مفادات کا کھیل
آج کل یہ ہی سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ہو رہا ہے۔ ملک بغیر عقل ودانش کے چلایا جا رہا ہے۔
ملٹن نے کہا تھا ''طاقت کے ذریعے صرف نصف دشمن پر قابو پایا جاسکتا ہے'' اور پھر اس کے بقیہ نصف دشمن آپ پر قابو پالیتا ہے ۔ کہتے ہیںکہ سارے سیانے ایک جیسا سوچتے ہیں اور سارے بے وقوف ایک جیسی حرکت کرتے ہیں۔
ہم سب چھوٹے چھوٹے دیوتا واقع ہوئے ہیں ، ہماری خو اہش ہوتی ہے کہ ہماری ہمیشہ پوجا کی جاتی رہے ہمارے منہ سے نکلی ہر بات کو حرف آخر سمجھا جائے ۔ اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا رہے ، ہماری کبھی مخالفت نہ کی جائے ، ہمارے سامنے کبھی '' نہ'' نہ کہا جائے ہم جہاں بیٹھے ہیں وہاں سے کبھی بھی جانے کا نہ کہا جائے ۔اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی اقتدارکی کرسی پہ جا کر بیٹھ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو بڑا دیوتا سمجھنے لگ جاتا ہے اور باقی سب کو اپنا پجاری ۔
اور ساتھ ہی ساتھ وہ خود بھی اپنا پجاری بن جاتا ہے۔ پھر جب اس کی مخالفت کی جانے لگتی ہے، اس کی بات کے خلاف بات شروع ہوجاتی ہے تو پھر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور ہر قدم عقل کے خلاف اٹھانا شروع کردیتا ہے یہ ہی وہ موڑ ہوتا ہے جہاں سے اس کی واپسی یعنی دوبارہ چھوٹے دیوتا بن جانے کا سفر بغیر بریک کے شروع ہو جاتا ہے۔ آج کل یہ ہی سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ہو رہا ہے۔ ملک بغیر عقل ودانش کے چلایا جا رہا ہے۔
آئیں ! ہم سب مل کر ماتم کریں کہ ہمارے ملک میں عقل مرچکی ہے وہی عقل جس سے ڈیکارٹ نے محبت کی تھی ، اسپنیوزا نے جس کے لیے فاقے کیے تھے سقراط نے جس کے لیے زہرکا پیالہ پیا تھا، برونو جس کی خاطر زندہ آگ میں جلا دیاگیا تھا، انقلا ب فرانس نے جس کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے تھے۔اس لیے ہمارے ہاں آج کل ہرکام بغیر تدبیرکے ہو رہا ہے۔
1258 میں تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کر دیا اور عباسی سلطنت کا خاتمہ کردیا اور مسلم دنیا پر اپنی ظالمانہ حکومت قائم کر دی ،اس وقت مولانا روم کی عمرتقریباً 50 سال تھی انھوں نے اپنی مثنوی کے ذریعے مسلمانوں کو روحانی اور اخلاقی سبق دیااور اسی کے ساتھ انھوں نے وقت کے مسائل میں بھی مسلمانوں کو رہنمائی دی۔ ایک مثنوی میں وہ لکھتے ہیں ایک جنگل میں ایک شیر تھا وہ ہر روز اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں پر حملہ کرتا تھا اور پکڑکر انھیں اپنی خوراک بناتا تھا اس کے نتیجے میں تمام جانور مستقل طور پر دہشت اور خوف میں پڑے رہتے تھے آخر انھوں نے ایک حل نکالا ۔
انھوں نے شیر سے بات کرکے اس کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ان پر حملہ نہ کرے وہ خود اپنی طرف سے ہر روز ایک جانور اس کے پاس بھیج دیا کریں گے، اس تجویز پر عمل ہونے لگا اس کی صورت یہ تھی کہ ہر روز قرعہ کے ذریعے یہ طے کیاجاتا کہ آج کون سا جانور شیرکی خوراک بنے گا جس جانورکا نام قرعہ میں نکلتا اس کو شیر کے پاس بھیج دیا جاتا ۔اس طرح تمام جانور امن کے ساتھ جنگل میں رہنے لگے آخرکار قرعہ ایک خرگو ش کے نام نکلا ، یہ خرگوش پہلے ہی سوچے ہوئے تھا کہ جب میرے نام قرعہ نکلے گا تو میں اپنے آپ کو شیرکی خوراک نہیں بننے دوںگا ، بلکہ تدبیرکے ذریعے خود شیرکو ہلاک کردوں گا، سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق خرگوش ایک گھنٹے تاخیرکے ساتھ شیرکے پاس پہنچا، شیر بہت بھوکا تھا وہ تاخیرکی بنا پر خرگو ش کے اوپر بگڑگیا ، نیز صرف ایک چھوٹا خرگوش دیکھ کر اس کو اور بھی زیادہ غصہ آیا۔
خرگوش نے نرمی اور لجاجت سے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ آپ کی سلطنت میں ایک اور شیرآگیا ہے جانوروں نے آپ کی آج کی خوراک کے لیے دو خرگو ش بھیجے تھے ۔ مگر دوسرا شیر ہمارے اوپر جھپٹا ایک کو اس نے پکڑلیا اور میں کسی طرح بھاگ کر آپ کے پاس آگیا ہوں۔ اب تو شیر کا سارا غصہ دوسرے شیر کی طرف مڑگیا اس نے چلا کر کہا کہ دوسرا شیر کون ہے جس نے اس جنگل میں آنے کی جرأت کی مجھے اس کے پاس لے چلو تاکہ میں اس کا قصہ تمام کردوں ۔
اب خرگوش اس شیر کا قصہ تمام کرنے کے لیے اس شیر کے ساتھ روانہ ہوا ، خرگو ش نے پہلے شیرکو ادھر ادھر گھمایا اورآخر کار اس کو ایک کنویں کے کنارے لاکھڑا کر دیا اور کہا کہ حضور وہ شیر اس کے اندر موجود ہے ، آپ خود اس کو دیکھ لیں شیر نے کنویں کے اندر اوپر سے جھانکا تو نیچے پانی میں اس کو اپنا عکس نظر آیا، اس نے سمجھا کہ خرگوش کا کہنا درست ہے اور واقعی اس کے اندر ایک اور شیر موجود ہے۔ شیر غرایا تو دوسرا شیر بھی غرا اٹھا اپنی سلطنت میں اس طرح ایک اور شیر کا گھس آنا اس کو برداشت نہ ہوسکا وہ چھلانگ لگا کر مفروضہ شیر کے اوپر کود پڑا اور پھرکنویں میں پڑے پڑے مرگیا۔
تدبیرکی طاقت ہر طاقت سے بڑی طاقت ہے، اسی تدبیرکی طاقت نے ہمارے حکمرانوں کو جو طاقت پر بھروسہ کرتے تھے چاروں خانے چت کر دیا ۔انسان اپنی سوچ سے زیادہ نہیں سوچ سکتا، اگر آپ لوگوں کو جیتنے کے بجائے اقتدار پر قابض بیٹھے رہنے کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے اگر آپ ریاست کی طاقت کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کرنے کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے اگر آپ اپنے لوگوں کی آہ وبکا،گر یہ وزاری، فاقوں، خودکشیوں کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔
اگر آپ نہتے معصوم لوگوں پرگولیاں چلانے آمدورفت کے تمام راستے بند کرنے کو ، شہر کے شہر بندکرنے کو اپنی کامیابی اورفتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر یقینا آپ کامیاب اور فتح مند ہیں لیکن یہ یاد رکھنا دنیا بھرکے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنی زندگیوں میں اپنے آپ کو اپنے ملک کے لیے نا گزیر سمجھے بیٹھے تھے جو ریاست کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھ بیٹھے تھے جو ظاہر ی شان و شوکت جاہ و جلا ل پر مرتے تھے جو اپنے آپ کو زمینی خدا اور عام لوگوں کوکیڑے مکوڑے سمجھ رہے تھے۔
لیکن آج ان ہی کیڑے مکوڑوں کی لعنت ، پھٹکار پر وہ اف بھی نہیں کرسکتے ہیں ، ان کی اجڑی وحشت زدہ قبریں دیکھ کر انسان کانپنے لگتا ہے۔ اس لیے خدارا دیوتا نہیں انسان بنیے،کیونکہ ہم سب کو آخر میں صرف 6 فٹ زمین ہی نصیب ہونی ہے اوردعائیں اور بدعائیں مرنے کے بعد بھی پیچھا کرتی ہیں۔