ہمارے بنیادی مسائل کیا ہیں

وزیراعظم اور ان کی ٹیم کرپشن کے خاتمے کے لیے توکوشاں ہے لیکن اس ساری صورتحال وہ بھول چکے ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

ہمارے ذرایع ابلاغ میں دنیا جہاں کے مسائل پر بات تو ہوتی ہے لیکن دال، روٹی اورچاول پر بہت کم بات ہوتی ہے۔گندم دنیا کے جن چند ملکوں میں پیدا ہوتی ہے، ان میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ ہم کبھی کبھی درآمد بھی کرتے ہیں۔ ایک بار تو ہم نے سعودی عرب سے بھی گندم درآمد کی تھی ، جب کہ یہ ریگستانی علاقہ کہلاتا ہے۔

ہماری زمین سعودی عرب سے کہیں زیادہ زرخیز ہے۔کسانوں سے کم قیمت میں گندم خریدی جاتی ہے اورعوام کو مہنگے داموں میں بیچا جاتا ہے۔آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ بیچ والا ہڑپ کر جاتا ہے، اس کا واحد علاج یہ ہے کہ حکومت گندم کی تجارت کو اپنے ہاتھوں میں لے لے، پھرآٹا پچاس روپے کلوکے بجائے تیس روپے کلو بہ آسانی عوام کو دستیاب ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں دالوں کی پیداوارکے لیے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے نشیبی علاقوں میں مونگ، مسور اور چنا بھاری مقدار میں پیداوار ہوتا تھا اور اب ہم جنوبی افریقہ اورآسٹریلیا سے دالیں درآمد کرتے ہیں ۔دال کی پیداوار میں بہت زیادہ پانی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹینک، بم اور میزائل تو بنا لیتے ہیں لیکن دال کی پیداوار بڑھا نہیں سکتے۔کہا جاتا ہے کہ اسلحے کی تجارت میں فائدہ زیادہ ہے تو پھر ہم دو سو روپے کلو دال کیوں خریدتے ہیں، جوکل ایک کلو دال خریدتے تھے، آج ایک پاؤ خریدنے پر مجبور ہیں، جو بنجر زمینیں بے کار پڑی ہیں انھیں آباد کرکے دال کی پیداوارکو بڑھایا جاسکتا ہے۔

یہ دال ہم پچاس روپے کلو بیچ سکتے ہیں اور برآمد بھی کر سکتے ہیں۔ مسئلہ ترجیحات اور انتظامات کا ہے ۔ چاول دنیا میں سب سے اچھا پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔کسی زمانے میں باسمتی کی دو ہزار اقسام چاول پنجاب میں پیدا ہوتے تھے لیکن اب وہ گھٹ کر دو سو اقسام تک محدود ہوگئے ہیں ۔

اس میں بھی ہمارے انتظامات کی کوتاہی ہے۔ چاول کی برآمدات میں پاکستان اور ہندوستان پیش پیش ہوا کرتے تھے جب کہ اب ویتنام ، فلپائن، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہم سے آ گے نکل گئے ہیں۔ ہمارے پیچھے جانے کی بنیادی وجہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، چھوٹے کاشتکاروں کو پانی بعد میں ملتا ہے جب کہ اثرورسوخ رکھنے والے اور بڑے جاگیرداروں کو پہلے پانی میسر آجاتا ہے۔ چاول کی فصل بھی گندم اور دیگر اجناس کی طرح بیچ کا شخص ہڑپ کرجاتا ہے۔ اس لیے چاول کی تجارت کو یعنی خریدوفروخت کو حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ پھر ہم چاول سو، ڈیڑھ سو روپے کلو خریدنے کے بجائے پچاس روپے کلو خرید سکتے ہیں، اس سے کسانوں کو بھی زیادہ قیمت مل سکتی ہے۔ یہ تو رہی انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی اجناس کی ضرورت کیوں کر پوری ہوسکتی ہے۔

اب رہی انتہائی کم درجے کے محنت کشوں کے حالات ۔ حکومت نے تو ایک غیرہنر مند مزدورکی کم ازکم تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقررکی ہے، مگر اس سے پہلے جب سولہ ہزار روپے تھی، اس وقت بھی نوے فیصد مزدوروں کو سولہ ہزار روپے تنخواہ نہیں ملتی تھی۔آٹھ سے بارہ ہزار روپے سے زیادہ دستیاب نہیں تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کون کرائے گا ؟حکومت کو تو عدالت، پریس کانفرنس، سوال، جواب اور درجواب سے فرصت ہی نہیں۔


آئیے! ان بکھرے ہوئے اور نظراندازکیے گئے مزدوروں کے مسائل پر ایک نظر ۔پاکستان میں بیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جنھیں اولڈ ایج بنیفیٹ یعنی بڑھاپے کی مراعات ملتی ہیں۔اس میں حکومت نے موجودہ بجٹ میں کوئی بھی اضافہ نہ کرکے ان بیس لاکھ افراد کے ساتھ انتہائی زیادتی کی ہے، یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھیں نیم فاقہ کشی کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ اس طرح سے پیٹرول پمپ پرکام کرنے والے مزدوروں کو بارہ گھنٹے اور چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کی مزدوری آٹھ سے بارہ ہزار روپے دی جاتی ہے جب کہ پیٹرول پمپ مالکان ارب پتی ہوتے ہیں۔

شہروں میں مختلف دکانوں یعنی دودھ ،گوداموں ،کلینکوں، ہوٹلوں، سیکیورٹی کے عملوں ،گھریلو ملازموں ، پرائیوٹ ٹیکسٹائل،گارمنٹ ، ہوزری، شیشے اور لوہے کی بھٹیوں، بھٹہ مزدوروں،کسانوں، ہاریوں ، چرواہوں ، لومز مزدوروں،گودی پرکام کرنے والوں، مچھیروں، مذبح خانوں ، ٹرالروں پر مال لادنے والوں ، جہازوں پر لوڈنگ اور ان لوڈنگ کرنے والوں کی کوئی پرسان حال نہیں ۔دکانوں پہ کام کرنے والے مزدوروں کو بارہ بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور تنخواہیں آٹھ سے دس ہزار روپے سے زیادہ نہیں،ان کی تنخواہیں ساڑھے سترہ ہزار روپے کروانے پر مالکان کوکون پابند کرے گا۔

ڈاکٹرز، وکلاء اور نجی دفاترکے چپڑاسیوں کی تنخواہیں حکومت کے اعلان کے مطابق کون انھیں دینے پر مجبورکرے گا ۔سیکیورٹی عملے کو ٹھیکیداری نظام کے حوالے کرنے سے آٹھ ہزار روپے ٹھیکے دارکھا جاتا ہے اور سیکیورٹی کے عملے کو آٹھ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی ہوتی ہے، اسی لیے موقع ملتے ہی ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر رقوم ہڑپ کرجاتے ہیں۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ نجی سیکیورٹی اداروں کو ختم کرکے ادارے خود سیکیورٹی گارڈزکو ملازم رکھیں۔

اسی طرح گھریلو ملازمین کی تنخواہوں اورکرایہ داروں کے کرایوں کی حد حکومت خود متعین کرے ۔ ٹیکسٹائل ، ہوزری اورگارمنٹ وغیرہ کے مزدوروںکو یونین سازی کے لازمی حق کو عملی جامع پہنایا جائے ۔ بھٹہ مزدوروں کی تنخواہیں اورکام کے اوقات کار کو حکومت قانوناً نافذکرے ۔کسانوں اور پاور لومز کے مزدوروں کی تنخواہیں اور اوقات کار حکومت کی جانب سے اعلان شدہ حد کو عملی جامع پہنائے۔ مچھیروں کو وڈیرہ شاہی سے نجات دلا کر اپنی مرضی سے جہاں چاہیں مچھلی بیچنے کی آزادی دی جائے ۔ مذبح خانوں ، ٹرالروں پر مال لادنے والوں اور لوڈنگ ان لوڈنگ کرنے والے مزدوروں پر بھی حکومتی اعلان پر عمل درآمد کروایا جائے۔ نجی جیلوں میں قید کرنے والے جاگیرداروں کو بھی قیدکی سزا دی جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اگر بڑھائی جاتی ہیں تو باقی نوے فیصد نجی اداروں کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں بھی دس سے پندرہ فیصد کا اضافہ کیا جائے۔

آیندہ بجٹ کی منظوری میں حزب اختلاف کو ان نکات کو بھر پور طور پہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں،ان مسائل پر 26 جون کو ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں بات کریں،کیونکہ عوام اس وقت چاہتے ہیں کہ ان زخموں پر مرہم رکھا جائے ، اگر تو حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما عوامی مسائل کو سرفہرست رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف کسی تحریک کا اعلان کریں ۔ لیڈر سڑکوں پر نکلیں گے تو عوام بھی ان کے پیچھے ہوں گے کیونکہ اس وقت تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ ہے ۔ایک بات بڑی اہم ہے کہ اگر عوامی مسائل کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تو حکومت مخالف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکے گی۔

عوام اس وقت چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پس رہے ہیں۔ایک تو ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قیمت میں عدم استحکام کے باعث مہنگائی کئی سوگنا بڑھ چکی ہے۔ ملکی معیشت میں عدم استحکام کی صورت حال نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ موجودہ بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کی جوبھرمار کردی گئی ہے، تنخواہ پیشہ ہر فرد کو اپنی پچاس فی صد ماہانہ آمدنی ٹیکسوں کی مد میں دینی پڑے گی حالانکہ وہ پہلے ہی بجلی ،گیس ، پانی ، پراپرٹی ٹیکس اور روزمرہ استعمال کی ہر شے پر ٹیکس دے رہا ہے اور اب گیس کے نرخوں میں دو سو فیصد اور بجلی کے بلوں میں سو فیصد اضافہ عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا، پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا گزارہ ناممکن ہوجائے۔

وزیراعظم اور ان کی ٹیم کرپشن کے خاتمے کے لیے توکوشاں ہے لیکن اس ساری صورتحال وہ بھول چکے ہیں کہ ''عوام '' نامی کوئی مخلوق بھی اس پاکستان میں موجود ہے، جن کے ووٹوں سے ان کی جماعت اور وہ منتخب ہوئے ہیں،ان کو ریلیف دینا اصل جمہوریت ہے لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتی ہے۔ اس تاثر کے خاتمے کی ضرورت ہے ۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی اور امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے۔
Load Next Story