سولجر بازار کا پندرہ سو سال پرانا مندر

سولجر بازار میں واقع پنچ مکھی ہنومان مندر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پندرہ سو سال قدیم ہے

پنچ مکھی ہنومان مندر کم از کم 1500 سال قدیم ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

کراچی کی قدامت کے حوالے سے کسی کو انکار نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس شہر نے پتھر، تانبے، کانسی سمیت تمام ادوار دیکھے۔ لیکن مستند تاریخ یہ ہے کہ اس شہر کا آغاز چاروں طرف سمندر کی بے رحم موجوں میں گھرے ایک چھوٹے سے جزیرے منوڑہ سے ہوا۔ جس کی بنیاد 1729 میں بھوجومل نامی تاجر نے اس وقت رکھی جب کھرک کی قدرتی بندرگاہ ریت اور مٹی سے بھرگئی۔ جس کے بعد بھوجومل نے وہاں سے ہجرت کرتے ہوئے اس جزیرے پر نہ صرف قدم رکھا، بلکہ اپنے خاندان اور بستی کے لوگوں کو یہاں لاکر آباد کیا اور انہیں بحری قذاقوں سے بچانے کےلیے اس کے چاروں اطراف فصیل شہر تعمیر کروائی۔

انگریزوں نے 1860 میں اس فصیل کو مسمار کردیا اور شہر باہر کی طرف نکل گیا۔ ابتدائی طور پر کیماڑی، کھارادر، میٹھادر، لیاری، رنچھوڑ لائن، صدر کے علاقے آباد ہوئے، جبکہ اس کا اختتام ماضی کے مکھی چوہٹ رام روڈ اور ڈولی کھاتہ، جو کہ گارڈن کے ساتھ منسلک تھا، پر ہوا۔ اس علاقے کو برطانوی فوجیوں کی رہائش کے سبب سولجربازار کا نام دیا گیا۔ لیکن بعض مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ کراچی جسے مختلف ناموں سے جانا اور مانا جاتا رہا، انتہائی قدیم ہے، جس کی زندہ مثال سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار مبارک ہے، جسے 1258 برس گزر چکے ہیں۔ ان ہی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ جس طرح یہ مزار قدیم ہے، ٹھیک اسی طرح سولجر بازار میں واقع پنچ مکھی ہنومان مندر بھی ہے۔ جس کے بارے میں ہندو برادری کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس مقام پر ایک سادھو کی عبادت کے سبب پنچ مکھی ہنومان زمین کی ساتویں تہہ سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے اور انہوں نے سادھوؤں کو بشارت دی کہ وہ 7 مٹھی مٹی موجودہ قدیم مندر کی جگہ سے نکال لیں۔ جس پر سادھو نے جیسے ہی مٹی نکالی، پنچ مکھی ہنومان کی مورتی زمین سے باہر آگئی۔ جو کہ آج بھی موجود ہے اور پوری دنیا سے لوگ یہاں آتے ہیں۔



اس مندر کے مہاراج ان دنوں شری رام ناتھ ہیں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ یہ دنیا کا وہ واحد مندر ہے جہاں خود پنچ مکھی ہنومان کا ظہور ہوا اور اسی حوالے سے اسے دنیا بھر میں خاص شہرت حاصل ہے اور لوگ دور دراز سے مندر کے درشن کرنے یہاں آتے ہیں۔ گوکہ اس علاقے میں 3 سے زائد مندر ہیں، مگر قدامت کے لحاظ سے اس مندر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس مندر کا ذکر ویسے تو ہندو برادری کے تمام لوگ کرتے ہیں، مگر اس حوالے سے تاریخ دان بھی یہ دعوے کرتے ہیں کہ یہ مندر کم از کم 1500 سال قدیم ہے اور اس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن اور البیرونی میں بھی درج ہے۔ جبکہ اس کی قدامت کا اندازہ پتھروں سے بنے اس مندر کی تعمیرات سے بھی کیا جاسکتا ہے۔




مندر کے اوپر بنے ہوئے گنبد پر مختلف بھگوان اور اوتاروں کے مجسمے موجود ہیں، جو دیکھنے والوں کو ایک لمحے کےلیے مبہوت کردیتے ہیں۔ اس مندر میں نہ صرف شری پنچ مکھی کی مورتی نصب ہے بلکہ مندر کے اندر شیراں والی ماتا جی، مری ماتا سمیت لاتعداد بھگوان اور اوتاروں کے بت علیحدہ علیحدہ بنائے گئے مندروں میں موجود ہیں، جن کی ایک طویل عرصے سے ہندو برادری دن رات پوجا کرتی ہے۔ ان ہی مندروں میں رادھا کرشن کی مورتی بھی نصب ہے، جو کہ ماضی میں مکمل طور پر چندن کی لکڑی سے تیار کی گئی تھی، جو کہ آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ جبکہ مندر کے اندر رکھی گئی دیگر مورتیاں بھی اپنی قدامت کی دلیل پیش کرتی ہیں۔



اس حوالے سے بعض مؤرخین کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ مندر ایک جزیرے پر بنایا گیا تھا اور لوگ کشتیوں کے ذریعے دور دراز کا سفر کرکے پوجا پاٹ کےلیے یہاں آیا کرتے تھے۔ مگر یہ دعویٰ کسی طور درست نہیں۔ کیونکہ ماضی میں کبھی اس علاقے میں جزیرہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کا شمار پہاڑی علاقوں کے طور پر کیا جاتا تھا اور یہ شہر کا آخری سرا ہوتا تھا۔

گوکہ تالپور دور میں کیپٹن ہارڈ نے بھی اپنی کتاب میں اس مندر کا ذکر کیا ہے اور 150 سال قبل انگریز الیگزینڈر جان ایف بیلی نے بھی اس مندر کی قدامت کا ذکر کیا ہے، مگر اس حوالے سے بیشتر تاریخ داں اس بات سے متفق نہیں۔ اس کے باوجود آج بھی اس مندر میں دنیا بھر اور دور دراز سے لوگ آتے ہیں اور شام ہوتے ہی اس مندر پر پوجا پاٹ کرنے والوں کا رش لگ جاتا ہے۔ لوگ بڑے پیمانے پر پرشاد کی تقسیم کرنے کے ساتھ گوشالہ میں گائیوں کو چارہ کھلا رہے ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story