مضبوط اورمربوط معاشرہ کیسے ممکن ہوگا

تعلیمی اداروں سے اٹھنے والی متبادل بیانیہ کی جنگ ہی ہمیں آگے لے کر جا سکتی ہے


سلمان عابد June 24, 2019
[email protected]

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بری اور کمزور حکمرانی کا علاج بھی صرف جمہوریت ہی ہے۔ لیکن جب جمہوریت پر زور دیا جاتا ہے تو اس سے مراد بہتر اور حقیقی جمہوریت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ بات بجا کہ جمہوری تجربے کا تسلسل ہی جمہوری اقدار کو تقویت دیتا ہے۔ لیکن جمہوری سفر میں سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔

ایک مضبوط اورمربوط معاشرہ سیاسی تنہائی میں پروان نہیں چڑھتا۔ اس میں ریاست اورحکمرانی سمیت معاشرے کے تمام فریقین کو باہمی اتفاق رائے سے شفافیت پر مبنی نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جہاں سماج کو جوڑنے کے بجائے تقسیم کرنے کے کھیل کو بنیاد بنایا جائے گا تو وہاں مربوط معاشرے کی بحث کمزور ہو جاتی ہے۔ کیا معاشرے کسی سیاسی تماشے کی بنیاد پر پروان چڑھ سکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا۔ ریاستی، حکمرانی، انتظامی، قانونی اورمعاشی اداروں کا جو چال چلن ہے وہ ایک بڑے سیاسی تماشے کے گرد گھومتا ہے۔ اس تماشے کا بنیادی مقصد لوگوں کو سیاسی اورسماجی طورپر گمراہ کرنا اور اداروں کے بجائے افراد کو طاقتور بنانا ہوتا ہے۔ جب کہ مضبوط معاشرے کی بنیاد کمزور طبقات کے مفاد میں کھڑا ہونا ہوتا ہے ، یہ ہی منصفانہ معاشرے کا حسن ہوتا ہے ۔

کیا ریاست کو کمزور کر کے ہم ایک مربوط معاشرے کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں؟ جب ریاستی اداروں کو کمزورکرنے یا ریاستی اداروں سے وابستہ افراد خود ریاستی عمل کو کمزورکرنے کے کھیل کا حصہ بن جائے تو ریاست کا کمزور ہونا ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ مسئلہ کسی ایک فریق پر الزام تراشی کا نہیں بلکہ یہاں تمام فریقین ذمے دار ہیں۔ ریاست کی مضبوطی کا بڑا تعلق افراد کی مضبوطی سے ہوتا ہے۔ یعنی ریاست اور عوام کا مثبت باہمی تعلق ہی بنیاد بنتا ہے کہ ہم ایک مضبوط معاشرے کی طرف پیش قدمی کرسکیں۔لیکن یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا ریاستی او رحکمرانی کا نظام غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہے۔

ریاست کی کامیابی کی کنجی عوام کی طاقت ہوتی ہے ۔ یہ طاقت بنیادی طور پر 1973ء کے دستور میں دیے گئے پہلے بنیادی حقوق سے جڑے باب میں موجود ہے۔ ریاست عام آدمی کے بنیادی حقوق جو زندہ رہنے کے لیے ان کا حق سمجھا جاتا ہے جن میں تعلیم، صحت، علاج، روزگار، تحفظ، انصاف، اظہار آزادی، نقل و حمل جیسے امور شامل ہیں۔ لیکن یہ کہنا بجا ہے کہ یہاں جو سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور قانونی تفریق کے پہلو ہیں وہ کافی نمایاں اورگہرے ہیں۔ طبقاتی بنیاد پر چلنے والا معاشرہ عملی طورپر سماج کی حکمرانی کے مقابلے میں خاص طبقہ یعنی طاقتور طبقات کی حکمرانی کے گرد گھومتا ہے۔ ایسے سماج میں عام آدمی کا استحصال زیادہ ہوتا ہے۔

ایک مضبوط اور مربوط معاشرے کی تشکیل کے بنیادی جزو سیاسی و سماجی نظام، سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں، ذرایع ابلاغ یعنی میڈیا، اہل دانش، استاد، علمائے کرام کا انفرادی یا اجتماعی کردار سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں خارجی قوتوں نے ان اداروں کو اول تو طاقتور نہیں بننے دیا اورجو موقع جمہوری قوتوںکو بھی ملا اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس سماج میں عملی طورپر تبدیلی سے جڑے یہ ادارے ابتداہی سے مضبوط نہیں ہوسکے۔ اس کی وجہ خود ان اداروں کے اپنے مفادات اور ترجیحات بھی ہیں۔ یہ ادارے قانون کے تابع ہونے کے بجائے خاندان اور ذاتی دوستوں کا قبیلہ بن گئے ہیں۔ یہ بات بجا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بہت سے امور کو کمزور کیا، لیکن جو کمزوری یا نالائقی و نااہلی جمہوری قوتوںنے بھی دکھائی ہے اس کو بھی ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔

جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جمہوریت ہی بہتر نظام حکومت ہے تو اس سے مراد جمہوری اصول کی حکمرانی کا تصور ہوتا ہے۔ اس میںکمزور طبقات کا مفاد سب سے اہم ہوتا ہے۔ شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہوتا ہے جہاں سب ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ لیکن جو طرز عمل ہم نے جمہوریت کو چلانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ جمہوری نظام مضبوطی کی طرف بڑھ سکے گا، ممکن نہیں ہو گا۔

یہ جو منطق پیش کی جاتی ہے کہ ہم جوابدہی یا احتساب کے نظام کو پس پشت ڈال کر جمہوری عمل کو آگے بڑھائیں ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ کیونکہ جمہوریت اورجوابدہی یا احتساب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو شخصیات کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی پر فوقیت دینی ہو گی اوراداروں کی بالادستی ہی سیاسی نظام کا حسن ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ، سیاستدان، حکمران طبقہ، پارلیمان، سیاست، میڈیا، کاروباری طبقہ یہ سب کو سمجھنا ہو گا کہ ریاست کو چلانے کے موجودہ طریقہ کار سے اس سماج کی کوئی خدمت نہیں ہو سکے گی۔ ہمیں اپنے موجودہ طرزعمل، حکمت عملی سے جڑ ی حکمت کو خود سے چیلنج کرنا ہو گا اور ایک ایسی حکمت عملی کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی جو ہمیں نئے حالات اورنئے تقاضوں میں ایک جدید ریاست کی تشکیل میں مدد فراہم کر سکے۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے سے موجود روایتی اور فرسودہ حکمرانی کے نظام اور ریاستی طور طریقوں کو قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے چیلنج کریں اور عوامی رائے عامہ کو بیدار کریں کہ ہمیں ایسے معاشرے کی تشکیل نو کرنی ہے جو سب کو سماج میں یکجا کر سکے۔ اس تاثر کی نفی کرنی ہو گی کہ یہ سماج سب کا نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے اوران سے جڑے مفادات کا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ جب ریاست اورحکمرانی کا نظام عام لوگوں سمیت سب کے ساتھ کھڑا ہو گا تو پھر سماج بھی ریاست کے مفاد کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑا نظر آئے گا، وگرنہ پہلے سے موجود خلیج میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔

یہ سماج اعتدال پسندی، جدیدیت کے نئے تقاضوں سمیت دنیا میں حکمرانی کے نظام کو مربوط بنانے والے تجربات سے سیکھنے اور اس پر چل کر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت پر مبنی نظام ہی ہماری اولین ضرورت ہے۔ انتہا پسند رجحانات کو طاقت دینے کے بجائے ان کو کمزور کرنا اور ان کے مقابلے میں ترقی کے نئے متبادل بیانیہ کو ہی طاقت دینی ہوگی۔ اس بیانیہ میں تعلیم کو فوقیت دینی ہو گی اور پورے تعلیمی نظام کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیونکہ تعلیمی اداروں سے اٹھنے والی متبادل بیانیہ کی جنگ ہی ہمیں آگے لے کر جا سکتی ہے۔

ریاست کو بھی سمجھنا ہو گا کہ اظہار آزادی اور فکری بنیادوں پر کام کرنے والے افراد اور اداروں کو آزاد کرکے ہی کسی نئے علم و فکر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ تاثر کہ ریاست متبادل آوازوں کو دبانا چاہتی ہے درست حکمت عملی نہیں ہو گی۔ مربوط معاشرہ زندہ معاشروں کی مدد سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔ اس لیے سماج میں موجود تبدیلی کے حقیقی کارندوں کو حقیقی تبدیلی کے لیے خود کو بھی منظم کرنا ہے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی ہوگی کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ منصفانہ سماج کی تشکیل میں سماج کو ان کی مدد اورحمایت درکار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں