پروپیگنڈہ بمقابلہ دلیل

ہم زندگی میں کتنا ہی پروپیگنڈا کرلیں لیکن دلیل مضبوط ہو تو پروپیگنڈے کام نہیں آتے


خطیب احمد June 24, 2019
پروپیگنڈہ کرنے والے نت نئے طریقے آزماتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

من گھڑت قصے کہانیاں، فرضی واقعات، جملے بازی، دلیل سے خالی بے بنیاد باتوں کو منوانے کے جتن کرنا، گری ہوئی باتوں کو گمراہ کن مثالیں دے کر وزنی کرنا، اپنی عظمت کی ڈینگیں مارنا۔ زہر اگلتی، جھوٹ بولتی زبانیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ حقیقت خرافات میں کھوگئی ہے۔


اگر حقائق کو مسخ کرکے توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے اسلوب کی پختگی آپ کو حاصل ہے، تو یقین مانیے آپ عوام کو گمراہ کرسکتے ہیں۔ جابجا آپ کا ہی ڈنکا بجایا جائے گا۔ آمریت کے دور میں لکھنے والے موہوم اشاروں میں بات لکھتے تھے اور انسان تشکیکیت میں مبتلا رہتا ہے کہ رویا جائے یا ہنسا جائے۔ اگر کسی کو سمجھ آگیا تو مسئلہ پیدا ہوجائے گا، کیونکہ اس وقت نہ دلیل دی جاسکتی ہے، نہ ہی پروپیگنڈا کیا جاسکتا ہے، بس حکم ماننا ہوتا ہے۔

ایک سادہ سی مثال ہے کہ اگر وطن عزیز کے گزشتہ ستر سالہ دور سے واقفیت ہو، تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ اس ملک پر چار ڈکٹیٹر مسلط کردئیے گئے تھے۔ چاروں کو فرشتہ صفت بتا کر ایسا تاثر دیا گیا کہ یہ خدا کی جانب سے بھیجے گئے ہیں، جو عوام کو مسائل سے نکالنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ کسی میں جرأت نہیں کہ ان کے دور عروج میں ان کے خلاف کوئی بول پائے، اقتدار کے مالک تھے، نہ عدالت میں پیشی کا ڈر تھا نہ ہی پارلیمان کو جوابدہ تھے۔ سرکشی کے گھوڑے کی لگام بھی ان ہی کے ہاتھوں میں تھی۔ ان کے غلام جمہوریت اور آئین کے حامیوں پر کیچڑ اچھالا کرتے تھے۔ وہ بھی کیا کریں، آخر ان کے ذمے جو کام دیا گیا ہے، وہ تو اسے جانفشانی کے ساتھ پورا کریں گے۔ بھلے یہ پروپیگنڈے کا زمانہ ہو، لیکن جمہوریت کی بالادستی کے لیے کچھ مرد مجاہد اٹھتے ہیں، جو دلیل کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں، جب دلیل کا جواب نہیں ہوتا، تو منہ سے انمول موتیوں کی طرح گالیاں نکلتی ہیں۔

اکثر پروپیگنڈہ کرنے والے نت نئے طریقے آزماتے ہیں، کیونکہ یہ اپنے ملک کے مسائل نہ حل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی تاویل میں ان کے پاس کوئی مضبوط دلیل موجود ہوتی ہے، جس کو وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں۔ یہ عوام کو دوسرے ممالک کی مثالیں دے کر متاثر کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اپنی مرضی کی مثالوں کو اکھٹا کرکے اس انداز میں پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے سامنے خود کو ارسطو ثابت کرپائیں۔ کہتے ہیں کہ امریکا ہی ہے، جو پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور بھارت کو کیسے بھول سکتے ہیں، اس پر بھی الزام لگائے جاتے ہیں کہ ملک میں جاری انتشار کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ پروپیگنڈے میں اس حد تک گر جاتے ہیں کہ ان لوگوں کا بس چلے، تو یہ پانی کے کُولر سے لٹکے گلاس کے چوری ہونے کا الزام بھی امریکا پر لگا دیں۔

خیر یہ تو سیاست کی بات تھی، اب عملی زندگی میں آئیے۔ عام مثال لے لیجیے کہ کچی آبادیوں میں کنڈوں کی بھرمار ہوتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو رہتا ہے۔ جب بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کی جانب سے بِل آتا ہے، تو ہم یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کرتے ہیں کہ انھوں نے بِل اپنی مرضی سے بھیج دیئے ہیں۔ لیکن ہمارے معصوم عوام اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے کہ وہ بھی اپنی مرضی سے کنڈے لگالیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو سِرے سے سچ بولنے اور دلیل کا رواج ہی نہیں ہے، تو اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کی تاویل میں پروپیگنڈا شروع کرتے ہیں۔

یہ ایک ایسی عادت ہے، جو ہر درجے کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اگر آپ عقل کے گھوڑے دوڑاٰئیں تو یاد آئے گا کہ ہم اسکول میں بھی اس عادت کا بھرپور استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ بالیدگی کا دور تھا، تو ان اصطلاحات سے آگاہی نہیں تھی۔ اسکول میں جب ہماری کلاس ٹیچر ہمارا ٹیسٹ لیتی تھیں، تو ہمیں ٹیسٹ یاد نہیں ہوتا تھا تو ہم جیسا تیسا لکھ دیا کرتے تھے۔ اس اداکاری کے ساتھ لکھتے تھے کہ جیسے ہمیں سب کچھ آتا ہے؛ اور پورے کاغذ کو جہاں بھر کی معلومات سے بھر کر سیاہ کر دیتے تھے۔ جب نتائج آتے تھے، دوستوں کے درمیان اور والدین کے سامنے کلاس ٹیچر کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتے تھے کہ ہم نے تو پورا پورا لکھا تھا مگر ٹیچر نے نمبر کم دیئے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس یہ ہی دلیل ہوا کرتی تھی کہ ہم نے پورے صفحے بھرے ہیں؛ اور اس بات سے بھی آشنا ہوتے تھے کہ ٹیچر تھوڑی پڑھیں گی، جو مرضی لکھ دو! مگر پروپیگنڈا کرنے میں صف اول ہوا کرتے تھے۔ یہ حال کم و بیش سب ہی بچوں کا ہوتا ہے۔

آخرکار عملی زندگی کی مثالیں دے کر یہ ہی سمجھنا تھا کہ ہم زندگی میں کتنا ہی پروپیگنڈا کرلیں لیکن دلیل مضبوط ہو تو پروپیگنڈے کام نہیں آتے۔ لہٰذا ہمیشہ دلیل کے ساتھ درپیش مسائل کا دفاع کیجیے، چاہے پروپیگنڈا کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں