حکومت بمقابلہ اپوزیشن
بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے مراحل بڑی تیزی سے ملکی اداروں اورملک کی سیاسی جماعتوں کے رویوں کا امتحان لے رہے ہیں۔
حالیہ بجٹ نے جہاں ملک میں عالمی اسٹبلشمنٹ و بیرونی مداخلت کے پول کھول دیے ہیں وہیں حکومت کی نااہلی کو بھی ثابت کردیا ہے ۔ جب کہ بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے مراحل بڑی تیزی سے ملکی اداروں اورملک کی سیاسی جماعتوں کے رویوں کا امتحان لے رہے ہیں ۔ مخالف جماعتیں بجٹ پاس نہ ہونے دینے پر متفق اور سخت موقف رکھتی ہیں ۔
زرداری صاحب اور شہباز شریف کی جانب سے حکومت اور سینیٹ چیئرمین کی روانگی کا واضح اعلان جس پختہ لہجے اورپُراعتماد باڈی لینگویج کے ساتھ کیا گیااُس سے بھی سرکار کی تبدیلی کی تحریک چلانے کے لیے کسی ایمپائر کا اشارہ واضح نظر آرہا تھاکہ تبدیلی سرکار خود تبدیلی کی لپیٹ میں نہ آجائے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی اے پی سی اور اس میں مینگل سمیت دیگر رہنماؤں کی شرکت اور مولانا فضل الرحمن نے تو حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ریاست کے ٹوٹنے کا سبب قرار دیدیا ہے، لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی حکومت کا پیش کردہ بجٹ اس قدر عوام دشمن ضرور ہے کہ خود حکومتی ٹیم کے ایک اہم رکن و معاشی ماہر اسد عمرنے بھی حکومتی احتسابی و معاشی پالیسی اور بجٹ پر تنقیدکرتے ہوئے چینی ، گھی اور دیگر اشیائے خورو نوش پر ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔
آصف زرداری نے اپنے روایتی مفاہمانہ و دھمکیانہ لہجے اور کمال اسٹریٹجی کی حامل پالیسی کے تحت قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں وفاقی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیکر مسترد کرتے ہوئے ملکی نظام کو چلنے دینے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ نظام کو منجمند کرنے کی دھمکی بھی حکومتی نااہلی سے مشروط کیے رکھی ۔ انھوں نے اپنی گرفتاری کو پی پی پی کے لیے فائدے مند جب کہ عوام اور ملک و ملکی معیشت کے لیے نقصاندہ قرار دیا ۔
انھوں نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے حامی ہیں اور اُس نے ماضی میں ہمیں بھی آئی ایم ایف جانے کا مشورہ دیا تھا جوکہ ہم نے مسترد کیا اور عوامی بجٹ لائے۔ انھوں نے اپنی کمال ہوشیاری سے بیک وقت حکومت کو لتاڑا بھی تو انھیں ساتھ چلنے کی آفر بھی دی کہ 10سال یا گذشتہ سالوں کے حساب کتاب یا ماضی کو چھوڑو، آؤ مستقبل کی فکر کے ساتھ حال کو سنوارنے کے لیے نئے سرے سے کام کا آغاز کریں ۔ اس کا اشارہ مشرف سمیت 1947سے اب تک کی حکومتوں کے احتساب کی طرف بھی تھا۔
یہ بات تو خیر درست ہے کہ مہنگائی کی انتہا برپا کرنے والا یہ بجٹ ایک ننگی لٹکتی تلوار کی مانند ہے جوکہ غیرمنظوری کی صورت میں حکومت بالخصوص وزیر اعظم کی گردن پر گرے گی جب کہ منظوری کی صورت میں بظاہر یہ تلوار حزب ِ اختلاف کی گردن پر چلے گی لیکن اس سے اصل قربانی کا بکرا بلکہ ''دنبہ'' عوام بنیں گے جوکہ اس ظالمانہ بجٹ کا شکار ہوکر ہر روز کٹتے بھی رہیں گے ، کھسکتے بھی رہیں گے لیکن کوئی مؤثر آواز مستقبل قریب میں اٹھانے کے شاید ہی اہل ہوپائیں ۔
دنیا میں سیاست کو عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں سیاست کا منفی مفہوم مروج ہے ، جس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کی بدعنوانی ، ذاتی مفاد اور ذاتیات پر مبنی روش ہے ۔ یہ روش نہ صرف ملکی سیاست کو گندہ کرنے کا باعث بنتی ہے بلکہ سیاسی و جمہوری اداروں ، معزز ایوانوں اور خود اُنہیں بھی کمزور کرتی ہے اوراس سے غیر سیاسی و غیر جمہوری قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہوکر اپنی من مانی کا ناچ ناچتی نظر آتی ہیں ۔ جب کہ وفاقی حکومت نے عوام کو جو ''نئے پاکستان '' کی جھلک دکھائی ہے ، اسے دیکھ کر عوام نے آیندہ کسی بھی تبدیلی سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو کہ خود ایک سانحے سے کم نہیں ۔ کیونکہ اس سے عوام سیاسی ماحول سے بیزار ہوکر ملکی و حکومتی اُمور سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ۔ جس سے غیر سیاسی و غیر جمہوری قوتیں طاقتور ہوکر ملک میں ہر سیاہ و سفید کی مالک بن جاتی ہیں اور پھر وہیں سے ملک میں لاقانونیت کا راج شروع ہوتا ہے جوکہ ملکی سالمیت واستحکام کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔
کبھی دنیا میں تبدیلی کو انقلاب کا پیش خیمہ اور تبدیلی پسند و تبدیلی لانے کے لیے کام کرنیوالے سیاسی رہنما و کارکنان کو کامریڈ کہا اور سمجھا جاتا تھا ۔ ہمارے یہاں تبدیلی کے نام پر ایسا عوام دشمن کھیل کھیلا گیا ہے کہ اب لوگوں میں تبدیلی اور کامریڈ لفظ گالی بن کر رہ گئے ہیں ۔ پھر یہ بھی ایک المیاتی منظر ہے کہ برصغیر کی عدالتوں کے کٹہروں میں ابوا لکلام آزاد ، جی ایم سید ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب جیسے اصولوں کی سیاست کرنیوالے رہنما غیر سیاسی و غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے غداری کے الزام میں کھڑے کیے گئے،وہاں آج کل بے ایمانی ، چار سو بیسی اور بدعنوانی کے(غلط یا صحیح ) الزامات میں گھرے سیاستدانوں کی قطاریں نظر آتی ہیں ، اور ریاستوں کی غلط حکمت عملی کے باعث یہ سیاستدان اُن تاریخی رہنماؤں سے اپنا موازنہ کرتے نظر آتے ہیں ، کیونکہ برصغیری ممالک میںایسی اقتداری سازشیں بُننے کے طریقہ کار میں یکسانیت نظر آتی ہے ۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ملک میں آج کل پاپولر سیاست کا دور دورہ ہے جس وجہ سے عمران خان بھی بڑے پاپولر اور طاقتور محسوس ہورہے ہیں لیکن اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاپولر سیاست کبھی مستقل اور یکساں نہیں رہتی بلکہ وہ تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہے اور پھر یہ تبدیلی جاتے جاتے بہت کچھ ساتھ لے جاتی ہے ۔ جس کی مثال ذوالفقار علی بھٹو صاحب ہیں جوکہ ملکی تاریخ کے پاپولر ترین رہنماہونے کے باوجود قید و سلاسل کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے تختہ دار پر چڑھادیے گئے اور عوام چپ سادھے رہے ۔
حالانکہ حزب اختلاف کسی حال میں بجٹ پاس نہیں ہونے دینے کے عزم کا اظہار کرچکی ہے لیکن اُس نے حکومت کو مزید ٹف ٹائم دینے اور عوام کی نظروں میں حکومت کو شاکی بنانے اور اپنا قد بڑھانے کے لیے نیا بجٹ پیش کرنے اور تنخواہوں میں 50%اضافے کا مطالبہ کرکے عوام میں سافٹ کارنر بھی پیدا کرلیا ہے ۔ مولانا صاحب تو براہ راست نئے انتخابات کا مطالبہ رکھتے ہیں لیکن اگر یہ ممکن نہ بھی ہو تو اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے تو باقی جماعتیں اور ملکی ماحول بھی تیار نظر آتا ہے ۔کیونکہ تبدیلی سرکار کی پیش کردہ وفاقی بجٹ کی نسبت سندھ حکومت نے کافی بہتر صوبائی بجٹ دیکر پی ٹی آئی حکومت کو اخلاقی شکست تو بہرحال دیدی ہے ۔
تجزیہ کاروں کیمطابق بجٹ کی منظوری کے لیے بی این پی مینگل اورایم کیو ایم کے ارکان بڑی اہمیت اختیار کرگئے ہیں ۔ یہ دونوں اس وقت حزب اقتدار و حزب اختلاف کے لیے اونٹ کی طرح ہیں ، جس کروٹ یہ اونٹ بیٹھے گا ، اُس کے وارے نیارے ہوجائیں گے ۔ یوں تو فی الحال یہ دونوں سرکاری نشستوں پر براجمان ہیں لیکن مینگل نے تو حزب اختلاف کی اے پی سی اجلاس میں شرکت کا عندیہ بھی دے دیا ہے جب کہ زرداری صاحب نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران اپنے پروڈکشن آرڈر کے اجراء میں معاونت پر ایم کیو ایم کی شکریہ بجا آوری بھی ایم کیو ایم کی روایتی پگھلتی برف کی طرف اشارہ ہے ۔
ایک طرف حزب اختلاف کی جانب سے کسی بھی صورت بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے اعلانات سامنے آرہے ہیں تو دوسری طرف حکومت بجٹ کی منظوری کے لیے کئی طرح کے آپشن پر غور کررہی ہے ، جن میں بجٹ بلا بحث کرائے سادہ اکثریت سے پاس کرانا سب سے اہم آپشن ہے جب کہ سابقہ 10سالہ عرصہ کے دوران حکومت میں رہنے والی جماعتوں کی قیادت پر دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرنا دوسرا آپشن ہے ۔ جس کے لیے وزیر اعظم نے نیب کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیب کے ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں قرضوں کی تفتیش کے نام پر کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
حالانکہ قرضوں پرنیب کمیشن بنانے والی عمرانی سرکار خود صرف 10ماہ کے مختصرعرصے میں 5ہزار ارب روپے قرضے حاصل کرچکی ہے ، جوکہ قرضہ جات حاصل کرنے کی ملکی تاریخ کی تیز ترین رفتار ہے ۔ جب کہ اُن کے اس فیصلے نے نیب کے سرکاری دباؤ میں کام نہ کرنے کے حکومتی و نیب اختیاری بیانیے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ حکومت کوعوام کی فکر تو خیر پہلے ہی نہیں تھی لیکن اس وقت تو اسے نہ ملکی سالمیت کی پرواہ ہے اور نہ کسی ادارے کی غیرجانبداری کی بلکہ اُسے تو صرف اپنی فکر ہے ، کیونکہ اگر بجٹ مسترد ہوتا ہے تو اخلاقی طور پر وزیر اعظم اعتماد کھودیتے ہیں اور اِ ن ہاؤس تبدیلی لازمی بن جاتی ہے ، جس سے پی ٹی آئی کی نہ سہی لیکن وزیر اعظم کی تبدیلی لازمی واقع ہوگی اور یہ تو سب ہی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے وزیر اعظم نہ رہنے کا مطلب پی ٹی آئی کا ق لیگ کی طرز پر خاتمہ !
ملک کے حالات و بجٹ پر آیندہ کا لائحہ عمل توقومی اسمبلی میں حکومتی پیشرفت سے اور حزب اختلاف کی اے پی سی میں واضح ہوگا جس کے لیے بلاول بھٹو ، شہباز شریف اور اختر مینگل اب تک فضل الرحمن سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر تشریف لاچکے ہیں ۔ فضل الرحمن کا گھر ماضی کے نوابزادہ نصراللہ کی یاد دلاتا ہے جوکہ ہمیشہ مخالف جماعتوں کو تحریک چلانے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرتا تھا۔ لیکن حالات یہ اشارہ ضرور دیتے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے دارالحکومت کو پھر دھرنوں سے لاک کیے جانے کا اندیشہ ہے ۔ جس کے لیے حزب اختلاف کی بڑی پارٹیوں کے کارکنان کو استعمال کیا جائے گا لیکن اُن میں اصل قوت جے یو آئی فضل الرحمن کے منظم کارکنان کی ہوگی اور اگر ماضی کے دھرنا ماحول کے برعکس ملک کی مقتدر قوتیں عمران کی حمایت میں دھرنے ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو پھر خانہ جنگی کی صورتحال پیش آسکتی ہے ۔
یہ سبھی کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ملک یک طرفہ اور ٹارگیٹیڈ احتساب سے بہتر نہیں ہوتے بلکہ اس سے انتقام کی بو آتی ہے اور اس سے خانہ جنگی اورسیاسی و معاشی بے راہ روی پھیلتی جاتی ہے ۔ جس کی تازہ مثال مصر ہے جہاںاپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا گیا ، سابقہ صدر کو جیل میں ڈال کر ذہنی و اعصابی اذیتیں دی گئیںاور بالآخر وہ عدالت میں ہی جاںبحق ہوگئے لیکن نہ ملک میں سیاسی استحکام آسکا ہے اور نہ ہی معیشت مستحکم ہوسکی ہے ، الٹا وہاں مہنگائی ، شرح سود میں اضافہ ، بیروزگاری بڑھی ہے اور وہاں سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی واقع آٓئی ہے۔
اتفاق سے ہمارے ملک کے حالات بھی سابقہ صدراور وزیر اعظم کی گرفتاری سے مہنگائی کی انتہا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی کمی تک ہُو بہو مصر جیسے ہی ہیں ۔ جب کہ ایک مرتبہ پھر سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے کی تلوار بھی ملک پر لٹک رہی ہے ۔ اس لیے نہ صرف حکومت اور حزب اختلاف سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کو سنجیدہ لینا چاہیے بلکہ ملک کی مقتدر قوتوں کو بھی ملکی اُمور کو اپنے روایتی شطرنج کا کھیل سمجھنے والی روش کو ترک کرکے ملک میں حقیقی جمہوری ماحول کی فضا قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے ورنہ خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن ِ عزیز بھی عراق ، لیبیا و شام جیسی کسی صورتحال سے نہ دو چار ہوجائے ۔