بجٹ اور سیاسی بھونچال
کیا اچھا ہوتا کہ حکومت حکمت عملی کے تحت بجٹ پیش کرنے سے قبل اپوزیشن سے کسی حد تک خوشگوار تعلقات استوارکرلیتی۔
حکومت بعض معاملات میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے، جو ملک کے فائدے کے بجائے نقصان کا موجب بن رہا ہے۔ سمندر سے تیل اور گیس کے نکلنے سے پہلے ہی وفاقی وزرا سے لے کر وزیر اعظم تک کے خوشخبری سے لبریز پیغامات قوم کے لیے بے فائدہ ہی رہے۔
یہ جلد بازی حکومت کے ضرورکچھ کام آئی کہ اس سے مہنگائی کے خلاف عوامی لاوے کو روکنے میں مدد ملی مگر اس جلد بازی نے دشمنوں کے کان کھڑے کردیے اور نکلنے والے تیل اور گیس غائب کرا دیے گئے۔ اس کے بعد ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے قرضے کی منظوری سے قبل ہی قوم کو قرض ملنے کی خوشخبری قوم کی مایوسی اور جگ ہنسائی کا موجب بنی۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے قرض لینے میں جلد بازی کی وجہ سے ان کی کڑی شرائط کو بھی قبول کرنا پڑگیا ہے۔
نئے بجٹ کا اعلان تو اپنی جگہ خوش آیند ہے مگر اسے پیش کرکے حکومتی سطح پر جشن منانا ایک لحاظ سے تو درست ہے کہ یہ مشکل کام کسی طرح کھینچا تانی کرکے عوام کی نذرکردیا گیا مگر اب اس کا پاس ہونا ٹیڑھی کھیر نظر آرہا ہے کیونکہ حکومت اپوزیشن رہنماؤں کو اتنا ناراض کرچکی ہے کہ وہ بہ بانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ حکومت نے بجٹ تو پیش کردیا ہے اب اسے پاس کرکے دکھائے تو جانیں۔ یہ واقعی پہلا موقع ہے کہ بجٹ کو ایوان سے پاس کرانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے اہم رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے پھر دوسرے رہنماؤں پر کئی کئی مقدمات چل رہے ہیں اور انھیں آئے دن نیب اور عدالتوں کے روبرو پیش ہونا پڑ رہا ہے۔
کیا اچھا ہوتا کہ حکومت حکمت عملی کے تحت بجٹ پیش کرنے سے قبل اپوزیشن سے کسی حد تک خوشگوار تعلقات استوارکرلیتی۔ اب بجٹ کے التوا میں پڑنے سے ملک و قوم دونوں کو مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے۔بجٹ میں ویسے تو غریب عوام کے لیے کوئی خوشخبری ہے ہی نہیں، ٹیکسوں کی جبری بھرمار نے ان کے لیے روکھی سوکھی کا حصول بھی مشکل بنادیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بجٹ کے اہداف غیر یقینی تخمینوں پر مشتمل ہیں جو حاصل نہ ہوئے تو حکومت کو پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس اور دوسری ضروریات زندگی پر مزید ٹیکس عائد کرنا پڑے گا، جس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوگا جب کہ افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا۔ چھوٹی صنعتوں پر جو ٹیکس عائد کیا گیا ہے ظاہر ہے موجودہ غیر یقینی حالات میں وہ برداشت نہیں کر پائیں گی ، جس کی وجہ سے وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوں گی اور اس طرح بے روزگاری میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی معیشت شروع سے ہی بیرونی قرضوں پر چل رہی ہے۔
مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا پڑا ہو مگر یہاں تو قرضوں کے حصول کے لیے ملکوں ملکوں مارے پھرنا پڑا ہے تب بھی بڑی مشکل سے قرضے حاصل ہوسکے ہیں۔ اپوزیشن کا درست ہی کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کو بھک منگا بنا کر رکھ دیا ہے۔
حکومت نے اپنا چارج لیتے ہی بڑے جوش سے اعلان کیا تھا کہ اس کے وزیر خزانہ اسد عمر ایک ماہر معاشیات دان ہیں وہ ملک کی تمام مالی مشکلات پر ہنستے کھیلتے قابو پالیں گے مگر جو ہوا وہ عوام کے سامنے ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض تک لینے میں ناکام رہے اور بالآخر انھیں وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور پھر آئی ایم ایف کے ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات کو مشیر خزانہ کا عہدہ تفویض کرنا پڑا۔ پھر بات یہیں تک نہیں رہی ایف بی آر سے لے کر اسٹیٹ بینک تک اعلیٰ عہدوں پر آئی ایم ایف کے اہلکاروں کو جگہ دینا پڑی پھر انھی تمام حضرات نے مل کر نیا بجٹ تیار کیا جسے کسی طرح بھی عوامی بجٹ نہیں کہا جاسکتا۔ اکثر سیاستدان اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے رہے ہیں۔
حال ہی میں ایف بی آر نے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت ایف بی آر کے اہلکار کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کسی بھی گھر آفس اور دکان پر چھاپہ مارکر مالکان کی آمدنی کے ذرائع چیک کرسکتے ہیں مگر ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ٹھیک ہے اس طرح حکومت ٹیکس ادا کرنے کے قابل لوگوں کو تلاش کرنے کا کام کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے اور اس وقت جو صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس ادا کرکے ننانوے فیصد لوگوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اس صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے مگر مسئلہ یہ ہے کہ گھر گھر چھاپوں کے پڑنے سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا اور اس سے نہ صرف کرپشن کا نیا دروازہ کھلے گا بلکہ نقلی لوگ ایف بی آر کے اہلکاروں کا روپ دھار کر گھروں کی صفائی بھی کرسکتے ہیں۔
حکومت بلاشبہ سابقہ حکومتوں کے بے دریغ قرضوں کے حصول پر کڑا اعتراض کر رہی ہے اور اب تو عمران خان نے پرانے قرضوں کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ کمیشن بنانے کا اعلان کردیا ہے یہ اعلان انھوں نے اپنے ایک خطاب میں کیا جو بجٹ پیش کیے جانے والے دن آدھی رات کو کیا گیا تھا اسے رات گئے کرنے کے بجائے دوسرے دن مناسب وقت پر بھی کیا جاسکتا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ بجٹ اتنا سخت اور غیر عوامی ہے کہ اس کا اثر زائل کرنے کے لیے وزیر اعظم کو سخت تقریر کرنا پڑی اور سابقہ سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ صرف (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ادوار تک کیوں محدود رکھا گیا۔ کمیشن کو اس سے پہلے لیے گئے قرضوں کا بھی احاطہ کرنا چاہیے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرانے قرضوں کی تحقیقات کے بارے میں عوام اس وقت ضرور خوش ہوتے اگر موجودہ حکومت خود کوئی قرضہ نہ لیتی جیساکہ الیکشن سے قبل خود عمران خان کہہ رہے تھے کہ وہ قرض لینے سے بہتر خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ موجودہ حکومت نے اپنی صرف دس ماہ کی مدت میں چار ہزار ارب روپے سے زیادہ کے قرضے لے لیے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے اور ابھی تو حکومت کے چار سال باقی ہیں آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
حکومت نے پرانے قرضوں کی تحقیقات کا حکم دے کر خود اپنے لیے بھی مشکلات کھڑی کرلی ہیں اب اسے خود اپنے قرضوں کو شفاف رکھنے کی ذمے داری کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ اس کے دور میں لیے گئے قرضوں کی جو رقم بتائی جا رہی ہے وہ بالکل غلط ہے ۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے قرضے لے کر انھیں ترقیاتی کاموں میں لگایا ہے۔ یہ رقم موٹروے بنانے، بجلی کے نئے پلانٹ لگانے اور دیگر بڑے چھوٹے منصوبوں اور ملک میں امن و امان کے قیام پر خرچ کی ہے۔ اس کے مطابق اس کے سارے منصوبے عوام کے سامنے ہیں مگر نئی حکومت اپنے دس ماہ میں لیے گئے قرضوں کو کس مد میں خرچ کر رہی ہے، اس کی تفصیل بھی عوام کے سامنے پیش کی جانی چاہیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اب سابقہ حکمرانوں کو مطعون کرکے اور سزائیں دلا کر اس عمل کو اپنی کارکردگی خیال کرنے کے بجائے اپنے ترقیاتی منصوبوں اور عوام دوست اقدامات کے ذریعے بے چین اور پریشان حال عوام کو مطمئن کرنا چاہیے ساتھ ہی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی فکر کی جائے کیونکہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ خود اس بھیانک خطرے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما ارشد وہرہ نے بھی حکومت کو موجودہ معاشی بحران کو ملک کے دیوالیہ پن تک جانے سے روکنے کا مشورہ دیا ہے۔