آپس کا مقابلہ

آگے بڑھنے کے لیے ہمارے پاس سوائے خون بہانے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا۔

moosaafendi@gmail.com

کبھی ہم نے سوچا کہ لوگوں کے درمیان آپس کا مقابلہ پیدائش کے دن سے شروع ہوجاتاہے ؟ پیدائش کے دن سے مقابلہ نومولود نہیںکرتا بلکہ نومولودکے والدین ، مامے چاچے ،پھوپھیاں اورخالائیں، اُس کے سر پر آپس میںمقابلہ شروع کردیتے ہیں۔

بچے کے لاشعور میں دوسروں سے مقابلہ ڈال دیا جاتاہے ۔ اِس کے دل و دماغ میںڈال دیا جاتاہے کہ چاہے وہ مقابلہ کرے یا نا کرے دوسرے اس سے زندگی بھر مقابلتاً نبردآزما رہیں گے یعنی مقابلے کے بغیر زندگی گذارنے کا کوئی تصور نہیں رہتا۔ مقابلہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار ناممکن ہے۔ اِس تناظر میںجوبات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی بھر دوسروں سے مقابلے کی حالت میں رہنا فطری ضروریات کی طرح آدمی کی ضرورت بن گیا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟

ایسا اس لیے ہے کہ ہر آدمی نے آگے بڑھنا ہوتا ہے چونکہ سب نے آگے بڑھنا ہوتاہے اس لیے اُن کا اِس مقصد کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیجانا ضروری ہے پیچھے رہ جانے والے کو کوئی بھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ واہ واہ آگے بڑھ جانے والے کی ہوتی ہے۔ اس لیے آدمی زندگی میںآگے بڑھنے اور پروان چڑھنے کے لیے جو بھی میدان چنے اُس میں اُس کا آگے نکلنا انتہائی ضروری ہوتاہے ۔ اُسے کمال تک پہنچانا ضروری ہوتاہے ۔

کِسب کمال کن کہ عزیزجہاں شَوی

مقابلے اچھی باتوں کے لیے بھی ہوتے ہیں اور بُرے کاموں کے لیے۔ اچھی باتوں میں سارے مثبت کام اور مثبت باتیں آجاتی ہیں جب کہ برے کاموں میںساری منفی باتیں اور منفی کام شامل ہوتے ہیں اچھی باتیں یا اچھے کام وہ ہوتے ہیں جنھیں بلاتفریق مذہب و ملت ، رنگ نسل وقت اور جگہ سبھی اچھا سمجھتے ہیں اِسی طرح بُرے کاموں کو بھی دنیا کے سبھی لوگ یکساں طور پر برا سمجھتے ہیں ۔ مثلاً سچے کو سبھی پسند اور جھوٹے کوسبھی ناپسند کرتے ہیں، چاہے خود سچے نہ بھی ہوں بلکہ عادتاً جھوٹے بھی ہوں۔ کیا آدمی باقاعدہ فیصلہ کرکے اچھا یا بُرا بنتا ہے یا بس اچھا یا برا بن جاتاہے ۔


تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی زندگی میں چند ہی فیصلے باقاعدہ طور پر سوچ بچار کے بعد مصمم ارادے سے کرتا ہے مثلاً پڑھائی مکمل کرنے کے لیے مضامین کا چنائو داخلے کے لیے اسکول کالج یا یونیورسٹی کا چنائو، ملازمت یا کاروبار کا چنائو شادی بیاہ کے لیے دولہا دُلہن کا چنائو، گاڑی کا، مکان وغیرہ خریدنے کے لیے فیصلے آدمی ذرا سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ باقی روزمرہ کی زندگی میں آدمی لمحہ لمحہ فیصلے باقاعدہ غور و فکر کے ساتھ نہیں بلکہ وقت اور مقام کے مطابق اپنی ذہنی ، دلی اورجذباتی کیفیات کی بنا پر کرتا ہے ۔

بیوی بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے لوگ سوچ بچار سے کام نہیں لیتے، بس ساری فرمائشیں فوری طور پر پوری کرلیتے ہیں۔ دفتروں میںاسی طرح افسروں کے جائز و ناجائز احکامات فوری طور پر بلا کسی چوں وچرا مان لیے جاتے ہیں ۔ مسجدوں میں امام کی باتیں فوراً مان لی جاتی ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ہم ان سب لوگوں کو اپنے سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جسے بھی ہم خود سے زیادہ اہم اور بڑا سمجھیں گے اُس کی ہر بات حکم اور فرمائش کو بغیر کسی حیل و حجت کے بجالائیں گے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوچ سمجھ کر آدمی فیصلے اکثر اچھے ہی کرتے ہیں جب کہ بُرے فیصلے زیادہ تر بغیر سوچے سمجھے کیے جاتے ہیں ۔ مثلاً سوچ سمجھ کر پورے فکروبچار کے بعد کوئی ڈاکونہیں بنتا ، قاتل نہیںبنتا، وطن فروش اور دین فروش نہیںبنتا، دہشت گر د اور فسادی نہیں بنتا یہ سب کچھ تو آدمی کسی کی محبت میںبنتا ہے کسی کو بڑا سمجھ کر اس کا کہنا مان کر بنتاہے یا کسی کو اہم سمجھ کر اس کے احکامات کی تکمیل میں بنتا ہے ۔

اِس وقت ہم جس افراتفری ، قتل وغارتگری ، لوٹ ماراور دہشت گردی اور طرح طرح کی دھاندلیوں اور بھتہ خوریوں کا شکار ہیں اس کے پیچھے یہی اندھی محبت اور اندھی تقلید ہے جس نے ہمیں اِس حال تک پہنچادیاہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمارے پاس سوائے خون بہانے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا۔

ارمانوں کا خون، چھوٹی چھوٹی اور معصوم خواہشات کاخون، رشتوں ناطوں کاخون، اڑوس پڑوس کاخون، حقوق وفرائض کا خون ، رسم ورواج کا خون، یعنی ہر اُس بات اور کام کا خون جو انسانیت کی بقا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ باہمی اتحاد اور یگانگت کو دن رات پارہ پارہ کرنے کے بعد اور صبح سے لے کر شام تک گھر گھر فساد مچانے کے بعد ہم قوم کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔
Load Next Story