پاکستانی طلبا نے گاڑیوں کے سائیڈ مرر چیک کرنے والا کم لاگت آلہ تیار کرلیا

یہ آلہ بعض ممالک میں قیمت 29 لاکھ روپے تک ہے تاہم طلبا نے اس محض ڈیڑھ لاکھ روپے میں تیار کرلیا

پاکستانی طالب علموں نے گاڑیوں کے آٹومیٹک آئینوں کو چیک کرنے والی خود کار مشین بنائی ہے جو بازار میں دستیاب مشینوں سے بیس گنا سستی ہے (فوٹو: ایکسپریس)

پاکستانی طالب علموں نے گاڑیوں کے اطراف میں نصب آئینے (سائیڈ مرِر) میں خامیاں تلاش کرنے والا خودکار نظام تیار کرلیا جس کی بعض ممالک میں قیمت 29 لاکھ روپے تک ہے تاہم طلبا نے اس محض ڈیڑھ لاکھ روپے میں تیار کرلیا ہے۔

ایکسپریس کے مطابق اقرا یونیورسٹی کے طالب علم ابوطالب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک کر 'آٹومائزڈ مرِر ٹیسٹنگ مشین' تیار کی ہے جس سے خود کار طریقے سے گاڑیوں کے آئینوں کی خرابی کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ گاڑیوں کے شیشے دستی اور روایتی طریقے سے چیک کیے جاتے ہیں جس میں ایک آئینے کو دیکھنے میں ایک منٹ 30 سیکنڈ لگتے ہیں۔

دوسری جانب طالب علموں کا بنایا ہوا جدید آلہ صرف 30 سیکنڈ میں یہ کام کرسکتا ہے، اگر اسے پاکستان بھر میں متعارف کرایا جائے تو اس سے وقت اور سرمائے کی بہت بچت ہوگی۔

اقرا یونیورسٹی میں الیکٹرانک انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ابوطالب، محمد شمشیر الرحمان اور ابوہریرہ محبوب نے صرف 9 ماہ میں اسے بنایا ہے، اس مشین میں آٹومیٹک اور مینول فنکشن رکھے گئے ہیں۔ اس طرح آٹومیٹک نظام میں کوئی مسئلہ ہو تو مینول طریقے سے کام ہوتا رہے اور آئینوں کی تیاری نہیں رکتی۔




سال 2017ء میں ایک نجی کار کمپنی میں انٹرن شپ کے دوران ابوطالب نے دیکھا کہ آٹومیٹک گاڑیوں کے شیشوں میں 10 کے قریب پارٹس اور پرزے لگتے ہیں اور اس کے بعد آئینے کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ابوطالب نے نوٹ کیا کہ مزدور کو آئینہ چیک کرنے میں کم سے کم ایک منٹ 10 سیکنڈ کا وقت لگ رہا ہے جس میں وہ جائزہ لیتا ہے کہ شیشہ تھریش ہڈ پر گھوم رہا ہے یا نہیں۔

اسی کمی کو دیکھتے ہوئے ابوطالب نے 'آٹومائزڈ مِرر ٹیسٹنگ مشین' بنائی جو آئینے کے ہر حصے یا پارٹ میں ہونے والی خرابی کا پتا لگاسکتی ہے۔ اس مشین میں کم خرچ سینسر استعمال کیے گئے ہیں۔ بعض ممالک میں یہ مشین استعمال کی جارہی ہے جس کی قیمت 29 لاکھ روپے ہے لیکن ابوطالب کی تخلیق پر صرف ڈیڑھ لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔

اس طرح روایتی طریقے سے ایک شفٹ میں 400 شیشے چیک ہوکر نکل رہے ہیں تو اس مشین سے 800 شیشے چیک کیے جاسکتےہیں۔ اس پروجیکٹ کو رواں سال تھائی لینڈ کی اسٹیمفورڈ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مقابلے میں بھی پیش کیا جائے گا جہاں اس بھرپور پذیرائی کا واضح امکان ہے۔
Load Next Story