حالات صرف کراچی میں ہی دگرگوں نہیں
ووٹ کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی طاقت و قوت صرف نواز شریف کے لیے مختص نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔
تقریباََ دس دن ہو گئے ہیں، روزانہ سونے سے پہلے ارادہ باندھ لیتا ہوں کہ صبح اُٹھ کر جو کالم لکھنا ہے اس کا تعلق کراچی سے نہ ہو۔ اصل وجہ اس خواہش کے پیچھے یہ ہے کہ میری دانست میں کراچی، کراچی کے واویلے کو زندہ رکھنے والے جو حقائق ہیں، میں ان کا صاف الفاظ میں تذکرہ نہیں کر سکتا۔ اپنی بزدلی کے ساتھ ساتھ خیال ان ساتھیوں کا بھی رکھنا پڑتا ہے جن کی تحریریں ان کی جوانی کی تصویروں سمیت چھپ کر مشہور نہیں ہوتیں۔
ہوتا مگر یوں ہے کہ صبح اُٹھنے کے بعد اخبارات کا جو پلندہ میرا ملازم بستر کے سرہانے رکھ گیا ہوتا ہے، اسے کھولتا ہوں تو کراچی کراچی کی گردان کی گونج ذہن پر مسلط ہو جاتی ہے۔ اب تو کبھی کبھار مجھے یہ خیال بھی آنا شروع ہو گیا ہے کہ شاید اس شہر کے مسائل کی تعداد سے کہیں زیادہ انھیں حل کر دینے والے نسخے مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ کراچی کے اتنے ''ماہرین'' بن گئے ہیں کہ کسی مشہور یونیورسٹی میں ایک باقاعدہ ''شعبہ کراچی'' قائم کر دینے کے بعد ہماری آنے والی نسلوں کو بیک وقت عمرانیات، شہری معیشت اور بلدیاتی نظم و نسق کا ماہر بنایا جا سکتا ہے۔ میرا سنکی مزاج اس پھکڑ پن سے مگر مطمئن نہیں ہوتا۔ چند خیالات و فرمودات ایسے بھی پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں جو خون کھولا دیتے ہیں۔
نواز شریف صاحب دو دن کراچی میں گزار کر اسلام آباد واپس آ گئے تو ان کے لوٹنے کے بعد جو صبح آئی اس کے چند مخصوص اخبارات میں ایک ہی بات کو مختلف حوالوں سے دہرایا گیا۔ بنیادی Theme ان خبروں اور تجزیوں کی یہ تھی کہ نواز شریف بھی کیا سادہ ہیں، کراچی میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں مگر ان ہی سید قائم علی شاہ کے ذریعے جو 2008ء سے 2013ء تک سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔ بات صرف وزیر اعلیٰ تک محدود نظر نہ آئی۔ ان کے لگائے آئی جی اور چیف سیکریٹری بھی نکمے ٹھہرائے گئے۔ بہت زیادہ ماتم کنائی اس بارے میں بھی ہوئی کہ غالباََ انگریزوں کے زمانے میں پنجاب کو ٹھوس انتظامی ڈھانچہ اور انتظامیہ فراہم کرنے والے لارنس برادران کے بعد اصلی تے وڈے اور ہر حوالے سے ایمان دار اور سخت گیر نظر آنے والے پولیس افسر ذوالفقار چیمہ صاحب کو آئی جی سندھ کیوں نہ لگایا جا سکا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چیمہ صاحب کی اس عہدے پر تعیناتی کے بغیر نواز شریف کراچی میں امن قائم نہیں کر سکتے۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک تاریخی موقع ضایع کر دیا۔
چیمہ صاحب کی معجزاتی شخصیت کے کرشمے چونکہ میں نے ذاتی طور پر نہیں دیکھے، اس لیے ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ان کے کارناموں کی ایسی پر زور قصیدہ خوانی کو بھگتنے کے بعد وزیر اعظم صاحب کو یہ اطلاع دینے پر مجبور محسوس کرتا ہوں کہ حالات صرف کراچی میں ہی دگرگوں نہیں۔ دس سے زیادہ برس ہو گئے ہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی بڑی شورش برپا ہے۔ پاکستانی فوج کے کئی جوان اور افسر اس شورش پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ کوئی ایسا بندوبست کیوں نہیں کر دیا جاتا کہ وفاقی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں ٹھہرائے گئے ان علاقوں میں امنِ عامہ کو بحال کرنے کی ذمے داری اس حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت میں نواز شریف چیمہ صاحب کے سپرد کر دیں۔ اس کے بعد چیمہ صاحب جانیں اور وہاں پر جاری شورش۔
میرا اصل مسئلہ لیکن چیمہ صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کے لیے کوئی مناسب عہدہ ڈھونڈنا نہیں ہے۔ تشویش اس سے کہیں زیادہ ایک بڑے ہی گھمبیر پہلو کی وجہ سے ہے۔ وزیر اعظم کو کوسنے دئیے جا رہے ہیں کہ وہ قائم علی شاہ کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر برقراری کو برقرار رکھتے ہوئے کراچی میں امن قائم کرنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ کوسنے دینے والے پتہ نہیں کیوں یاد نہیں رکھ پا رہے کہ نواز شریف ان دنوں اگر خود کو کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششیں کرنے پر مجبور سمجھ رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری نہیں بلکہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انھوں نے یہ عہدہ اس ملک پر فوج کشی کے ذریعے حاصل نہیں کیا نہ ہی ذوالفقار چیمہ صاحب جیسے معجزے برپا کرنے والے پولیس افسران نے ان کو اس مقام تک پہنچایا۔ پاکستان کے تیسری مرتبہ نواز شریف وزیراعظم اس لیے بنے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کو اس ملک میں ایک انتخاب ہوا۔ ان کی پاکستان مسلم لیگ کو ان انتخابات میں قومی اسمبلی میں اکثریت ملی جس کے طفیل وہ ہمارے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔
11 مئی 2013ء کے ہی دن سندھ جو پاکستان کا ایک صوبہ ہے وہاں کے لوگوں نے اپنی صوبائی اسمبلی کے لیے اکثریتی ووٹ پیپلز پارٹی نامی ایک جماعت کو دئیے۔ اس جماعت نے قائم علی شاہ کو دوبارہ وزارتِ اعلیٰ کی مسند پر بٹھا دیا۔ قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کی اکثریت کی بناء پر اس ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے والے نواز شریف کس بنیاد پر سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھانے والے قائم علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینا تو دور کی بات ہے اس پر غور کرنے کو بھی کراچی کراچی کا سیاپا کرنے والے تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر ہم جمہوریت پر واقعی ایمان رکھتے ہیں تو ووٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو حاصل طاقت اور قوت کا جو احترام ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے وہی احترام قائم علی شاہ کا حق بھی ہے۔ ووٹ کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی طاقت و قوت صرف نواز شریف کے لیے مختص نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ دوسری صورت میں درحقیقت آپ ان لوگوں کی تضحیک کر رہے ہیں جنھوں نے 11 مئی 2013ء کو سندھ میں قائم علی شاہ اور ان کی جماعت کو ووٹ دئیے۔ میری التجا ہے تو بس اتنی کہ اپنے اس رویے پر نظرثانی فرما لیجیے۔ ویسے مناسب تو اس پر ندامت محسوس کرنا ہو گا۔
ہوتا مگر یوں ہے کہ صبح اُٹھنے کے بعد اخبارات کا جو پلندہ میرا ملازم بستر کے سرہانے رکھ گیا ہوتا ہے، اسے کھولتا ہوں تو کراچی کراچی کی گردان کی گونج ذہن پر مسلط ہو جاتی ہے۔ اب تو کبھی کبھار مجھے یہ خیال بھی آنا شروع ہو گیا ہے کہ شاید اس شہر کے مسائل کی تعداد سے کہیں زیادہ انھیں حل کر دینے والے نسخے مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ کراچی کے اتنے ''ماہرین'' بن گئے ہیں کہ کسی مشہور یونیورسٹی میں ایک باقاعدہ ''شعبہ کراچی'' قائم کر دینے کے بعد ہماری آنے والی نسلوں کو بیک وقت عمرانیات، شہری معیشت اور بلدیاتی نظم و نسق کا ماہر بنایا جا سکتا ہے۔ میرا سنکی مزاج اس پھکڑ پن سے مگر مطمئن نہیں ہوتا۔ چند خیالات و فرمودات ایسے بھی پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں جو خون کھولا دیتے ہیں۔
نواز شریف صاحب دو دن کراچی میں گزار کر اسلام آباد واپس آ گئے تو ان کے لوٹنے کے بعد جو صبح آئی اس کے چند مخصوص اخبارات میں ایک ہی بات کو مختلف حوالوں سے دہرایا گیا۔ بنیادی Theme ان خبروں اور تجزیوں کی یہ تھی کہ نواز شریف بھی کیا سادہ ہیں، کراچی میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں مگر ان ہی سید قائم علی شاہ کے ذریعے جو 2008ء سے 2013ء تک سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔ بات صرف وزیر اعلیٰ تک محدود نظر نہ آئی۔ ان کے لگائے آئی جی اور چیف سیکریٹری بھی نکمے ٹھہرائے گئے۔ بہت زیادہ ماتم کنائی اس بارے میں بھی ہوئی کہ غالباََ انگریزوں کے زمانے میں پنجاب کو ٹھوس انتظامی ڈھانچہ اور انتظامیہ فراہم کرنے والے لارنس برادران کے بعد اصلی تے وڈے اور ہر حوالے سے ایمان دار اور سخت گیر نظر آنے والے پولیس افسر ذوالفقار چیمہ صاحب کو آئی جی سندھ کیوں نہ لگایا جا سکا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چیمہ صاحب کی اس عہدے پر تعیناتی کے بغیر نواز شریف کراچی میں امن قائم نہیں کر سکتے۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک تاریخی موقع ضایع کر دیا۔
چیمہ صاحب کی معجزاتی شخصیت کے کرشمے چونکہ میں نے ذاتی طور پر نہیں دیکھے، اس لیے ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ان کے کارناموں کی ایسی پر زور قصیدہ خوانی کو بھگتنے کے بعد وزیر اعظم صاحب کو یہ اطلاع دینے پر مجبور محسوس کرتا ہوں کہ حالات صرف کراچی میں ہی دگرگوں نہیں۔ دس سے زیادہ برس ہو گئے ہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی بڑی شورش برپا ہے۔ پاکستانی فوج کے کئی جوان اور افسر اس شورش پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ کوئی ایسا بندوبست کیوں نہیں کر دیا جاتا کہ وفاقی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں ٹھہرائے گئے ان علاقوں میں امنِ عامہ کو بحال کرنے کی ذمے داری اس حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت میں نواز شریف چیمہ صاحب کے سپرد کر دیں۔ اس کے بعد چیمہ صاحب جانیں اور وہاں پر جاری شورش۔
میرا اصل مسئلہ لیکن چیمہ صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کے لیے کوئی مناسب عہدہ ڈھونڈنا نہیں ہے۔ تشویش اس سے کہیں زیادہ ایک بڑے ہی گھمبیر پہلو کی وجہ سے ہے۔ وزیر اعظم کو کوسنے دئیے جا رہے ہیں کہ وہ قائم علی شاہ کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر برقراری کو برقرار رکھتے ہوئے کراچی میں امن قائم کرنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ کوسنے دینے والے پتہ نہیں کیوں یاد نہیں رکھ پا رہے کہ نواز شریف ان دنوں اگر خود کو کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششیں کرنے پر مجبور سمجھ رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری نہیں بلکہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انھوں نے یہ عہدہ اس ملک پر فوج کشی کے ذریعے حاصل نہیں کیا نہ ہی ذوالفقار چیمہ صاحب جیسے معجزے برپا کرنے والے پولیس افسران نے ان کو اس مقام تک پہنچایا۔ پاکستان کے تیسری مرتبہ نواز شریف وزیراعظم اس لیے بنے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کو اس ملک میں ایک انتخاب ہوا۔ ان کی پاکستان مسلم لیگ کو ان انتخابات میں قومی اسمبلی میں اکثریت ملی جس کے طفیل وہ ہمارے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔
11 مئی 2013ء کے ہی دن سندھ جو پاکستان کا ایک صوبہ ہے وہاں کے لوگوں نے اپنی صوبائی اسمبلی کے لیے اکثریتی ووٹ پیپلز پارٹی نامی ایک جماعت کو دئیے۔ اس جماعت نے قائم علی شاہ کو دوبارہ وزارتِ اعلیٰ کی مسند پر بٹھا دیا۔ قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کی اکثریت کی بناء پر اس ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے والے نواز شریف کس بنیاد پر سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھانے والے قائم علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینا تو دور کی بات ہے اس پر غور کرنے کو بھی کراچی کراچی کا سیاپا کرنے والے تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر ہم جمہوریت پر واقعی ایمان رکھتے ہیں تو ووٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو حاصل طاقت اور قوت کا جو احترام ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے وہی احترام قائم علی شاہ کا حق بھی ہے۔ ووٹ کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی طاقت و قوت صرف نواز شریف کے لیے مختص نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ دوسری صورت میں درحقیقت آپ ان لوگوں کی تضحیک کر رہے ہیں جنھوں نے 11 مئی 2013ء کو سندھ میں قائم علی شاہ اور ان کی جماعت کو ووٹ دئیے۔ میری التجا ہے تو بس اتنی کہ اپنے اس رویے پر نظرثانی فرما لیجیے۔ ویسے مناسب تو اس پر ندامت محسوس کرنا ہو گا۔