کراچی میں قیام امن کی کوشش
کراچی میں امن وامان کی جوابترصورتحال ہے اس سے کسی کو انکار نہیں
لاہور:
کراچی میں امن وامان کی جوابترصورتحال ہے اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کو بہتر بنانے کے لیے کسی کوفرار نہیں لیکن اگر مقصد واقعتا امن وامان بہتر بنانا ہو تو اس کے لیے اقدامات بھی سنجیدگی، غیر جانبداری اور نیک نیتی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور رخصت ہوتے ہوئے صدر مملکت کی نسبت موجودہ وزیراعظم میاں نوازشریف کراچی پہنچے ہیں اور کراچی میں قیام امن کے مسئلے پر اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاسوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکے ساتھ ملاقات بھی کر رہے ہیں۔
لیکن ایسا لگتاہے کہ وزیراعظم صاحب کے اردگرد کچھ سیاسی یا غیرسیاسی عناصر کراچی کے حوالے سے انھیں دوبارہ 1992ء کے منظرنامے میںلیجانا چاہتے ہیں اور جس طرح 1992ء میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والوں اور ان کی سرپرستی کرنے والے سندھ کے بڑے بڑے 72 پتھاریداروں جنھیں 72 بڑی مچھلیاں کہا گیا تھا۔ ان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا لیکن سب جانتے ہیںکہ اس آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ دیا گیا تھا۔ اب بھی ایساہی معلوم ہو رہا ہے اور کراچی میں تمام تر جرائم کو ایم کیو ایم کے سر تھوپا جا رہا ہے اور دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں کے خلاف ایکشن کے نام پر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
ایم کیو ایم نے پہلی بار 1987ء میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کے بعد 1988ء، 1990ء، 1993ء اور 1997ء۔ یہ وہ دور ہے جب ایم کیو ایم نے کبھی پیپلزپارٹی اورکبھی میاں نوازشریف کی مسلم لیگ کی مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران ایم کیو ایم کو بدنام کرنے کے لیے اس کے خلاف مختلف نوعیت کے الزامات لگائے گئے...کبھی پنجابی پختونوں سے لڑائی جھگڑوں کے الزامات... کہیں بھی کوئی واقعہ ہو اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگایا جاتا رہا لیکن بھتہ خوری کے الزامات شاذونادر ہی لگائے گئے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں یہ شکایات ضرور آئیں کہ زکوٰۃ کے لیے پہلے سے رقم لکھ کر رسید دی گئی، قربانی کی کھال زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ ایم کیو ایم نے ان شکایات کا فوری سدباب کیا اور جہاں شکایت ملی اور تنظیم کا جو فرد بھی ایسے عمل کا مرتکب پایا گیا اس کے خلاف تنظیمی کارروائی کی گئی...ایم کیو ایم نے تو بارہا یہ اعلانات کیے کہ جہاں عوام کو ایم کیو ایم کے کارکنوں کے حوالے سے کوئی شکایت ہو فوراً نائن زیرو پر رابطہ کریں تاکہ ایسے لوگوں کے خلاف تنظیمی سطح پر کارروائی کی جائے۔
یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم میں سب فرشتے نہیں ہیں...ایم کیو ایم کے بعض لوگوں سے بھی غلطیاں ہوئیں، ایم کیو ایم نے انھیں تسلیم کرتے ہوئے اصلاح احوال اور خود احتسابی کا عمل کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح آج کراچی میں تاجروں، دکانداروں، صنعتکاروں اور دیگر اہل ثروت افراد سے کھلے عام بھتہ وصول کیا جارہا ہے... انھیں جس طرح پرچیوں میں باقاعدہ فون نمبر دیے جارہے ہیں... بھتہ نہ دینے والے تاجروں اور صنعتکاروں کی دکانوں، کاروباری مراکز اور گھروں پر دستی بموں سے حملے کیے جارہے ہیں...کراچی میں جس بڑے پیمانے پر بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں ...جس طرح بڑے پیمانے پر اسٹریٹ کرائمز ہو رہے ہیں...جس طرح آج کراچی میںچھوٹے بڑے تاجر، دکاندار اور صنعتکار آج ان جرائم کے خلاف جلوس نکال رہے ہیںکیا اس طرح کی صورتحال اس سے قبل تھی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ تاجروں، صنعتکاروں اور کاروباری حضرات سے کھلے عام بھتہ وصول کرنا... انھیں پرچیاں دینا... بھتہ نہ دینے پرانھیں دستی بموں کانشانہ بنایاجانا...حتیٰ کہ انھیں قتل تک کردینے کے واقعات اسی وقت سے شروع ہوئے ہیں جب سے پیپلزپارٹی کی حکومت آئی ہے۔
کیا کبھی ایم کیوایم کے دورمیں تاجربرادری کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے؟...کیا ایم کیو ایم کے دورمیں تاجروں نے کبھی اس طرح سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا؟...ہاں کراچی میں مجرمانہ غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے واقعات اس وقت ضرور ہوئے جب حقیقی دہشت گردوں کو 19 جون 1992ء کو سرکاری ٹرکوں میں بٹھا کر لایا گیا اور کراچی کے مختلف علاقوں میں ان کے قبضے کرائے گئے۔ لیکن جو صورتحال آج ہے ایسی صورتحال کبھی نہ تھی۔ بدقسمتی سے آج کرمنلز کا ایک طبقہ کراچی کوٹیک اوور کر چکا ہے۔ ان کی پناہ گاہیں، پولیس وقانون نافذ کرنیوالے اداروں اورانٹیلی جنس ایجنسیوں کومعلوم ہیں۔ جو پولیس والے ان کے علاقوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر فوراً مداخلت ہوتی اور ان کرمنلز کے خلاف آپریشن بند کرا دیا جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ سال لیاری میں کیا گیا۔ اگر صورتحال یہ ہو گی تو پھر شہر میں امن کس طرح ہو سکتا ہے؟آج اکثر کہا جاتا ہے کہ کراچی میں ماضی میں آپریشن میں حصہ لینے والے ایک ایک پولیس والے کو چن چن کر قتل کر دیا گیا۔
جب معصوم لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لے جایا جائے گا اور عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے سرکاری حراست میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر انھیں ماورائے عدالت قتل کر دیا جائے گا یا جعلی پولیس مقابلوں میں بیدردی سے قتل کر دیا جائے گا تو پھر کیا ہوگا؟ پھر لوگوں میں اپنی بقاء کے لیے کچھ اور سوچ پیدا نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟...پھر لوگ جواب میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ ...کیا لوگوں کو ریاستی تشدد کا نشانہ بنا کر آپ انھیں بغاوت کے راستے پرنہیں ڈال رہے؟... لگ رہا ہے کہ آج پھر وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ارباب اختیار تلے بیٹھے ہیں کہ مہاجروں کو پاکستان کی سرزمین سے مٹانا ہے ... ایم کیو ایم کو ختم کرنا ہے ...کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سندھ میں گورنر ایم کیو ایم کا ہے تو سب جانتے ہیں کہ گورنر کے پاس کتنے اختیارات ہیں۔ ایم کیو ایم نے لڑائی اور تصادم سے ہر قیمت پر گریز کیا لیکن حیرت ہے کہ اسے اس کا صلہ اس طرح دیا جا رہا ہے۔
نوازشریف صاحب کی جماعت نے ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا...سندھ میں گورنر راج نافذ کیا... اور مہاجروں کو ریاستی مظالم کا نشانہ بنایا۔ آج پھر ایسی ہی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 1992ء کی طرح یہ آپریشن بھی ایم کیو ایم کے خلاف کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ...یہ آپریشن دراصل ایم کیو ایم کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے ہے... ایک جماعت جو جاگیرداروں اور وڈیروں سے پاک ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ ملک پر جاگیرداروں کا قبضہ برقرار رہے...ہاری اور کسان ان کے غلام رہیں...اور ملک پر جاگیرداروں، وڈیروں کی حکمرانی رہے۔ ایم کیو ایم نے اس سسٹم کو نہ پہلے قبول کیا ہے اور نہ ہی اب کرے گی...ہم مہاجروں کو ان کے حقوق دلانے سے دستبردار نہیں ہو سکتے... یہ اس طبقہ آبادی کے خلاف پھر سازش ہے جس کو بار بار ریاستی آپریشن سے ختم نہیں کیا جاسکا۔...ہمارا ایمان کہ اللہ تعالیٰ اوپر بیٹھا ہے... وہی بہتر انصاف کرنیوالا ہے۔
ہم مہاجروں کے آباؤاجداد کے بنائے ہوئے وطن پر اپنے حق سے نہ انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس حق سے دستبردار ہو سکتے ہیں...ہم مرنا پسند کریں گے لیکن غلامی اور تیسرے درجے کے شہری کی زندگی گزارنا قبول نہیں کریں گے۔آج پھر وہی روش اختیار کی جا رہی ہے کہ ہر واقعہ... ہر چیز کا الزام ایم کیو ایم کے سر پر ڈال دیا جائے...کراچی میں آج جو صورتحال ہے اور جس طرح یہاں کے تاجر اور سرمایہ دار اپنا سرمایہ ملائیشیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک منتقل کر رہے ہیں اس کا الزام بھی ایم کیو ایم کے سر تھوپا جا رہا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ آپ کراچی والوں کو کراچی کا نظم ونسق چلانے کا حق اور اختیار دیں...اگر وہ صورتحال کو ٹھیک نہ کریں تو پھر کہیے... آج صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی پولیس اور انتظامیہ مقامی نہیں ہے ...ایک انسپکٹر سے لے کر آئی جی اور ایک کلرک سے لے کر چیف سیکریٹری تک سب غیرمقامی ہیں جنھیں شہر کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیںہوتی۔ آپ پولیس وانتظامیہ میں مقامی لوگوں کوبھرتی کریں۔
ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ سندھ میں بسنے والے اردو بولنے والے سندھی ہیں لیکن اگر آپ سندھ سیکریٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو وہاں ڈھونڈنے سے بھی مہاجر نہیں ملے گا۔ یہ ناانصافیاں اور حق تلفیاں جاری رہیں گی تو اتحاد و یکجہتی کیسے پیدا ہو گی؟ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے اگر یہ سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا اور مختلف بہانوں سے کسی طبقہ آبادی کو ریاستی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا عمل کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں۔