پاکستانی سینما گھروں کو نئے چیلنجز کا سامنا
بھارتی فلموں پر پابندی کے باوجود نئی فلموں کی نمائش ایک معمہ بن گیا
موجودہ حکومت کو جس طرح بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، اسی طرح پاکستان سینما انڈسٹری کو بھی کڑے امتحان کا سامنا ہے۔
بھارتی فلموں پر پابندی کی وجہ سے پہلے ہی سینما گھروں کا بزنس نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ کہیں تو عید الفطر پر نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کے بعد اب نئی فلموں کا انتظار شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان فلم میکرز اور فنکار برادری ویسے تو بھارتی فلموں پر پابندی کیلئے ہمیشہ زور دیتے تھے جب یہ میدان کھلا ہے تو کوئی اس میدان میں کھیلنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی عید جیسے بڑے تہوار پر ہی اپنی فلم کونمائش کیلئے پیش کرنا چاہتا ہے۔
عموماً یہ خیال سب ہی کا چاہتا ہوگا کیونکہ عید جیسے تہواروں پر بڑی اوپننگ کے ساتھ منافع بخش کاروبار بھی ہوتا ہے۔ بلاشبہ فلموں کواچھا رسپانس ملتا ہے اور ایسا ہی عید الفطر پر ریلیز ہونے والی اردو، پنجابی اور پشتو کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ کی فلموں کو بھی ملا۔ شائقین نے جہاں ان فلموں کو دیکھا اور پسند کیا، وہیں کاروبار بھی عروج پر رہا۔ لیکن عید الفطر کے بعد اب شائقین سینما میں کچھ نیا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور عید سال میں بس دو ہوتی ہیں تو ایسے میں سینما گھروں کے منتظمین اور فلم بین کیا کریں کیونکہ عید کے علاوہ اگر سال بھر فلمیں نمائش کیلئے اسی طرح تاخیر سے لگائی گئیں تو پھر '' گئی بھینس پانی میں'' ۔۔۔۔۔ ایک طرف فلم بین سینما گھروں سے دور رہنے پر مجبور ہو جائیں گے اور دوسری جانب کثیر سرمائے سے بننے والے جدید سینما گھروں کو بندکرنا مالکان کی مجبوری بن جائے گا۔ دیکھا جائے تو ہم آگے بڑھنے کی بجائے ماضی کی اس روایت کو دہرانے جارہے ہیں جس نے جیتی جاگتی ایک کامیاب فلم نگری کو ویرانیوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا تھا۔
ہم اگرگزشتہ 7، 8 برس کے دوران سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کا جائزہ لیں تو تقریباً ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نئی امپورٹڈ فلم نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھی جس کے ذریعے جہاں فلم بینوں کو مختلف موضوعات پر بننے والی نئی فلمیں دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ، وہیں وہ ہر ہفتے تفریح کے لئے سینما گھروں کا رخ بھی کیا کرتے تھے مگر اب صورتحال خاصی پیچیدہ ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ کہ ہمارے ہاں نوجوان پروڈیوسرز نے پاکستان فلم اور سینما کی باگ دوڑ سنبھال رکھی ہے۔ وہ بہتر سمجھتے ہوں گے کہ کس طرح بہتری کی جانب بڑھنا ہے اور ترقی کرنی ہے لیکن ماضی میں بننے والی فلمیں جس طرح سے لوگوں کو متاثر کرتی رہی ہیں وہ بات آج بننے والی فلموں میں نظر نہیں آتی۔
حالانکہ نوجوان فلم میکرز بلاشبہ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی فلمیں بنا رہے ہیں مگر ابھی تک وہ لوگوں میں وہ مقام اور پسندیدگی حاصل نہیں کر سکے، جس کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے کیونکہ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا میڈیم فلم کو مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جب ہالی وڈ فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی ہیں تو پہلے ہی ہفتے میں ان کا بزنس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ڈالر میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے کہتا جاتا ہے کہ فلم سے بہتر کوئی دوسرا بزنس نہیں۔ اگر کوئی فلم کامیاب ہوجائے تو پہلے دو ہفتوں میں میں وہ اتنا منافع بخش کاروبار کرتی ہے کہ اس سے جڑے تمام لوگوں لوگ اس کے ثمرات سے برسوں فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان سینما انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے ہم نے کثیر سرمایہ کاری کر کے عوام کی تفریح کے لئے بہترین انتظامات کئے ہیں۔ ماضی میں جھانکیں تو ایک دور تھا جب سنگل سکرین سینما عروج پر تھے لیکن وہاں کا ماحول اس قدر بگڑنے لگا کہ فیملیز نے سینما گھروں کا رخ کرنا بالکل چھوڑ دیا تھا مگر اب صورتحال خاصی بدل چکی ہے۔ ملک بھر میں بننے والے جدید طرز کے سینما گھروں میں فیملیز کی بڑی تعداد انٹر ٹین ہونے کے لیے آتی ہے، جس کی بڑی وجہ سینما گھروں کا صاف ستھرا ماحول، کھانے پینے کی معیاری اشیاء اور اسی طرح کی دیگر سہولیات ہیں جو ایک فلم بین کی اولین ترجیح بنتے ہیں لیکن اس کو بدقسمتی کہیں یا غلط پالیسی۔ ہمارے ملک میں جدید سینما گھر تو بن چکے ہیں اور مزید بننے جارہے ہیں لیکن ہماری فلم سے وابستہ فلم میکرز، ڈسٹری بیوٹرز اور اس سے جڑے بہت سے لوگوں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہم دوبارہ اس بحران کو دعوت دے رہیں جس نے ماضی میں خوب ''راج'' کیا۔
غور کریں تو جب تک پاکستانی سینما گھروں میں امپورٹ قوانین کے تحت بالی وڈ سٹارز کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھی اس وقت تک پاکستانی فلم سے وابستہ فنکاروں اور تکنیک کاروں کی اکثریت سینما مالکان کو بھارتی ایجنٹ قرار دیتی تھی وہ یہ بات سوچنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے کہ سینما گھروں میں وہی فلم دکھائی جائے گی جس کو فلم بین پسند کریں گے۔ خیر اب حالات بہت بدل چکے ہیں، حکومت پاکستان کی جانب سے بھارتی فلموں پر پابندی لگا دی گئی ہے ایسے میں پاکستانی فلم کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی جگہ بنائے آئے۔ ہمیں نوجوان فلم میکرز کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے لیکن عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال بھر نمائش کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، اگر پاکستان فلم کی بحالی اور ترقی کو جاری رکھنا ہے تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ فلمیں نمائش کیلئے پیش کرنا ہوں گی۔
اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی فلم زیادہ بزنس کرے گی اور کون سی کم، کیونکہ ماضی میں ہالی وڈ کی شاہکار فلم ٹائی ٹینک کے مقابلے پنجابی فلم چوڑیاں نے زیادہ منافع بخش بزنس کیا جس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو فلم شائقین کو پسند آئے گی وہ اس کو بار بار دیکھنے آئیں گے لہٰذا یہ بحث بالکل فضول ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر ہی فلم نمائش کیلئے پیش کی جائے گی ، اس طرح سے سینما انڈسٹری کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا اور مجبوراً بہت سے سینماگھر بند کرنا پڑیں گے، کیونکہ کاروبار کے بغیر سینما کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلم سے وابستہ لوگ اس بات کو سنجیدگی سے سمجھیں اور اس بارے میں مثبت منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئیں کیونکہ یہی وقت ہے جب ہم پاکستانی فلم کو مارکیٹ میں لا سکتے ہیں اور اس کو کھویا ہوا مقام واپس دلوا سکتے ہیں۔
اگر آج دیر کی اور فضول کی بحث میں وقت گزارا تو جس طرح پہلے ہمارے بس میں کچھ نہیں تھا آئندہ بھی کچھ نہیں رہے گا۔ ہمیں انٹرنیشنل مارکیٹ تو دور کی بات ہوگی، اپنے ہی ملک میں فلمیں لگانے کیلئے حکومت سے اپیلیں اور عدالت میں کیس دائر کرنا پڑیں گے۔
بھارتی فلموں پر پابندی کی وجہ سے پہلے ہی سینما گھروں کا بزنس نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ کہیں تو عید الفطر پر نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کے بعد اب نئی فلموں کا انتظار شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان فلم میکرز اور فنکار برادری ویسے تو بھارتی فلموں پر پابندی کیلئے ہمیشہ زور دیتے تھے جب یہ میدان کھلا ہے تو کوئی اس میدان میں کھیلنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی عید جیسے بڑے تہوار پر ہی اپنی فلم کونمائش کیلئے پیش کرنا چاہتا ہے۔
عموماً یہ خیال سب ہی کا چاہتا ہوگا کیونکہ عید جیسے تہواروں پر بڑی اوپننگ کے ساتھ منافع بخش کاروبار بھی ہوتا ہے۔ بلاشبہ فلموں کواچھا رسپانس ملتا ہے اور ایسا ہی عید الفطر پر ریلیز ہونے والی اردو، پنجابی اور پشتو کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ کی فلموں کو بھی ملا۔ شائقین نے جہاں ان فلموں کو دیکھا اور پسند کیا، وہیں کاروبار بھی عروج پر رہا۔ لیکن عید الفطر کے بعد اب شائقین سینما میں کچھ نیا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور عید سال میں بس دو ہوتی ہیں تو ایسے میں سینما گھروں کے منتظمین اور فلم بین کیا کریں کیونکہ عید کے علاوہ اگر سال بھر فلمیں نمائش کیلئے اسی طرح تاخیر سے لگائی گئیں تو پھر '' گئی بھینس پانی میں'' ۔۔۔۔۔ ایک طرف فلم بین سینما گھروں سے دور رہنے پر مجبور ہو جائیں گے اور دوسری جانب کثیر سرمائے سے بننے والے جدید سینما گھروں کو بندکرنا مالکان کی مجبوری بن جائے گا۔ دیکھا جائے تو ہم آگے بڑھنے کی بجائے ماضی کی اس روایت کو دہرانے جارہے ہیں جس نے جیتی جاگتی ایک کامیاب فلم نگری کو ویرانیوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا تھا۔
ہم اگرگزشتہ 7، 8 برس کے دوران سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کا جائزہ لیں تو تقریباً ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نئی امپورٹڈ فلم نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھی جس کے ذریعے جہاں فلم بینوں کو مختلف موضوعات پر بننے والی نئی فلمیں دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ، وہیں وہ ہر ہفتے تفریح کے لئے سینما گھروں کا رخ بھی کیا کرتے تھے مگر اب صورتحال خاصی پیچیدہ ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ کہ ہمارے ہاں نوجوان پروڈیوسرز نے پاکستان فلم اور سینما کی باگ دوڑ سنبھال رکھی ہے۔ وہ بہتر سمجھتے ہوں گے کہ کس طرح بہتری کی جانب بڑھنا ہے اور ترقی کرنی ہے لیکن ماضی میں بننے والی فلمیں جس طرح سے لوگوں کو متاثر کرتی رہی ہیں وہ بات آج بننے والی فلموں میں نظر نہیں آتی۔
حالانکہ نوجوان فلم میکرز بلاشبہ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی فلمیں بنا رہے ہیں مگر ابھی تک وہ لوگوں میں وہ مقام اور پسندیدگی حاصل نہیں کر سکے، جس کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے کیونکہ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا میڈیم فلم کو مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جب ہالی وڈ فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی ہیں تو پہلے ہی ہفتے میں ان کا بزنس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ڈالر میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے کہتا جاتا ہے کہ فلم سے بہتر کوئی دوسرا بزنس نہیں۔ اگر کوئی فلم کامیاب ہوجائے تو پہلے دو ہفتوں میں میں وہ اتنا منافع بخش کاروبار کرتی ہے کہ اس سے جڑے تمام لوگوں لوگ اس کے ثمرات سے برسوں فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان سینما انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے ہم نے کثیر سرمایہ کاری کر کے عوام کی تفریح کے لئے بہترین انتظامات کئے ہیں۔ ماضی میں جھانکیں تو ایک دور تھا جب سنگل سکرین سینما عروج پر تھے لیکن وہاں کا ماحول اس قدر بگڑنے لگا کہ فیملیز نے سینما گھروں کا رخ کرنا بالکل چھوڑ دیا تھا مگر اب صورتحال خاصی بدل چکی ہے۔ ملک بھر میں بننے والے جدید طرز کے سینما گھروں میں فیملیز کی بڑی تعداد انٹر ٹین ہونے کے لیے آتی ہے، جس کی بڑی وجہ سینما گھروں کا صاف ستھرا ماحول، کھانے پینے کی معیاری اشیاء اور اسی طرح کی دیگر سہولیات ہیں جو ایک فلم بین کی اولین ترجیح بنتے ہیں لیکن اس کو بدقسمتی کہیں یا غلط پالیسی۔ ہمارے ملک میں جدید سینما گھر تو بن چکے ہیں اور مزید بننے جارہے ہیں لیکن ہماری فلم سے وابستہ فلم میکرز، ڈسٹری بیوٹرز اور اس سے جڑے بہت سے لوگوں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہم دوبارہ اس بحران کو دعوت دے رہیں جس نے ماضی میں خوب ''راج'' کیا۔
غور کریں تو جب تک پاکستانی سینما گھروں میں امپورٹ قوانین کے تحت بالی وڈ سٹارز کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھی اس وقت تک پاکستانی فلم سے وابستہ فنکاروں اور تکنیک کاروں کی اکثریت سینما مالکان کو بھارتی ایجنٹ قرار دیتی تھی وہ یہ بات سوچنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے کہ سینما گھروں میں وہی فلم دکھائی جائے گی جس کو فلم بین پسند کریں گے۔ خیر اب حالات بہت بدل چکے ہیں، حکومت پاکستان کی جانب سے بھارتی فلموں پر پابندی لگا دی گئی ہے ایسے میں پاکستانی فلم کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی جگہ بنائے آئے۔ ہمیں نوجوان فلم میکرز کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے لیکن عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال بھر نمائش کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، اگر پاکستان فلم کی بحالی اور ترقی کو جاری رکھنا ہے تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ فلمیں نمائش کیلئے پیش کرنا ہوں گی۔
اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی فلم زیادہ بزنس کرے گی اور کون سی کم، کیونکہ ماضی میں ہالی وڈ کی شاہکار فلم ٹائی ٹینک کے مقابلے پنجابی فلم چوڑیاں نے زیادہ منافع بخش بزنس کیا جس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو فلم شائقین کو پسند آئے گی وہ اس کو بار بار دیکھنے آئیں گے لہٰذا یہ بحث بالکل فضول ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر ہی فلم نمائش کیلئے پیش کی جائے گی ، اس طرح سے سینما انڈسٹری کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا اور مجبوراً بہت سے سینماگھر بند کرنا پڑیں گے، کیونکہ کاروبار کے بغیر سینما کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلم سے وابستہ لوگ اس بات کو سنجیدگی سے سمجھیں اور اس بارے میں مثبت منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئیں کیونکہ یہی وقت ہے جب ہم پاکستانی فلم کو مارکیٹ میں لا سکتے ہیں اور اس کو کھویا ہوا مقام واپس دلوا سکتے ہیں۔
اگر آج دیر کی اور فضول کی بحث میں وقت گزارا تو جس طرح پہلے ہمارے بس میں کچھ نہیں تھا آئندہ بھی کچھ نہیں رہے گا۔ ہمیں انٹرنیشنل مارکیٹ تو دور کی بات ہوگی، اپنے ہی ملک میں فلمیں لگانے کیلئے حکومت سے اپیلیں اور عدالت میں کیس دائر کرنا پڑیں گے۔