عزت سے واپسی
میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں اپنی مدت مکمل کرکے عزت کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت ہورہا ہوں۔ صدر زرداری
ISLAMABAD:
اپنی آئینی مدت 5سال مکمل کرنے اور اپنی پارٹی کی حکومت کو کسی بھی طرح مدت پوری کرانے والے صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہاہے کہ میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں اپنی مدت مکمل کرکے عزت کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت ہورہا ہوں۔ صدر زرداری کے بیان پر صرف جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ نہ جانے کونسی لغت میں اس کو عزت کہا جاتا ہے ۔
جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی، اس وقت اس کے پاس سب سے زیادہ نشستیں تھیں مگر وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس لیے ملک میں دو بڑی پارٹیوں کی حکومت پہلی بار قائم ہوئی تھی جس پر سیاسی اور عوامی حلقے مطمئن تھے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی مشترکہ حکومت کچھ کرکے دکھائے گی اور ملک و قوم کی حالت بدلے گی۔ مگر افسوس یہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا اور بعض وجوہات کے باعث مسلم لیگ ن حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور آصف علی زرداری کو پی پی حکومت برقرار رکھنے کے لیے پہلے متحدہ، اے این پی، جے یو آئی اور فاٹا کے ارکان کو اور بعد میں مسلم لیگ ق کو بھی اپنے ساتھ ملانا پڑا تھا۔
قومی مفاہمت کے نام پر بننے والی پی پی حکومت کا واحد کمال یہ تھا کہ آخر تک اسے ایوان میں اکثریت حاصل رہی۔ مگر اس اتحادی حکومت کو اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا یہ الگ داستان ہے۔ جس کا سب کو علم ہے۔ پی پی حکومت اپنا اقتدار بچانے کے لیے اتحادیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھی اور نہیں بھی تھی کیوںکہ متحدہ، جے یو آئی، اے این پی اور فاٹا ارکان 5سال تک حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے مگر جے یو آئی کے سوا کوئی حکومت سے علیحدہ نہیں ہوا اور اتحادی حکومت نے بغیر کسی دشواری کے اپنی مدت پوری کرلی۔ جس کا کریڈیٹ صدر آصف زرداری کو جاتاہے مگر اس کی سزا ملک کی سب سے بڑی پارٹی کہلانے والی پیپلزپارٹی کو بھگتنا پڑی اور 2013کے انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسے مسترد کردیا اور پی پی صرف سندھ میں اپنی اکثریت برقرار رکھ سکی اور ملکی سطح پر پی پی شکست سے دو چار ہوئی اور پی پی حکومت کی پہلی اتحادی مسلم لیگ ن اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
صدر آصف علی زرداری محترمہ کی پہلی حکومت میں الزامات کی زد میں رہے اور محترمہ کی شہادت کے بعد 2008میں نہ صرف وہ پی پی کی حکومت بنوانے میں کامیاب رہے تھے جس کی وجہ سے جنرل پرویز کے استعفے کے بعد وہ بہت بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب کیے گئے تھے اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت مضبوط ہوگئی تھی اور ملک کی اپوزیشن بھی 5سال فرینڈلی اپوزیشن رہی اور پی پی حکومت کو اپنے صدر کی موجودگی میں کسی قسم کی مشکل نہیں آئی ۔البتہ سپریم کورٹ کی طرف سے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف ہونا پڑا، نہ صرف ان پر بلکہ ان کے خاندان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے۔ آصف علی زرداری کو صدر مملکت ہونے کے باعث استثنیٰ حاصل تھا جو اب 9ستمبر کو ختم ہورہاہے۔
ایکسپریس کے کالم نگار جاوید چوہدری نے ''ہوا'' کے عنوان سے جو کالم گزشتہ دنوں لکھا اس کے مطابق آصف علی زرداری پر صدر کی حیثیت سے کوئی الزام نہیں لگا۔ مگر ماضی میں لگنے والے الزامات کا صدر زرداری کوئی بھی توڑ نہ کرسکے اور مخالفین آج بھی ان الزامات کے درست ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ جب کہ عدالتوں میں ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا مگر ان الزامات سے صدر آصف زرداری کی جان نہیں چھٹی اور دور صدارت میں بھی ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے رہے جن سے جان چھڑانے کی صدر مملکت نے کوشش بھی کی مگر میڈیا میں ان کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا جس کو صدر زرداری نے اہمیت نہیں دی۔
یوسف رضا گیلانی کے بعد کسی اچھی شہرت کے حامل پی پی کے رکن قومی اسمبلی کو وزیراعظم نامزد کرنے کی بجائے صدر زرداری نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنوانے کی جو غلطی کی وہ بھی پی پی کی شکست کا باعث بنی ہے، راجہ پرویز کا وزیراعظم بنایا جانابعض حلقوں کی جانب سے پسند نہ کیا گیا جس کا ثبوت راجہ پرویز کی عبرتناک شکست ہے۔ وزیراعظم بنانے کے فیصلے پر بعض حلقوں نے تصور کرلیا تھا کہ صدر زرداری بدعنوانیوں میں ملوث پارٹی رہنمائوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کی 5سالہ حکومت میں وفاق، سندھ اور بلوچستان میں کسی ایک وزیر کو بھی کرپشن کے باعث نہیں ہٹایا گیا۔ جب کہ دنیا بھر میں کرپشن کی داستانیں عام تھیں۔
صدر آصف علی زرداری دوست نواز مشہور ہیں اور انھیں اپنے جیل کے ساتھی بھی بہت عزیز رہے ہیں جنھیں انھوںنے دل کھول کر نوازا مگر مخالفین نے اسے بھی ایشو بنا لیا۔ پی پی دور میں ملک کی سب سے بڑی کابینہ بنی۔ ہر جگہ کمیشن اور کرپشن کا شور رہا ۔ 5سالوں میں معیشت برباد اور عوام حکومت سے بیزار ہوگئے اور آخر انھوںنے 11مئی کو پی پی امیدواروں کو مسترد کرکے اپنا انتقام لے لیا، اقتدار برسراقتدار پارٹی کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتی کہ حالیہ الیکشن نے یہ ثابت کردیا۔ صدر آصف زرداری اپنی واپسی کو اگر عزت سے جانا سمجھتے ہیں توشاید ایسا ہو لیکن پیپلز پارٹی کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ 9ستمبر کے بعد نئے نئے انکشافات ہوںگے۔