دہشت گردی کی جنگ نے ایک ابھرتے صحافی کے ارمان چھین لیے
جون2011 کو خیبر سپرمارکیٹ پشاور کینٹ میں خودکش حملے میں صحافی شہید اور 8 زخمی ہوئے
پینتیس سالہ اسفندیارچمکنی بھی ان صحافیوں میں شامل ہیں جنھوں نے دہشت گردی کی جنگ میں جام شھادت نوش کیا۔ اسفندیار 11 جون 2011 کو خیبر سپرمارکیٹ پشاور کینٹ میں ایک خودکش حملے کا نشانہ بنے جس میں 39 کے قریب لوگ شہید ہوئے جب کہ 100 سے زیادہ لوگ اس حملے میں زخمی ہوئے ۔ خیبر سپر مارکیٹ پشاور کینٹ کا ایک کمرشل علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر بیچلر رہائش پذیر ہوتے ہیں جن میں زیادہ تعداد صحافیوں کی ہوتی ہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں جہاں دیگر معصوم شہری لقمہ اجل بنے وہاں اس حملے کے نتیجے میں اسفندیار سمیت دو صحافی بھی شہید ہوئے جب کہ 8 صحافی شدید زخمی ہوئے جن میں سنیئر صحافی صفی اللہ گل ، اسلام گل افریدی، عمران بخاری، شفیع اللہ، برکت اللہ مروت، قاضی فضل اللہ، کیمرہ مین ہاشم علی، شہریار اور ریاض اس حملے کے نتیجے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کے عینی شاہد سنئیر صحافی اسلام گل آفریدی جو حملے میں زخمی ہوئے تھے نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس حملے کو 8 سال ہوچکے ہیں لیکن جب بھی وہ مناظر یاد کرتے ہیں تو دھماکے کی وہ خوفناک اواز ان کی کانوں میں تھرتھراتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے نتیجے میں ان کے کان کا ایک پردہ بلکل ناکارہ ہوگیا تھا اور مسلسل علاج کرنے کے باوجود بھی ان کا ایک کان اواز سننے سے قاصر ہے۔ سنیئر صحافی شمیم شاہد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسفندیار ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا تھا اور ان کا تعلق پشاور کے قریب چمکنی علاقے سے تھا ان کا مزید کہنا تھا کہ اسفندیار پشاور کے ایک مقامی اخبار کے ساتھ بطور اسٹاف رپورٹر منسلک تھا جب کہ انہوں نے شادی بھی نہیں کی تھی اور ان کے ماں باپ بہت پہلے مرگئے تھے تو وہ زیادہ تر پشاور میں رہتا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی موت واقع ہوئی تو ان کو ہم ان کے بہن کے گھر لے کر گئے اور ان کی چمکنی کے علاقے میں تدفین کی گئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسفندیار کے علاوہ بھی اس حملے میں بہت سارے صحافی نشانہ بنے، واقعے کے بعد خیبر یونین اف جرنلسٹ اور پشاور پریس کلب نے واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور واقعے میں ملوث لوگوں کی جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا لیکن آج تک اس واقعے میں ملوث لوگوں کو پکڑا نہیں جاسکا۔
خیبر یونین اف جرنلسٹ پشاور کے جنرل سیکٹری محمد نعیم نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بم دہماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی پوری مدد کی جاتی ہیں اور شہید ہونے والے صحافیوں کو تین لاکھ روپے تک امداد دی جاتی ہیں جب کہ زخمی ہونے والے صحافیوں کی تمام علاج یونین کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی اسفندیار کا کیس الگ تھا کیونکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی اور ان کے والدین بھی وفات پا چکے تھے جس کی وجہ سے ان کو مالی امداد نہیں دی گئی۔ اس واقعے کے حوالے سے جب گلبرگ پولیس اسٹیشن کے محرر بحراللہ سے پوچھا گیا تو انہوں نےبتایا کہ خیبر سپر مارکیٹ میں جو دلخراش واقعہ 11 جون 2011 کو پیش ایا تھا جس میں 39 کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے جب کہ 100 سے زیادہ لوگ اس واقعے میں زخمی ہوئے تھے اس واقعے کی رپورٹ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی تھی لیکن ابھی تک اس واقعے میں کوئی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
پاکستان پریس فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے لے کر اب تک پاکستان میں 73 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صحافیوں اور میڈٰیا میں کام کرنے والے کارکنان کو قتل کیا جاچکا ہیں جب کہ اب تک صرف 5 صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزائیں دی جاچکی ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2011 بھی پوری دنیا میں صحافت اور صحافیوں کے لیے اچھا سال ثابت نہیں ہوا اور پوری دنیا میں 46 کے قریب صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں 7 صحافی پاکستان سے تھے جو دوران ڈیوٹی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران نشانہ بنے۔
پشاور پریس کلب کے سیکٹری ظفر خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب کے صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دی ہیں اور اسفندیار کی قربانی بھی دہشت گردی کی جنگ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ خیبر سپر مارکیٹ واقعے میں یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اس واقعے میں لوگ زیادہ شہید ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب نے دہشت گردی کی جنگ میں صحافیوں کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے ان کو پیشہ ورانہ ٹریننگ دی اور ان کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ خبر سے زیادہ اہم صحافی ہیں اور ان کو ٹریننگ دی گئی کہ پہلے اپنے اپ کو ایسی جگہ پر لے کر جائیں جہاں آپ کوریج کے دوران اپنے اپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب نے دیگر اداروں کے ساتھ ملکر صحافیوں کو ' محفوظ صحافت' کنفلکٹ رپورٹنگ جیسے ٹریننگ کے مواقع فراہم کیے گئے، اگرچہ دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے صحافی بھی عام شہریوں کی طرح لقمہ اجل بنے لیکن بہت سارے صحافیوں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ کی وجہ سے ان کے زندگیوں کو محفوظ کیا جاچکا ہے۔
خیبر پختوںخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں بشمول صحافیوں نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ان کی قربانیاں کبھی بھی بھولی نہیں جاسکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی خیبر پختونخواہ میں امن لوٹ ایا ہے اور حکومت نہ صرف خیبر پختوںخوا بلکہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایک بہتر ورکنگ ماحول مہیا کررہی ہیں۔ شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ حکومت کی بہتر پالیسی سے خیبر پختونخواہ میں پچھلے 5 سالوں سے امن میں کافی بہتری آئی ہیں اور ااگر اپ 2009 اور 2010 کا زکر کریں جو کہ خیبر پختونخواہ میں بلعموم اور پشاور میں بالخصوص ہر جگہ دھماکے ہوتے تھے لیکن ابھی اللہ کا شکر ہے کہ پشاور سمیت پورے صوبے میں امن ہے اور اب غیر ملکی سیاہ بھی پشاور سمیت پورے صوبے کی سیر کے لیے اتے ہیں جو امن کا ایک ثبوت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہی ہیں اور اس بجٹ میں بھی صحافیوں کے لیے رہائشی منصوبہ جب کہ 60 سال سے اوپر صحافیوں کو ماہانہ وظیفے کی منظوری دی جاچکی ہے جسے صحافتی برادری نے کافی سراہا ہے۔
اس حملے کے عینی شاہد سنئیر صحافی اسلام گل آفریدی جو حملے میں زخمی ہوئے تھے نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس حملے کو 8 سال ہوچکے ہیں لیکن جب بھی وہ مناظر یاد کرتے ہیں تو دھماکے کی وہ خوفناک اواز ان کی کانوں میں تھرتھراتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے نتیجے میں ان کے کان کا ایک پردہ بلکل ناکارہ ہوگیا تھا اور مسلسل علاج کرنے کے باوجود بھی ان کا ایک کان اواز سننے سے قاصر ہے۔ سنیئر صحافی شمیم شاہد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسفندیار ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا تھا اور ان کا تعلق پشاور کے قریب چمکنی علاقے سے تھا ان کا مزید کہنا تھا کہ اسفندیار پشاور کے ایک مقامی اخبار کے ساتھ بطور اسٹاف رپورٹر منسلک تھا جب کہ انہوں نے شادی بھی نہیں کی تھی اور ان کے ماں باپ بہت پہلے مرگئے تھے تو وہ زیادہ تر پشاور میں رہتا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی موت واقع ہوئی تو ان کو ہم ان کے بہن کے گھر لے کر گئے اور ان کی چمکنی کے علاقے میں تدفین کی گئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسفندیار کے علاوہ بھی اس حملے میں بہت سارے صحافی نشانہ بنے، واقعے کے بعد خیبر یونین اف جرنلسٹ اور پشاور پریس کلب نے واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور واقعے میں ملوث لوگوں کی جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا لیکن آج تک اس واقعے میں ملوث لوگوں کو پکڑا نہیں جاسکا۔
خیبر یونین اف جرنلسٹ پشاور کے جنرل سیکٹری محمد نعیم نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بم دہماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی پوری مدد کی جاتی ہیں اور شہید ہونے والے صحافیوں کو تین لاکھ روپے تک امداد دی جاتی ہیں جب کہ زخمی ہونے والے صحافیوں کی تمام علاج یونین کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی اسفندیار کا کیس الگ تھا کیونکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی اور ان کے والدین بھی وفات پا چکے تھے جس کی وجہ سے ان کو مالی امداد نہیں دی گئی۔ اس واقعے کے حوالے سے جب گلبرگ پولیس اسٹیشن کے محرر بحراللہ سے پوچھا گیا تو انہوں نےبتایا کہ خیبر سپر مارکیٹ میں جو دلخراش واقعہ 11 جون 2011 کو پیش ایا تھا جس میں 39 کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے جب کہ 100 سے زیادہ لوگ اس واقعے میں زخمی ہوئے تھے اس واقعے کی رپورٹ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی تھی لیکن ابھی تک اس واقعے میں کوئی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
پاکستان پریس فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے لے کر اب تک پاکستان میں 73 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صحافیوں اور میڈٰیا میں کام کرنے والے کارکنان کو قتل کیا جاچکا ہیں جب کہ اب تک صرف 5 صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزائیں دی جاچکی ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2011 بھی پوری دنیا میں صحافت اور صحافیوں کے لیے اچھا سال ثابت نہیں ہوا اور پوری دنیا میں 46 کے قریب صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں 7 صحافی پاکستان سے تھے جو دوران ڈیوٹی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران نشانہ بنے۔
پشاور پریس کلب کے سیکٹری ظفر خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب کے صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دی ہیں اور اسفندیار کی قربانی بھی دہشت گردی کی جنگ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ خیبر سپر مارکیٹ واقعے میں یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اس واقعے میں لوگ زیادہ شہید ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب نے دہشت گردی کی جنگ میں صحافیوں کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے ان کو پیشہ ورانہ ٹریننگ دی اور ان کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ خبر سے زیادہ اہم صحافی ہیں اور ان کو ٹریننگ دی گئی کہ پہلے اپنے اپ کو ایسی جگہ پر لے کر جائیں جہاں آپ کوریج کے دوران اپنے اپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب نے دیگر اداروں کے ساتھ ملکر صحافیوں کو ' محفوظ صحافت' کنفلکٹ رپورٹنگ جیسے ٹریننگ کے مواقع فراہم کیے گئے، اگرچہ دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے صحافی بھی عام شہریوں کی طرح لقمہ اجل بنے لیکن بہت سارے صحافیوں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ کی وجہ سے ان کے زندگیوں کو محفوظ کیا جاچکا ہے۔
خیبر پختوںخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں بشمول صحافیوں نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ان کی قربانیاں کبھی بھی بھولی نہیں جاسکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی خیبر پختونخواہ میں امن لوٹ ایا ہے اور حکومت نہ صرف خیبر پختوںخوا بلکہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایک بہتر ورکنگ ماحول مہیا کررہی ہیں۔ شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ حکومت کی بہتر پالیسی سے خیبر پختونخواہ میں پچھلے 5 سالوں سے امن میں کافی بہتری آئی ہیں اور ااگر اپ 2009 اور 2010 کا زکر کریں جو کہ خیبر پختونخواہ میں بلعموم اور پشاور میں بالخصوص ہر جگہ دھماکے ہوتے تھے لیکن ابھی اللہ کا شکر ہے کہ پشاور سمیت پورے صوبے میں امن ہے اور اب غیر ملکی سیاہ بھی پشاور سمیت پورے صوبے کی سیر کے لیے اتے ہیں جو امن کا ایک ثبوت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہی ہیں اور اس بجٹ میں بھی صحافیوں کے لیے رہائشی منصوبہ جب کہ 60 سال سے اوپر صحافیوں کو ماہانہ وظیفے کی منظوری دی جاچکی ہے جسے صحافتی برادری نے کافی سراہا ہے۔