بحث کی ضرورت ہے ایک مکالمہ…

ریجل:میرے خیال میں امریکا اسدکے‘ نہتے عوام پرزہریلی گیس کے استعمال کے معاملے کونظراندازنہیں کرسکتا۔

دہشت گردی ایک بچھوکی طرح ہے' یہ کسی بھی وقت غیر متوقع طورپرآپ کو ڈنک مارسکتی ہے۔اس لیے آپ شام میںاس کی معاونت نہیں کرسکتے جب کہ مالی میں اس سے لڑرہے ہوں اورچیچنیا میں اس سے تعاون نہیں کرسکتے جب کہ افغانستان میں اس سے نبردآزما ہوں لیکن دنیا دُہرے معیارات سے چھٹکارانھیں پاسکتی۔ اوباما کے ایک حامی سینیٹرنے جھنجھلاکرکہا'آخربحث کی ضرورت ہی کیا ہے!

ایوانِ نمائندگان کے اسکاٹ ریجل اور باربرالی کے درمیان کچھ یوں گفتگو ہوئی۔ اسکاٹ بولا:قانون کے مطابق پریذیڈنٹ اوباما کانگریس سے اجازت لیے بغیرشام پرمیزائل اٹیک نہیں کرسکتے۔

باربرا:عین ممکن ہے کانگریس حملے کی اجازت دے دے'لیکن صدر صاحب کے ڈرافٹ پر بحث بہت ضروری ہے۔ یہی اصول ہے۔

ریجل:اس بحث میں ابھی کئی دن ہیں۔نو ستمبر کو کانگریس چھٹیاں مناکرواپس آئے گی تب تک دنیامیںاس حوالے سے بہت تیزی سے حالات تبدیل ہوتے رہیں گے۔

لی:اس سے زیادہ کیا حالات تبدیل ہوں گے کہ خلیج فارس میں امریکی اورروسی جنگی بیڑے آمنے سامنے پہنچ گئے ہیں۔حزب اللہ کے سترہزارمیزائل تل ابیب پربرسنے کے لیے تیارہیں اوربشارالاسدبھی اس طرف دیکھ کردانت تیز کر رہا ہے۔اس کے میزائلوں نے ترکی اور اردن کا رخ کر لیا ہے۔

ریجل:میرے خیال میں امریکا اسدکے' نہتے عوام پرزہریلی گیس کے استعمال کے معاملے کونظراندازنہیں کرسکتا۔

لی: امریکا مت کہو، اوباماانتظامیہ کہو۔ٹاپ ملٹری آفیشلز نے سخت تحفظات کااظہارکردیاہے۔

ریجل مسکراتے ہوئے: اگربات اوباماانتظامیہ کی ہے توپھرامریکا کڑی مشکل میں گرفتارہونے والا ہے۔فرانس اورسعودی عرب مل کراس بار امریکا کے کندھوں پربندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

لی:امریکا اپنے مفاد کوبھی دیکھ رہا ہے۔مسلم دنیا میں صرف شیعہ ممالک کے سربراہان کٹھ پتلی بننے پر تیار نہیں ہیں۔ تم نے بشار کا انٹرویونہیں پڑھا'کہہ رہاتھا کہ شام مغرب کی کٹھ پتلی ریاست کبھی نہیں بنے گا۔

ریجل:ہمارے ہاتھوں زخم خوردہ ریچھ کوبھول رہی ہولی۔سرد جنگ کے بعد اس نے شام کے ساحلی شہرطرطوس میں روسی نیول فیسلیٹی قائم کی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ ایندھن کی فکروں سے آزاد ہے۔اسرائیل سے قبرص تک بحرمتوسط میںآئل اورگیس میں روس کی بے انتہا دلچسپی سے کون واقف نہیں۔کیا تم یورپ تک روسی گیس پائپ لائن کی اہمیت سے واقف نہیں ہو۔

لی:یہ کوئی خفیہ معاملات تونہیں ہیں ریجل'میں عالمی معاملات پربہت گہری نگاہ رکھتی ہوں۔

ریجل:لی'تمھاراکیاخیال ہے، روس اور چین سلامتی کونسل میں حملے کی مخالفت کررہے ہیں، معاملات کیارخ اختیار کریں گے؟

لی:شہزادہ باندربن سلطان نے اس بارے میں نہایت اہم کرداراداکیا ہے۔سعودی انٹیلی جنس چیف نے مسٹرپیوٹن سے کئی گھنٹے طویل خفیہ ملاقات کی ہے۔اگرروس نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا توسوچی میں آئندہ برس ہونے والے اولمپکس گیمز پرچیچن عسکریت پسند حملہ کردیں گے۔لیکن اگروہ اسدحکومت گرانے پراعتراض نہ کرے تو سعودی شہزادے نے شام میں روسی نیول بیس کی حفاظت کا وعدہ کیا۔لیکن ایک تشویش ناک بات یہ ہے کہ چیف نے روس کو گلوبل آئل مارکیٹ پرکنٹرول کی پیش کش بھی کردی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ فی بیرل کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگے گی۔

ریجل:میری سمجھ میں نہیں آتا کہ صدر اوباماآخر اتنا آگے جاکرسعودی عرب کی جنگ کیوں لڑرہاہے۔


لی: دراصل صدراوباماالقاعدہ کاآخرتک پیچھا کرتے رہیںگے۔افغانستان اورپاکستان سے القاعدہ کے دہشت گردوں نے شام کارخ کرلیاہے'اورچیچن عسکریت پسندوں نے تو دمشق کوگھربنالیاہے۔پھر ہوسکتا ہے کہ اوباما نئے امریکی ہتھیار ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہوں۔ ان کے درمیان گفتگو جاری تھی کہ ریجل کے سیل فون پرکال آئی۔ریجل نے اسکرین دیکھ کرکہا:اوہ' سینئرکانگریس وومن ایڈی برنیس جانسن کی کال ہے۔ہیلو لیڈی جانسن، کیا حال ہے،مجھے یقین ہے کہ آپ کا ووٹ تواوباماکے محدودحملے کے خلاف ہی ہوگا۔

ایڈی:مسٹرریجل، میں بلند آوازمیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جنگ کی مخالفت کروں گی۔اس دنیا کوجنگ کی نہیں امن اورمحبت کی ضرورت ہے۔

ریجل: ٹھیک ہے لیکن بشارالاسدپُرامن لوگوں پرکیمیاوی ہتھیاراستعمال کررہاہے'کل وہ امریکا کوبھی سارین گیس کا نشانہ بناسکتاہے۔

ایڈی: کیابچکانہ باتیں کررہے ہوریجل۔اب تک فرانس نے جوثبوت فراہم کیے ہیں وہ نہایت مشکوک ہیں۔ اور غوطہ کے رہایشیوںنے واضح طورپرکہا ہے کہ کیمیاوی ہتھیار باغیوںکے پاس تھے اور مس ہینڈلنگ کی وجہ سے زہریلی گیس پھیلی جس کے نتیجے میں باغیوں سمیت کچھ اورلوگ بھی ہلاک ہوئے۔ مجھے یقین ہے اردن کے راستے یہ ہتھیارایک اسلامی ملک کے انٹیلی جنس چیف کے ذریعے وہاں پہنچائے گئے ہیں۔کیاہمیں نہیں پتا کہ شام کی حکومت کے خلاف چیچن عسکریت پسندوں کو کون کنٹرول کررہا ہے۔القاعدہ ڈاکٹرائن اپنانے والے دہشت گردوں کوایک مسلمان ملک کے ایجنٹ نے یہ زہریلے ہتھیارفراہم کیے ۔ترکی کی طرف سے ان دہشت گردوں کولاجسٹک سپورٹ اورعرب پیسے اوراسلحے کی اسمگلنگ نے شام کولہولہان کردیا ہے۔

ریجل: لیڈی جانسن'جنگ ہمیشہ آپ کوجذباتی کردیتی ہے' میں سمجھ سکتاہوں۔

ایڈی: نہیں ' تم نہیں سمجھ سکتے'کبھی نہیں۔اوباماانتظامیہ امریکی معیشت کوڈبودے گی۔مسلم دنیاکوبارودکاڈھیربنانے کاجنون امریکی بربادی پرمنتج ہوگا۔مسٹراوباماکودہرامعیارترک کرنا ہوگا۔وہ اسرائیل کے ساتھ مل کرالقاعدہ کے ہاتھ مضبوط کررہاہے۔باغی اسرائیل کی چوکیوں سے گزرکرجان بچاتے ہیں اور ان کے زخمیوںکاعلاج اسرائیلی اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میں تمام نمایندہ گانِ ایوان سے سوال کرتی ہوں کہ کیا القاعدہ شام میں ہماری حلیف بن گئی ہے۔اگر ایساہے تویہی القاعدہ پاکستان اور افغانستان میں ہماری دشمن کیوں ہیں؟

ریجل: مجھے یقین ہے کہ آپ پوری تیاری کے ساتھ نوستمبرکواجلاس میں شریک ہوںگی۔دیکھتے ہیں کہ بحث کا کیانتیجہ نکلتا ہے۔لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اوبامانے ہرحال میں حملہ کرنے کاتہیہ کرلیاہے۔

ریجل نے سیل آف کرتے ہوئے لی کی طرف دیکھااور کہا: لگتاہے کانگریس میں بڑی گرماگرم بحث ہوگی۔اب عالمی معاملات پہلے کی طرح خفیہ نہیں رہے ہیں۔راز ایسے منکشف ہوتے ہیں جیسے انڈے سے شریرچوزا وقت سے پہلے خول توڑ کرنکل آتاہے۔اب بڑے لوگوں کے بیانات بھی کسی لطیفے سے کم نہیں ہوتے۔نیٹوسیکریٹری جنرل آنرس فوراسموسن کا برسلز میں بیان سنو'انھیں ذاتی طورپریقین ہے کہ بشارحکومت کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کی ذمے دار ہے اب عالمی سنجیدہ معاملات کے تناظر میں 'ذاتی طورپریقین' کا کیا مطلب ہے؟

لی: تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک طرف چین اور روس کااصرارہے کہ کیمیکل ہتھیاروں کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے جائیں اور سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیرکوئی حملہ نہ کیاجائے اور دوسری طرف دنیاکانگریس میں ہونے والی بحث کی منتظر ہے۔ تیسری طرف جنرل آنرس کا عجوبہ بیان ' یعنی شامی عوام میں موت بانٹنے کے لیے محض ایک بحث کو کافی سمجھا جا رہا ہے۔

ریجل: ہماری پالیسیوں کے منفی نتائج کیوں برآمد ہورہے ہیں' یہ تشویش ناک امر ہے۔لیبیا اورمصرمیںمنفی نتائج برآمد ہوئے'سول وار سے قبل لیبیاپانچ کامیاب ترین اورتیزی سے ترقی کرتی ہوئی ریاستوںمیں سے ایک تھی۔امریکی اوراتحادیوںکے حملے کے بعدیہ کھنڈربن گئی لیکن ایک بڑاحصہ ہمارے مخالف عسکریت پسندوںکے قبضے میں آ گیا۔ مصر میں اخوان برسراقتدارآئے۔اب مجلس دستورسازکوقائل کرنااتناآسان نہیں رہاہے۔

لی: اب اوباما کی نظرسویڈش ملٹری لیبارٹری کی رپورٹ پر ہے'ان کا سوئیڈن کادورہ ان کے عزائم کی طرف اشارہ کررہا ہے۔کانگریس میں بحث کا نتیجہ کچھ بھی ہو'شام کاتختہ الٹنے والا ہے۔

ریجل: آثاریہی بتارہے ہیں۔

کچھ دیرخاموشی کے بعد لی نے چونک کرپوچھا: برنیس جانسن نے کیوں فون کیاتھا؟

ریجل:(گہری سانس لیتے ہوئے) صرف ایک بحث کے لیے!
Load Next Story