افغانستان میں قیام امن کی کوششیں
افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں صرف مصالحت میں ہے
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو بھوربن میں افغان امن عمل کے لیے ''لاہور پراسیس'' کی پہلی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ، انھوں نے مزید کہا کہ یہ کانفرنس افغان امن کے لیے کلیدی کردار ادا کرے گی، پاکستان اور افغانستان یکساں تاریخ، مذہبی تعلق، زبان، ثقافت رکھتے ہیں، افغان مہاجرین کو دہائیوں سے پناہ دینا، بھائی چارے کا غماز ہے، پاکستان اور افغانستان عدم استحکام اور تنازعات کے باعث شدید متاثر ہوئے ،اس لیے ایک دوسرے کے مابین عدم اعتماد کی فضا کسی کے مفاد میں نہیں، پاک افغان تعلقات پر کسی کو عدم اعتماد ، پروپیگنڈہ یا منفی تاثر پیدا نہیں کرنے دیں گے۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز(آئی آئی ایس)کے زیراہتمام '' پاکستان کی علاقائی سلامتی کا تناظر''کے موضوع پر بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان پائیدار، مستحکم اور دیرپا امن واستحکام کے حصول کے قریب ہے اور یہ مقصد مفید بین الاقوامی شراکت داری، تعاون اورعلاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے عزم کے ذریعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر سیکیورٹی پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھول رہی ہے جو علاقائی تعاون کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم جنوبی ایشیا میں دیرپا امن واستحکام کا مستقبل مسائل اور خطے کے اندر دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت پر ہے اور دیرپا امن و استحکام میں بامقصد عالمی شراکت اور حمایت اہم ہے۔
پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں داخلی سیاسی استحکام اور امن قائم ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں تک ممکن ہوا اس نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، بطور سہولت کار اس کے اس مثبت کردار کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے بھی پاکستان کے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ اب ایک بار پھر افغان رہنماؤں کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم لاہور سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ (ایل سی پی آر) کی طرف سے بھوربن میں منعقد کی گئی پہلی امن کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی 18سیاسی جماعتوں کے قائدین،گروپس کے 45مندوبین اور نمایندہ وفود نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں سابق افغان وزیراعظم و حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار' شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود مرحوم کے بھائی احمد ولی مسعود' حزب وحدت مردم افغانستان کے استاد محمد محقق' جماعت اسلامی افغانستان کے سیکریٹری جنرل و سابق گورنر استاد عطا محمد نور سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے مگر طالبان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ افغان امن عمل میں بنیادی کردار طالبان ہی کا ہے جب تک طالبان کسی امن عمل کا حصہ نہیں بنتے تب تک کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی' لہٰذا ایسی کسی بھی کانفرنس میں طالبان کی شرکت کو ناگزیر بنانا چاہیے۔ کانفرنس میں اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان سرزمین پر تمام دھڑوں کے مابین مذاکرات چاہتے ہیں ، افغانستان کو تجارتی، معاشی اور اقتصادی امور میں ہر ممکن مدد دیں گے، افغان مہاجرین کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی کے خواہاں ہیں، پاکستان اور افغانستان نے ایک بڑی قیمت ادا کی ہے،افغانستان میں کوئی بھی منتخب ہو کر آئے ہمارے لیے فیورٹ ہے،الزام تراشی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا ،اس وقت دوحہ پروسیس، ماسکو پروسیس، جرمنی، چین کے زیراہتمام بھی بات چیت جاری ہے، چین، ایران، افغانستان سمیت بڑی کانفرنس جلد ماسکو میں ہوگی۔
افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں صرف مصالحت میں ہے، پر امن اور خوشحال افغانستان خطے کے مفاد میں ہے، افغان بحران کی وجہ سے پاکستان زیادہ متاثر ہوا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو متاثر کیا، اب افغانستان میں داعش کی موجودگی دونوں ممالک کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کی شرکت لازمی بنائی جائے اگرچہ بعض حلقے یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ طالبان مذاکرات کے دوران اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے جب کہ طالبان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان میں ہر صورت امن چاہتے ہیں لیکن امریکا کو ان کی سرزمین سے نکلنا ہو گا کیونکہ جب تک امریکا خطے میں موجود ہے پائیدار امن کی خواہش ایک خواب ہی رہے گی۔ افغانستان میں جنگ و جدل کو ختم کر کے امن کو ایک موقع دینا چاہیے اس سلسلے میں امریکا کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہو گی کیونکہ امریکی رویہ بھی افغان امن عمل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ امید یہی ہے کہ جس طرح مختلف امن گروپس اور ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کررہے ہیں، اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز(آئی آئی ایس)کے زیراہتمام '' پاکستان کی علاقائی سلامتی کا تناظر''کے موضوع پر بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان پائیدار، مستحکم اور دیرپا امن واستحکام کے حصول کے قریب ہے اور یہ مقصد مفید بین الاقوامی شراکت داری، تعاون اورعلاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے عزم کے ذریعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر سیکیورٹی پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھول رہی ہے جو علاقائی تعاون کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم جنوبی ایشیا میں دیرپا امن واستحکام کا مستقبل مسائل اور خطے کے اندر دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت پر ہے اور دیرپا امن و استحکام میں بامقصد عالمی شراکت اور حمایت اہم ہے۔
پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں داخلی سیاسی استحکام اور امن قائم ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں تک ممکن ہوا اس نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، بطور سہولت کار اس کے اس مثبت کردار کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے بھی پاکستان کے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ اب ایک بار پھر افغان رہنماؤں کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم لاہور سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ (ایل سی پی آر) کی طرف سے بھوربن میں منعقد کی گئی پہلی امن کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی 18سیاسی جماعتوں کے قائدین،گروپس کے 45مندوبین اور نمایندہ وفود نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں سابق افغان وزیراعظم و حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار' شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود مرحوم کے بھائی احمد ولی مسعود' حزب وحدت مردم افغانستان کے استاد محمد محقق' جماعت اسلامی افغانستان کے سیکریٹری جنرل و سابق گورنر استاد عطا محمد نور سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے مگر طالبان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ افغان امن عمل میں بنیادی کردار طالبان ہی کا ہے جب تک طالبان کسی امن عمل کا حصہ نہیں بنتے تب تک کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی' لہٰذا ایسی کسی بھی کانفرنس میں طالبان کی شرکت کو ناگزیر بنانا چاہیے۔ کانفرنس میں اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان سرزمین پر تمام دھڑوں کے مابین مذاکرات چاہتے ہیں ، افغانستان کو تجارتی، معاشی اور اقتصادی امور میں ہر ممکن مدد دیں گے، افغان مہاجرین کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی کے خواہاں ہیں، پاکستان اور افغانستان نے ایک بڑی قیمت ادا کی ہے،افغانستان میں کوئی بھی منتخب ہو کر آئے ہمارے لیے فیورٹ ہے،الزام تراشی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا ،اس وقت دوحہ پروسیس، ماسکو پروسیس، جرمنی، چین کے زیراہتمام بھی بات چیت جاری ہے، چین، ایران، افغانستان سمیت بڑی کانفرنس جلد ماسکو میں ہوگی۔
افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں صرف مصالحت میں ہے، پر امن اور خوشحال افغانستان خطے کے مفاد میں ہے، افغان بحران کی وجہ سے پاکستان زیادہ متاثر ہوا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو متاثر کیا، اب افغانستان میں داعش کی موجودگی دونوں ممالک کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کی شرکت لازمی بنائی جائے اگرچہ بعض حلقے یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ طالبان مذاکرات کے دوران اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے جب کہ طالبان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان میں ہر صورت امن چاہتے ہیں لیکن امریکا کو ان کی سرزمین سے نکلنا ہو گا کیونکہ جب تک امریکا خطے میں موجود ہے پائیدار امن کی خواہش ایک خواب ہی رہے گی۔ افغانستان میں جنگ و جدل کو ختم کر کے امن کو ایک موقع دینا چاہیے اس سلسلے میں امریکا کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہو گی کیونکہ امریکی رویہ بھی افغان امن عمل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ امید یہی ہے کہ جس طرح مختلف امن گروپس اور ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کررہے ہیں، اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔