے نکل کر براہ راست Liveکی سطح تک آگئے تھے۔ پھر زمانے نے وقار، انضمام، معین، وسیم، یوسف اور یونس کے عروج کا زمانہ دیکھا۔
یوں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز جیسے دور دراز علاقوں سے میچ براہ راست دکھائے جانے لگے۔ ہر دور کے کھلاڑی صرف ایک سال میں سابقہ کھلاڑیوں کی پندرہ، سترہ سالہ زندگی جتنا کمالیتے ہیں۔ یہ سب کچھ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کی بدولت ہے۔ زمانے نے مزید ترقی کی۔ سیکڑوں چینلز صرف انگلی کے اشاروں کے محتاج ہیں۔ یہ دور عمر اکمل، مصباح، سعید اجمل اور شاہد آفریدی کا دور کہلایا۔ اب درجنوں اسپورٹس چینلز نے آمدنیوں کو روپوں سے ڈالرز میں بدل دیاہے۔ اشتہارات سے اضافی آمدنی رکی ہی نہ تھی کہ پریمیئر لیگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس طرح صرف فلموں کے اسٹارز کو ہی سپر اسٹارز نہ کہا گیا بلکہ کرکٹ کی دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی بھی ان کے مقابل آگئے۔ یوں برابر کی ٹکر نے کئی رومانوی داستانوں کو جنم دیا۔ فلمی ہیروئن اور کرکٹ کھلاڑی۔ ان دونوں کی دوستیوں، داستانوں، شادیوں، اختلافات اور طلاقوں سے اسپورٹس و فلمی صفحات بھرے نظر آتے ہیں۔
لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کی دنیا نے ایک اور دنیا کا رخ کیا، ہم اسے سیاست کی دنیا کہہ سکتے ہیں یا صحافت کی دنیا کہہ سکتے ہیں یا ٹی وی کے حالات حاضرہ کی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ تینوں چیزیں اکیسویں صدی میں ایک مقام پر ٹھہریں تو اینکر پرسن کی اصطلاح سامنے آئی۔ پرسن کے لفظ نے مرد و عورت کی تمیز ختم کردی۔ سیاسی لیڈروں کو ٹی وی مذاکروں میں گفتگو کروانے کے زمانے نے جنم لیا۔ ہفتے میں تین چار مرتبہ یا یوں کہہ لیں کہ مہینے میں بارہ تیرہ مرتبہ ایک شخص ہمیں اپنی جھلک دکھانے لگا۔ خیر سیاسی مہمانوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے والا چینل بدلنے پر خود بخود نظر آتاہے۔ فلمی ہیرو کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد فلم کی تکمیل پر جھلک دکھاتے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ اسٹارز بھی کبھی کبھار اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ٹی وی اداکار کالو رام ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اینکر پرسن اکیسویں صدی کے ابتدائی دور کا سپر اسٹار ہے۔ وہ پرسوں کے فلمی ہیرو اور کل کے کرکٹ ہیرو سے بھی بڑھ کر ہوگیاہے۔ صحافت کی دنیا نے لاکھوں کا معاوضہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ پچھلی صدی تک بڑے سے بڑا صحافی اور مشہور ترین کالم نگار بھی بڑے سے بڑے صحافتی ادارے میں چند ہزار ہی پاسکتاتھا۔ ٹی وی کی اس صحافتی دنیا نے سیاسی پروگرام کرنے والوں کے معاوضے لاکھوں سے بڑھاکر ملین تک پہنچادیے ہیں۔ اس کا بڑا سبب وہی لائٹ، وہی کیمرہ اور وہی ایکشن ہے۔
ٹریجڈی کیا ہے؟ فلم، کرکٹ اور صحافت کے سپر اسٹارز کی کہانی میں خوشی تو ہے لیکن غم کیا ہے؟ خوشی یہ ہے کہ لوگ جانتے پہچانتے ہیں، روپوں کی ریل پیل ہوتی ہے اور عزت تو سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ وقت بڑا ظالم ہے۔ یہ وہ تبدیلیاں لاتاہے کہ ہر کمال کو زوال کی جانب دھکیل دیتاہے۔ نئے لوگ، نئی تبدیلی یا نئی ایجاد آتی ہے یا لوگوں کی پسند و ناپسند بدل جاتی ہے تو شہرت گمنامی میں بدل جاتی ہے۔ پھر نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے۔ نہ کوئی آٹو گراف مانگتا ہے اور نہ دیکھ کر لوگ ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں کہ یہ سلیبیرٹی جارہاہے۔ یہ ماضی کے مشہور شخص کے لیے بڑا المیہ ہے لیکن اگر دور عروج میں بے گانگی ہو تو کیا ہو؟۔ آج کے بچے نرگس اور راج کپور سے واقف نہیں، حنیف محمد اور بیدی کے پرستار بزرگ ہوچکے ہیں۔
وحید مراد گواسکر، ندیم، آصف اقبال اور ماجد خان کے چاہنے والے جوانی کی سرحد پار کرچکے ہیں۔ سنتوش، صبیحہ، فضل محمود اور نذر محمد کی بات نئی نسل سے کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مانند ہے۔ امیتابھ بچن اور عمران خان کی بات اور ہے ورنہ ستاروں کی چمک دھمک پندرہ بیس برسوں میں ماند پڑجاتی ہے۔ عوام کا موڈ اچانک بدلتا ہے، ایجادات یکایک سامنے آتی ہیں کہ بڑے سے بڑا اسٹار وقت کے سیلاب میں بہنے سے خود کو نہیں بچاسکتا۔ عوام کی اکثریت ایک ہیرو کو چھوڑ کر دوسرے کی پرستار بن جاتی ہے۔ کسی کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا سپر اسٹار کس حال میں ہے۔ بزرگی میں بیمار ہوکر اسپتال جائے یا انتقال کرجائے تو ایک دو دن یاد کرکے دنیا ایک بار پھر کسی اور جانب لپک پڑتی ہے۔
محمد علی باکسر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج عمر کی نصف سنچری مکمل کرنے والوں کو یاد ہے کہ ان کے بچپن میں شاندار باکسر کے مقابلے کس طرح ٹی وی پر دکھائے جاتے تھے۔ اس کی جیت یا ہار پر خوشی یا غم کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ آج کے بچے اس عظیم اسپورٹس مین سے ناواقف ہیں۔ مائیکل جیکسن کو دس سال بعد پیدا ہونے والا امریکی بچہ نہیں جانتا ہوگا۔ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہر زمانے اور ہر دور میں نئے سپر اسٹارز مانگتے ہیں۔ ایک ہی چیز دیکھ کر تنگ آجانے والے عوام کا موڈ موسم کی ادا کی طرح بدل جاتاہے۔ پھر ماضی کے بڑے بڑے فلمی اداکار اپنے اپنے وقت کو حسرت سے یاد کرتے ہیں جب بیک وقت ان کی نصف درجن فلمیں نصف درجن سینمائوں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ جب میچ جیتنے اور کامیاب دورے کے بعد نصف درجن کلومیٹر پر جلوس کھلاڑی کا استقبال کیا کرتاتھا۔ جب ٹی وی اداکار کے نصف درجن ڈراموں کی تاریخیں اس کی ڈائریوں میں درج ہوتی تھیں، جب نصف درجن چینلز کے مالکان اینکر پرسن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دور، یہ وقت اور یہ زمانہ دس پندرہ برسوں پر محیط ہوتاہے۔ پھر عوام کے ہیروز بدل جاتے ہیں کہ بڑا بے وفا ہوتاہے انسان بھی اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں یہ لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔
لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔ یہ تین جملے فلمی ہدایت کار پکارتے ہیں جب کوئی فلمی منظر پکچرائز ہوتا ہے۔ پھر اداکار اپنے فن کے جلوے بکھیرتے ہیں۔ سین اوکے ہوجاتاہے تو بس تالیاں بجاتے ہیں۔ سپر اسٹار نے اچھا کام نہ بھی کیا ہو تو تعریف اور خوشامد کی جاتی ہے۔ یہ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہی ہے جو اپنے سامنے آنے والوں کو عزت، دولت اور شہرت عطا کرتاہے۔ پہلے فلموں پھر ٹی وی اور اب سیاست کے کھلاڑیوں کو سامنے بٹھائے ٹی وی میزبان جیسی چیزوں نے تین چیزیں کس طرح عطا کیں؟ یہ پہلے دلچسپ کہانی ہوتی ہے جس کا اختتام بڑا المناک ہوتاہے۔ فلموں کے اداکار، ٹی وی کے فنکار، کھیلوں کے سپر اسٹارز اور اب حالات حاضرہ کے پروگراموں کے اینکر پرسن ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہیں۔ ہم دیکھیںگے کہ جگمگاتی روشنیوں میں جگمگانے والے سیاست دان، تجزیہ کار، فنکار و کھلاڑی کس نفسیاتی کامیڈی اور ٹریجڈی سے گزرتے ہیں۔
دلیپ کمار اور راج کپور کی ایک زمانے میں دھوم تھی تو نرگس اور مدھوبالا بھی بڑی اداکارائیں ہواکرتی تھیں۔ فلم اس دور کے لوگوں کے لیے واحد اچھی اور سستی تفریح تھی۔ (اسٹوڈیوز کی دنیا کے یہ تین جملے فلمی اسکرین تک آکر گمنام اداکاروں کو عزت، دولت اور شہرت کے مقام تک پہنچادیتے ہیں۔ فلمی دنیا ہالی وڈ سے بمبئی آئی تو یہ بالی وڈ کہلائی اور لاہور پہنچ کر لالی وڈ بن گئی۔ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کا جملہ اپنے ساتھ پرستاروں کا ہجوم لے کر آتاہے۔ جب پاکستان میں فلمیں بننے لگیں تو سنتوش، سدھیر، صبیحہ، اسلم پرویز، نور جہاں، درپن ہمارے اسٹارز کہلانے لگے۔ جب کیمرے نے اپنے رنگ بکھیرے تو زمانے نے وحید مراد، زیبا، محمد علی، ندیم، شاہد، شبنم، بابرا شریف کو بڑے اداکاروں کی صف میں دیکھا۔
جب پاکستان میں یہ زمانہ ختم ہوا تو فلمیں سینمائوں میں بڑی اسکرین کے بجائے چھوٹی اسکرین پر گھروں میں دیکھی جانے لگیں۔ اس دور کے سپر اسٹارز امیتابھ بچن، زینت امان، دھرمیندر، ریکھا، امجد خان اور ہیما مالنی کہلائے۔ ان کی کامیابی کا سبب بھی لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہی تھا۔ یہ تین جملے صرف فلمی دنیا تک محدود نہ رہے بلکہ کھیل اور سیاست کی دنیا میں آگئے۔ پھران تین جملوں نے نئے سپر اسٹارز جنم دیے۔ ابتدا میں اداکاروں کو ہزاروں تو پھر لاکھوں اور اب کروڑوں روپے مل رہے ہیں۔ پھر زمانہ خانوں کا آیا تو اس کا سبب بھی یہ تین جملے ہیں۔ شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان دو صدیوں کے سنگم کے کامیاب اداکار ہیں۔ اب فلمیں ہفتہ بھر میں کئی سو کروڑ روپے کمالیتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہے تو اس کا سبب لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہے۔ اب دیکھیں کہ جب یہ تین جملے کھیل، سیاست اور ٹی وی کی دنیا میں آئے تو انھوں نے کیا کچھ جولانیاں (Jolaniyan) بکھیری ہیں۔
کھیلوں کی دنیا میں جب لائٹ اور کیمرہ آیا تو اس نے کھلاڑیوں کو سپر اسٹار بنادیا۔ جب فضل محمود، حنیف محمد، نذر محمد اور امتیاز کے دور میں یہ تین جملے آئے تو یہ کھلاڑی بڑے کھلاڑی کہلائے۔ یہ ابتدائی زمانہ تھا اور کھلاڑیوں کو چند سو روپے بھی بمشکل ملا کرتے تھے۔ جب ٹی وی کی اسکرین پر میچ دکھائے جانے لگے تو آصف اقبال، ظہیر مشتاق اور ماجد کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ جب میچ لائیو دکھائے جانے لگے تو یہ عمران اور میانداد کا دور تھا۔ کھلاڑی سال بھر میں لاکھوں کمانے لگے اور ریٹائرڈ ہوتے ہوتے ایک دو کروڑ تک کمالیتے۔ کیمرے نے اپنے انداز کو بدلا۔ اب کرکٹ میچ کمنٹری اور جھلکیوں سے نکل کر براہ راست Liveکی سطح تک آگئے تھے۔ پھر زمانے نے وقار، انضمام، معین، وسیم، یوسف اور یونس کے عروج کا زمانہ دیکھا۔
یوں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز جیسے دور دراز علاقوں سے میچ براہ راست دکھائے جانے لگے۔ ہر دور کے کھلاڑی صرف ایک سال میں سابقہ کھلاڑیوں کی پندرہ، سترہ سالہ زندگی جتنا کمالیتے ہیں۔ یہ سب کچھ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کی بدولت ہے۔ زمانے نے مزید ترقی کی۔ سیکڑوں چینلز صرف انگلی کے اشاروں کے محتاج ہیں۔ یہ دور عمر اکمل، مصباح، سعید اجمل اور شاہد آفریدی کا دور کہلایا۔ اب درجنوں اسپورٹس چینلز نے آمدنیوں کو روپوں سے ڈالرز میں بدل دیاہے۔ اشتہارات سے اضافی آمدنی رکی ہی نہ تھی کہ پریمیئر لیگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس طرح صرف فلموں کے اسٹارز کو ہی سپر اسٹارز نہ کہا گیا بلکہ کرکٹ کی دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی بھی ان کے مقابل آگئے۔ یوں برابر کی ٹکر نے کئی رومانوی داستانوں کو جنم دیا۔ فلمی ہیروئن اور کرکٹ کھلاڑی۔ ان دونوں کی دوستیوں، داستانوں، شادیوں، اختلافات اور طلاقوں سے اسپورٹس و فلمی صفحات بھرے نظر آتے ہیں۔
لائٹ، کیمرہ اور ایکشن کی دنیا نے ایک اور دنیا کا رخ کیا، ہم اسے سیاست کی دنیا کہہ سکتے ہیں یا صحافت کی دنیا کہہ سکتے ہیں یا ٹی وی کے حالات حاضرہ کی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ تینوں چیزیں اکیسویں صدی میں ایک مقام پر ٹھہریں تو اینکر پرسن کی اصطلاح سامنے آئی۔ پرسن کے لفظ نے مرد و عورت کی تمیز ختم کردی۔ سیاسی لیڈروں کو ٹی وی مذاکروں میں گفتگو کروانے کے زمانے نے جنم لیا۔ ہفتے میں تین چار مرتبہ یا یوں کہہ لیں کہ مہینے میں بارہ تیرہ مرتبہ ایک شخص ہمیں اپنی جھلک دکھانے لگا۔ خیر سیاسی مہمانوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے والا چینل بدلنے پر خود بخود نظر آتاہے۔ فلمی ہیرو کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد فلم کی تکمیل پر جھلک دکھاتے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ اسٹارز بھی کبھی کبھار اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ٹی وی اداکار کالو رام ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اینکر پرسن اکیسویں صدی کے ابتدائی دور کا سپر اسٹار ہے۔ وہ پرسوں کے فلمی ہیرو اور کل کے کرکٹ ہیرو سے بھی بڑھ کر ہوگیاہے۔ صحافت کی دنیا نے لاکھوں کا معاوضہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ پچھلی صدی تک بڑے سے بڑا صحافی اور مشہور ترین کالم نگار بھی بڑے سے بڑے صحافتی ادارے میں چند ہزار ہی پاسکتاتھا۔ ٹی وی کی اس صحافتی دنیا نے سیاسی پروگرام کرنے والوں کے معاوضے لاکھوں سے بڑھاکر ملین تک پہنچادیے ہیں۔ اس کا بڑا سبب وہی لائٹ، وہی کیمرہ اور وہی ایکشن ہے۔
ٹریجڈی کیا ہے؟ فلم، کرکٹ اور صحافت کے سپر اسٹارز کی کہانی میں خوشی تو ہے لیکن غم کیا ہے؟ خوشی یہ ہے کہ لوگ جانتے پہچانتے ہیں، روپوں کی ریل پیل ہوتی ہے اور عزت تو سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ وقت بڑا ظالم ہے۔ یہ وہ تبدیلیاں لاتاہے کہ ہر کمال کو زوال کی جانب دھکیل دیتاہے۔ نئے لوگ، نئی تبدیلی یا نئی ایجاد آتی ہے یا لوگوں کی پسند و ناپسند بدل جاتی ہے تو شہرت گمنامی میں بدل جاتی ہے۔ پھر نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے۔ نہ کوئی آٹو گراف مانگتا ہے اور نہ دیکھ کر لوگ ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں کہ یہ سلیبیرٹی جارہاہے۔ یہ ماضی کے مشہور شخص کے لیے بڑا المیہ ہے لیکن اگر دور عروج میں بے گانگی ہو تو کیا ہو؟۔ آج کے بچے نرگس اور راج کپور سے واقف نہیں، حنیف محمد اور بیدی کے پرستار بزرگ ہوچکے ہیں۔
وحید مراد گواسکر، ندیم، آصف اقبال اور ماجد خان کے چاہنے والے جوانی کی سرحد پار کرچکے ہیں۔ سنتوش، صبیحہ، فضل محمود اور نذر محمد کی بات نئی نسل سے کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مانند ہے۔ امیتابھ بچن اور عمران خان کی بات اور ہے ورنہ ستاروں کی چمک دھمک پندرہ بیس برسوں میں ماند پڑجاتی ہے۔ عوام کا موڈ اچانک بدلتا ہے، ایجادات یکایک سامنے آتی ہیں کہ بڑے سے بڑا اسٹار وقت کے سیلاب میں بہنے سے خود کو نہیں بچاسکتا۔ عوام کی اکثریت ایک ہیرو کو چھوڑ کر دوسرے کی پرستار بن جاتی ہے۔ کسی کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا سپر اسٹار کس حال میں ہے۔ بزرگی میں بیمار ہوکر اسپتال جائے یا انتقال کرجائے تو ایک دو دن یاد کرکے دنیا ایک بار پھر کسی اور جانب لپک پڑتی ہے۔
محمد علی باکسر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج عمر کی نصف سنچری مکمل کرنے والوں کو یاد ہے کہ ان کے بچپن میں شاندار باکسر کے مقابلے کس طرح ٹی وی پر دکھائے جاتے تھے۔ اس کی جیت یا ہار پر خوشی یا غم کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ آج کے بچے اس عظیم اسپورٹس مین سے ناواقف ہیں۔ مائیکل جیکسن کو دس سال بعد پیدا ہونے والا امریکی بچہ نہیں جانتا ہوگا۔ لائٹ، کیمرہ اور ایکشن ہر زمانے اور ہر دور میں نئے سپر اسٹارز مانگتے ہیں۔ ایک ہی چیز دیکھ کر تنگ آجانے والے عوام کا موڈ موسم کی ادا کی طرح بدل جاتاہے۔ پھر ماضی کے بڑے بڑے فلمی اداکار اپنے اپنے وقت کو حسرت سے یاد کرتے ہیں جب بیک وقت ان کی نصف درجن فلمیں نصف درجن سینمائوں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ جب میچ جیتنے اور کامیاب دورے کے بعد نصف درجن کلومیٹر پر جلوس کھلاڑی کا استقبال کیا کرتاتھا۔ جب ٹی وی اداکار کے نصف درجن ڈراموں کی تاریخیں اس کی ڈائریوں میں درج ہوتی تھیں، جب نصف درجن چینلز کے مالکان اینکر پرسن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دور، یہ وقت اور یہ زمانہ دس پندرہ برسوں پر محیط ہوتاہے۔ پھر عوام کے ہیروز بدل جاتے ہیں کہ بڑا بے وفا ہوتاہے انسان بھی اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں یہ لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔