اہم کتب و جرائد
آج ڈھیروں کتب و جرائد اپنی میز پر اٹھا لائی ہوں، خواہش تو یہ ہے سب کو احاطۂ تحریر میں لے آؤں۔
اس وقت میں بہت سی کتابوں اور رسائل پرخامہ فرسائی کرنا چاہتی ہوں ۔ آج ڈھیروں کتب و جرائد اپنی میز پر اٹھا لائی ہوں، خواہش تو یہ ہے سب کو احاطۂ تحریر میں لے آؤں، لیکن خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں اور اگر ہوتی ہیں تو تاخیر کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بہت دن گزر گئے جب کالم نگار محمود خان نے اپنی نئی نویلی کتابیں ہمیں مرحمت فرمائی تھیں، سہ ماہی ''بیلاگ'' جن کے مدیر اعلیٰ عزیز جبران انصاری ہیں تو ''بیلاگ'' بھی موصول ہوگیا ہے اور ساتھ میں فہیم انصاری کا ''اجمال'' بھی۔
ذکر انصاریوں کا چل رہا ہے تو حلیم انصاری کا ذکر بھی لازم ہے۔ حلیم انصاری کافی عرصے سے شاعری کر رہے ہیں ان کا موضوع خاص ہے ''سیاست''۔ کتابوں کے نام بھی ''سیاست دوراں'' کے عنوانات سے رکھے گئے، پارٹ ون اور پارٹ ٹو۔ حلیم انصاری موجودہ حالات پر قطعات لکھتے ہیں اور چشم کشا واقعات بیان کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری بصیرت اور بصارت سے مزین ہے، ماضی کے حکمرانوں کے کارناموں کو جوں کا توں بیان کردیتے ہیں، انھیں چاندی کے ورق اورگلقند ڈالنے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ 336 صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
اب لوٹ مار قوم سے نہ اتنی فاش کر
غلطیاں تو ہو چکیں فکر معاش کر
باہر سے ڈسنے والوں کا تریاق فوج ہے
تو سانپ آستینوں کے اندر تلاش کر
''تذکرہ'' اردو افسانے کے معمار اس کتاب کے تذکرہ نگار زاہد رشید ہیں۔ راشد الخیری سے حمید کاشمیری تک کے افسانہ نگاروں کے تعارف اور تخلیقی کاموں کا ذکر بے حد موثر انداز میں کیا ہے، بہت محنت اور تحقیق کے بعد ہی زاہد رشید نے قلم اٹھایا ہے اور نہایت کامیابی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ زاہد رشیدکی تحریرکی خوبی یہ ہے وہ جو بھی ادبی کام کرتے ہیں بے حد تندہی اور توجہ کے ساتھ اسی وجہ سے یہ کتاب جوکہ 100قلم کاروں کے افسانوی ادب پر مبنی ہے، وقعت اختیار کرگئی ہے۔
''پانیوں میں گھلتی زمین'' رحمن نشاط کے افسانوں کا مجموعہ ہے محترم عرصہ دراز سے افسانہ نگاری کر رہے ہیں، اس سے قبل بھی ان کی کئی کتابیں ناقدین و قارئین کے ہاتھوں میں آچکی ہیں، کتاب میں 17 افسانے شامل ہیں اور تمام افسانے معاشرتی مسائل کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان کی خصوصیات حقیقت نگاری اور اسلوب بیان کی سادگی ہے۔ ادب معلیٰ کے مدیر ڈاکٹر ناصر رانا ہیں، جو پابندی سے پرچہ نکالتے ہیں اور اس دفعہ تو پرچے کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہری شمارہ قرار دیا ہے جوکہ 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس پرچے کی کچھ انفرادیت بھی ہے ابتدا ہی میں ہدیہ نعت کے بعد خطوط کی انجمن سجی نظر آتی ہے، یادداشتیں اور خاکہ نگاری بھی رسالے کو قابل مطالعہ اور دلکش بنا دیتی ہے۔
تسنیم کوثر کی یاد داشتیں ''کچھ یادیں کچھ باتیں'' گرے زمانے خصوصاً 70 کی دہائی کے حوالے سے ملتان کے گلی کوچوں کی پرکشش عکاسی کی ہے۔ اسی طرح پروفیسر مسعود عالم نے ''خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے'' یہ ایک ایسی تحریر ہے کہ جو تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتی ہے، پروفیسر صابر لودھی کی شخصیت ان کے پڑھانے اور طلبا کی تربیت کرنے ان سے محبت اورکتابوں کے تحائف دینے میں حاتم طائی سے کم نہ تھے، مصنف نے بہت موثر انداز میں ان کی یادوں کو تازہ کیا ہے اور اپنے استاد کا بھرپورخاکہ تحریرکیا ہے۔ افسانے شعر و سخن اور حاصل مطالعہ کے مضامین بھی بہت خوب ہیں۔
الحنیف اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے یہ ایک دینی مجلہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں طنز و مزاح کے حوالے سے مضامین شایع ہوتے ہیں جوکہ قاری کے مزے اور معلومات کو دوبالا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مجلس ادارت میں سید عرفان طارق اور محمود عالم صدیقی شامل ہیں ۔ابتدا میں درج کیا گیا شعر تبلیغ اسلام کی روح کو نمایاں کرنے کا سبب ہے:
ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحری سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی ہم کو صدا دینا ہے
سہ ماہی ''اجمال'' ادب کے افق پر تاخیر سے جلوہ گر ہوا ہے مدیر فہیم اسلام انصاری ہیں، گزشتہ دنوں وہ سخت بیمار ہوگئے، اللہ نے انھیں نئی زندگی عطا فرمائی۔ ان کا لکھا ہوا اداریہ بھی تفکر کی راہوں کو وسعت بخشتا ہے۔ فہیم انصاری نے رؤف پاریکھ اور شکیل عادل زادہ کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ ملنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے انھوں نے تقریب پذیرائی میں شرکت کی اور بہت محظوظ ہوئے، لیکن اس بات کا احساس بھی دامن گیر رہا کہ آخر اتنے قابل اور ادبی کام کرنے والی شخصیت رؤف پاریکھ کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی گئی۔ انھوں نے اس نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کتابیں پڑھی جائیں سہ ماہی ''اجمال'' کے مضامین، شاعری، تراجم سب ہی تحریریں تر و تازہ ہیں۔ عمر برناوی کی نعت سے دو شعر:
ہے محفل ان کی ہر ایک شخص باوضو آئے
درود پڑھتا ہوا ان کے رو برو آئے
ہماری پیاس بھی بجھ جائے ساقی کوثر
ہمارے حصے میں توحید کا سبو آئے
افسانوی ادب بھی متاثر کن ہے۔ تلخ و شیریں واقعات، تجربات و حوادث اور ناہموار سماج کا عکاس ہے ۔ افسانہ نگاروں میں نیلم احمد بشیر، زیب ازکار حسین، شہناز پروین، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کا افسانہ ''وار'' راقم السطور کا افسانہ ''شگاف'' ذوالفقار گادھی اور دوسرے افسانہ نگاروں کے افسانے شامل اشاعت ہیں۔ محمود اختر نے اپنی کتاب ''ہم اور قائد اعظم'' میں مشاہیر کے مضامین کو یکجا کردیا ہے، جنھیں پاکستان سے نسبت رہی ہے اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کی ترقی کے لیے کسی نہ کسی مشکل میں کوشاں ہیں، ڈاکٹر معین الدین عقیل، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر جمال نقوی، شاعر علی تاج شاعر اور دوسرے قلم کاروں نے قائد اعظم اور پاکستان کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔
جناب محمود خان کی وجہ شہرت ان کی کالم نگاری اور تنقید ہے ان کی جتنی بھی کتابیں میرے مطالعے میں آئیں، ان میں ان کی محنت اور ادب سے محبت نمایاں ہے، انھوں نے دیدہ ریزی کے ساتھ انھیں ترتیب دیا ہے، اردو کے مشہور اشعار 528 صفحات پر مشتمل ہے اور ترتیب کے اعتبار سے حروف تہجی کے ذریعے کام کو آگے بڑھایا۔ کتاب کے پبلشر (راحیل پبلی کیشنزکراچی) شاعر علی شاعر کا مقدمہ بھی خاصے کی چیز ہے بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں۔ اسی کتاب سے ایک خوبصورت شعر:
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
''بیلاگ'' کا تازہ شمارہ موصول ہوا، سہ ماہی بیلاگ کے مدیر اعلیٰ اور بانی عزیز جبران انصاری ہیں جو صبح و شام ادب کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں ان کی کئی اہم کتابیں ناقدین و قارئین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں اور ان کی ادبی اہمیت کو بجا طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ عزیز جبران انصاری ''بیلاگ'' پابندی سے نکالتے ہیں، موجودہ شمارہ بھی ہمیشہ کی طرح خوبصورت مضامین اور شعر و سخن سے مرصع ہے۔ جذبوں کا سفر، نصرت نسیم کی تحریر بلکہ سفرنامہ کہنا چاہیے بہت ہی عقیدت و محبت کے ساتھ لکھا گیا۔
مضمون دل میں ایمان کی شمع کو مزید روشنی بخشتا ہے۔ یقینا ایک مسلمان کی دیار رسولؐ اور طواف خانہ کعبہ کے دوران ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے کہ وقت تھم جائے اور ہم ادھر کے ہی ہو رہیں۔ سبحان اللہ! جناب پروفیسر منظر ایوبی کا مضمون ''اردو شاعری میں نئے موضوعات کی تلاش '' قسط نمبر 10 ، 1914 میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخی واقعات اور شعرائے کرام کی شاعری میں تلخ حقائق اور شعرا کی وطن و قوم اور سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کا ذکر تسلسل کے ساتھ مدللانہ انداز میں کیا ہے۔ شاعری کا حصہ بھی توانا ہے۔ غرض ''بے لاگ '' قارئین کے لیے بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے اور ایک تحفہ خاص سے کم نہیں۔
ذکر انصاریوں کا چل رہا ہے تو حلیم انصاری کا ذکر بھی لازم ہے۔ حلیم انصاری کافی عرصے سے شاعری کر رہے ہیں ان کا موضوع خاص ہے ''سیاست''۔ کتابوں کے نام بھی ''سیاست دوراں'' کے عنوانات سے رکھے گئے، پارٹ ون اور پارٹ ٹو۔ حلیم انصاری موجودہ حالات پر قطعات لکھتے ہیں اور چشم کشا واقعات بیان کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری بصیرت اور بصارت سے مزین ہے، ماضی کے حکمرانوں کے کارناموں کو جوں کا توں بیان کردیتے ہیں، انھیں چاندی کے ورق اورگلقند ڈالنے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ 336 صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
اب لوٹ مار قوم سے نہ اتنی فاش کر
غلطیاں تو ہو چکیں فکر معاش کر
باہر سے ڈسنے والوں کا تریاق فوج ہے
تو سانپ آستینوں کے اندر تلاش کر
''تذکرہ'' اردو افسانے کے معمار اس کتاب کے تذکرہ نگار زاہد رشید ہیں۔ راشد الخیری سے حمید کاشمیری تک کے افسانہ نگاروں کے تعارف اور تخلیقی کاموں کا ذکر بے حد موثر انداز میں کیا ہے، بہت محنت اور تحقیق کے بعد ہی زاہد رشید نے قلم اٹھایا ہے اور نہایت کامیابی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ زاہد رشیدکی تحریرکی خوبی یہ ہے وہ جو بھی ادبی کام کرتے ہیں بے حد تندہی اور توجہ کے ساتھ اسی وجہ سے یہ کتاب جوکہ 100قلم کاروں کے افسانوی ادب پر مبنی ہے، وقعت اختیار کرگئی ہے۔
''پانیوں میں گھلتی زمین'' رحمن نشاط کے افسانوں کا مجموعہ ہے محترم عرصہ دراز سے افسانہ نگاری کر رہے ہیں، اس سے قبل بھی ان کی کئی کتابیں ناقدین و قارئین کے ہاتھوں میں آچکی ہیں، کتاب میں 17 افسانے شامل ہیں اور تمام افسانے معاشرتی مسائل کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان کی خصوصیات حقیقت نگاری اور اسلوب بیان کی سادگی ہے۔ ادب معلیٰ کے مدیر ڈاکٹر ناصر رانا ہیں، جو پابندی سے پرچہ نکالتے ہیں اور اس دفعہ تو پرچے کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہری شمارہ قرار دیا ہے جوکہ 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس پرچے کی کچھ انفرادیت بھی ہے ابتدا ہی میں ہدیہ نعت کے بعد خطوط کی انجمن سجی نظر آتی ہے، یادداشتیں اور خاکہ نگاری بھی رسالے کو قابل مطالعہ اور دلکش بنا دیتی ہے۔
تسنیم کوثر کی یاد داشتیں ''کچھ یادیں کچھ باتیں'' گرے زمانے خصوصاً 70 کی دہائی کے حوالے سے ملتان کے گلی کوچوں کی پرکشش عکاسی کی ہے۔ اسی طرح پروفیسر مسعود عالم نے ''خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے'' یہ ایک ایسی تحریر ہے کہ جو تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتی ہے، پروفیسر صابر لودھی کی شخصیت ان کے پڑھانے اور طلبا کی تربیت کرنے ان سے محبت اورکتابوں کے تحائف دینے میں حاتم طائی سے کم نہ تھے، مصنف نے بہت موثر انداز میں ان کی یادوں کو تازہ کیا ہے اور اپنے استاد کا بھرپورخاکہ تحریرکیا ہے۔ افسانے شعر و سخن اور حاصل مطالعہ کے مضامین بھی بہت خوب ہیں۔
الحنیف اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے یہ ایک دینی مجلہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں طنز و مزاح کے حوالے سے مضامین شایع ہوتے ہیں جوکہ قاری کے مزے اور معلومات کو دوبالا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مجلس ادارت میں سید عرفان طارق اور محمود عالم صدیقی شامل ہیں ۔ابتدا میں درج کیا گیا شعر تبلیغ اسلام کی روح کو نمایاں کرنے کا سبب ہے:
ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحری سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی ہم کو صدا دینا ہے
سہ ماہی ''اجمال'' ادب کے افق پر تاخیر سے جلوہ گر ہوا ہے مدیر فہیم اسلام انصاری ہیں، گزشتہ دنوں وہ سخت بیمار ہوگئے، اللہ نے انھیں نئی زندگی عطا فرمائی۔ ان کا لکھا ہوا اداریہ بھی تفکر کی راہوں کو وسعت بخشتا ہے۔ فہیم انصاری نے رؤف پاریکھ اور شکیل عادل زادہ کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ ملنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے انھوں نے تقریب پذیرائی میں شرکت کی اور بہت محظوظ ہوئے، لیکن اس بات کا احساس بھی دامن گیر رہا کہ آخر اتنے قابل اور ادبی کام کرنے والی شخصیت رؤف پاریکھ کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی گئی۔ انھوں نے اس نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کتابیں پڑھی جائیں سہ ماہی ''اجمال'' کے مضامین، شاعری، تراجم سب ہی تحریریں تر و تازہ ہیں۔ عمر برناوی کی نعت سے دو شعر:
ہے محفل ان کی ہر ایک شخص باوضو آئے
درود پڑھتا ہوا ان کے رو برو آئے
ہماری پیاس بھی بجھ جائے ساقی کوثر
ہمارے حصے میں توحید کا سبو آئے
افسانوی ادب بھی متاثر کن ہے۔ تلخ و شیریں واقعات، تجربات و حوادث اور ناہموار سماج کا عکاس ہے ۔ افسانہ نگاروں میں نیلم احمد بشیر، زیب ازکار حسین، شہناز پروین، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کا افسانہ ''وار'' راقم السطور کا افسانہ ''شگاف'' ذوالفقار گادھی اور دوسرے افسانہ نگاروں کے افسانے شامل اشاعت ہیں۔ محمود اختر نے اپنی کتاب ''ہم اور قائد اعظم'' میں مشاہیر کے مضامین کو یکجا کردیا ہے، جنھیں پاکستان سے نسبت رہی ہے اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کی ترقی کے لیے کسی نہ کسی مشکل میں کوشاں ہیں، ڈاکٹر معین الدین عقیل، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر جمال نقوی، شاعر علی تاج شاعر اور دوسرے قلم کاروں نے قائد اعظم اور پاکستان کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔
جناب محمود خان کی وجہ شہرت ان کی کالم نگاری اور تنقید ہے ان کی جتنی بھی کتابیں میرے مطالعے میں آئیں، ان میں ان کی محنت اور ادب سے محبت نمایاں ہے، انھوں نے دیدہ ریزی کے ساتھ انھیں ترتیب دیا ہے، اردو کے مشہور اشعار 528 صفحات پر مشتمل ہے اور ترتیب کے اعتبار سے حروف تہجی کے ذریعے کام کو آگے بڑھایا۔ کتاب کے پبلشر (راحیل پبلی کیشنزکراچی) شاعر علی شاعر کا مقدمہ بھی خاصے کی چیز ہے بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں۔ اسی کتاب سے ایک خوبصورت شعر:
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
''بیلاگ'' کا تازہ شمارہ موصول ہوا، سہ ماہی بیلاگ کے مدیر اعلیٰ اور بانی عزیز جبران انصاری ہیں جو صبح و شام ادب کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں ان کی کئی اہم کتابیں ناقدین و قارئین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں اور ان کی ادبی اہمیت کو بجا طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ عزیز جبران انصاری ''بیلاگ'' پابندی سے نکالتے ہیں، موجودہ شمارہ بھی ہمیشہ کی طرح خوبصورت مضامین اور شعر و سخن سے مرصع ہے۔ جذبوں کا سفر، نصرت نسیم کی تحریر بلکہ سفرنامہ کہنا چاہیے بہت ہی عقیدت و محبت کے ساتھ لکھا گیا۔
مضمون دل میں ایمان کی شمع کو مزید روشنی بخشتا ہے۔ یقینا ایک مسلمان کی دیار رسولؐ اور طواف خانہ کعبہ کے دوران ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے کہ وقت تھم جائے اور ہم ادھر کے ہی ہو رہیں۔ سبحان اللہ! جناب پروفیسر منظر ایوبی کا مضمون ''اردو شاعری میں نئے موضوعات کی تلاش '' قسط نمبر 10 ، 1914 میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخی واقعات اور شعرائے کرام کی شاعری میں تلخ حقائق اور شعرا کی وطن و قوم اور سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کا ذکر تسلسل کے ساتھ مدللانہ انداز میں کیا ہے۔ شاعری کا حصہ بھی توانا ہے۔ غرض ''بے لاگ '' قارئین کے لیے بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے اور ایک تحفہ خاص سے کم نہیں۔