پولیس اور پولیسنگ حصہ اول
ہماری پولیس دنیا کی دس بدترین اور کرپٹ ترین پولیس میں سے ایک ہے۔ ہمارے ہاں پولیس، تھانہ اور کچہری ایک خوف کا نام ہے
سب سے پہلے ہم اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں۔ ہماری پولیس دنیا کی دس بدترین اور کرپٹ ترین پولیس میں سے ایک ہے۔ ہمارے ہاں پولیس، تھانہ اور کچہری ایک خوف اور ڈر کا نام ہے۔ عام شریف آدمی نام سن کر ہی کانو ں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کےلیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد ایک کاروباری کمپنی نے برصغیر پر گورے کے راج کا بول بالا کردیا۔ یہ بہت بڑی سلطنت تھی۔ آبادی بھی بہت زیادہ تھی، نیز آبادی میں بہت زیادہ تنوع تھا، جس میں مختلف مذہب، رنگ، نسل اور زبان کے لوگ بستے تھے۔ انگریز اس علاقے کو کیسے کنٹرول کرتا؟ اس کےلیے اس نے ایک ایکٹ، انڈیا ایکٹ نمبر ۵ پاس کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے پولیس بنائی گئی، جسے امپیریل پولیس کہا گیا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس پولیس کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں تھا بلکہ گورا سرکار کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی۔
اس سامراجی پولیس کی ہیرارکی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ آفیسرز پر مشتمل تھا۔ اس میں ڈی ایس پیز، سپرینٹنڈنٹ پولیس اور ڈی آئی جیز شامل تھے۔ صوبے کا انچارج آئی جی ہوتا تھا۔ یہ آفیسرز ایک طرح کا مقابلے کا امتحان پاس کرتے، جو برطانیہ میں منعقد ہوتا تھا۔ اس کے بعد ان کی مخصوص ٹریننگ ہوتی تھی۔ تب جاکر ان کو برصغیر بھیج دیا جاتا، تاکہ وہاں وہ گورے کی حکومت چلاسکیں۔
پہلے پہل آفیسرز صرف گورے تھے، لیکن بعد میں بھورے آفیسرز بھی تعینات ہونے شروع ہوگئے، جو دیکھنے میں بھورے تھے لیکن اندر سے گورے ہی ہوتے تھے۔ ان آفیسرز کو کئی ایکڑوں پر مشتمل بڑے بڑے محل نما دفاتر دیئے گئے۔ جہاں پر ان کی رہائش بھی ہوتی تھی، تاکہ عوام دفتر آکر اپنی شکایت بھول کر ان کے رعب میں دب جائے، اسے اپنے مسئلے کا ہوش بھی نہ رہے۔ نوکروں کی فوج ظفر موج ایک اشارے کی منتظر اور پروٹوکول ایسا کہ آسمان کو نیچا دکھائے۔ اختیارات بے پناہ۔ چاہے تو پشت پر ڈنڈے مارے یا منہ پر گولیاں۔ کوئی شکایت ہوگی نہ مقدمہ۔ کیونکہ اس پولیس کا مقصد شہریوں کے مسائل کا ادراک یا حل نہیں تھا، بلکہ شہریوں کو دبا کر ان پر حکومت کرنا تھا۔
اس کا دوسرا حصہ ایس ایچ او، کانسٹیبل اور سپاہی پر مشتمل تھا، جو زیادہ تر فیلڈ کے لوگ تھے۔ ایس ایچ او یا تھانے دار کو علاقے کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ کسی کو دبانا ہوتا، کسی سے کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ لینا ہوتا یا کسی کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرنا ہوتا، گورا سرکار اسی ایس ایچ او کی ہی خدمات لیتی تھی۔ پولیس کیا تھی، بس ایک سامراجی ملیشیا تھی۔
اس مختصرتجزیے کے بعد ہم واپس آتے ہیں۔ گورا چلا گیا، لیکن اپنے پیچھے پولیس چھوڑ گیا۔ کیا ہماری پولیس کے اندر وردی کے علاوہ کوئی تبدیلی آئی؟ کسی سے بھی پوچھ لیں، جواب نفی میں ہوگا۔ ہماری پولیس آج بھی سیاسی ایلیٹ اور سیاسی شخصیات کی ذاتی ملیشیا کا کردار ادا کررہی ہے۔ گائوں میں سیاسی مداخلت کے بغیر ایف آئی آر درج کروانا ناممکن ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے ایک پارٹی سے وعدہ کرکے دوسری پارٹی پر پرچہ کروا دیتا ہے، حالانکہ دونوں پارٹیاں اس کی ووٹرز ہوتی ہیں۔
شہروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ راقم الحروف کے ساتھ 2012 میں وحدت روڈ، لاہور پر ہونے والی ڈکیتی کو ماڈل ٹاؤن تھانہ اور اقبال ٹاؤن تھانے نے ایک کنفیوژن بنادیا تھا۔ نتیجتاً راقم کو اپنے لیپ ٹاپ اور نقدی کے چھن جانے پر ایف آئی آر کے بغیر ہی کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
محل نما دفاتر اور رہائشیں ابھی بھی قائم و دائم ہیں۔ ڈی آئی جی ہاؤس سرگودھا، ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے بھی بڑا ہے اور بیسویں صدی تک برطانیہ کا وزیراعظم خود اپنی رہائش اور دفتر کو ڈیکوریٹ کرتا تھا اور باقاعدہ اس مقصد کےلیے حکومتی خزانہ میں پیسے جمع کرواتا تھا۔ اب بھی دیواروں کو ڈیکوریٹ کرنے کےلیے اسے گورنمنٹ کے آرٹ نمونوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک کے سیاسی نظام نے سارے سسٹم کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، جس میں ہماری پولیس داہنے ہاتھ کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری معزز عدالتیں بھی اب تو اسے مانتی ہیں۔ سیاسی اشرافیہ پولیس کو اپنے پروٹوکول، سیکیورٹی، سیلیوٹ مروانے، سیاسی مخالفین پر پرچے کروانے، بلیک میل کرنے، حتیٰ کہ مروانے کےلیے بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ کام دنیا کئی سو سال پہلے چھوڑ چکی ہے، جبکہ ہمارے ہاں 1841 کا ایکٹ کاغذات میں تو ختم ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر ابھی تک جاری ہے۔
جہاں تک جرائم اور مجرم کا تعلق ہے تو یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہماری پولیس ابھی تک وہ طریقے استعمال کرتی ہے جو شائد آج سے دو ہزار سال پہلے رومن امپائر میں استعمال ہوتے تھے۔ میں اس سے بھی پہلے کی مثال دیتا لیکن اس سے پہلے شائد پولیس کا کسی بھی صورت میں وجود نہیں تھا۔ ابھی بھی ہماری پولیس مجرم کو پکڑنے کےلیے انعام رکھ دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس مخصوص علاقے میں جہاں جرم ہوا ہے، پولیس کے پاس نہ تو کوئی ڈیٹا ہے اور نہ ہی موجود ثبوتوں کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی اہلیت۔ سیاسی یا غیر سیاسی بنیادوں پر اِن کاؤنٹر کرنا، عام شہریوں کو ہراساں کرنا، بلیک میل کرنا، جرم ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی بن جانا۔ یہ چند ایک مائل اسٹون ہیں جن کے بارے میں ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے، یا کبھی نہ کبھی ایسی کیفیت سے گزرا ہوگا۔
رشوت ستانی کی یہ حالت ہے کہ ہر شہر میں نو گو ایریاز ہیں، جہاں سے باقاعدہ منتھلی جاتی ہے۔ اخلاق اتنا خراب کہ عام آدمی کو بات کرنے سے خوف آئے۔ کسی اغوا شدہ بچی کی لاش ڈھونڈ کر پولیس والے انعام بھی مانگ لیتے ہیں، کیونکہ یہ رشوت نہیں ان کا حق ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کا یہ حال کہ ایک اکیلا نفسیاتی مریض اپنی بیوی کو لے کر ملک کے دارالحکومت کو اسلحے کے زور پر جام کردے تو پورے ڈپارٹمنٹ میں ایک قابل شوٹر بھی موجود نہیں جو اس کے ہاتھ کا نشانہ لے سکے اور جب افسرصاحب آئیں تو اپنی کٹ میں ہی آجائیں۔
اس صورتحال میں ملک میں قانون کا عملدرآمد ختم ہوجاتا ہے اور اس نااہلی کا سارا بوجھ ہمارے دوسرے اداروں پر آجاتا ہے۔ جن میں ہماری انتہائی قابل افواج بھی شامل ہیں، جو پہلے ہی سرحدی علاقوں اور ففتھ جنریشن وار میں برسرپیکار ہیں۔ پولیس کو اس انداز سے ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک کے سول جسٹس سسٹم کو پوری طرح سنبھالے اور سسٹم کا حصہ بنے، نہ کہ سیاسی ایلیٹ کو سیلیوٹ مارتی پھرے اور ان کو پنکھے جھلتی رہے۔
اصل میں کسی بھی مہذب ملک میں طاقت کا استعمال آخری حد ہوتا ہے۔ جب کسی بھی طرح معاملہ طے نہ ہو اور عمل ناگزیر ہوجائے۔ اورملک کے اندر طاقت کا استعمال بھی ہمیشہ پولیس یا پولیس کے ذیلی ادارے ہی کرتے ہیں، سوائے اس کے کہ بہت زیادہ ہنگامی صورتحال پیدا ہوجائے فو ج طلب نہیں کی جاتی۔
حیرانگی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب پولیس کے اندر کوئی نیا ادارہ بنایا جاتا ہے تو وہ بھی اتنا ہی نااہل ہوتا ہے جتنا کہ پولیس خود۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب پولیس کی ڈولفن فورس ہے۔ جو نام کی تو ڈولفن ہے لیکن کام سارے شارک والے کرتی پھررہی ہے۔ جو کسی بھی وقت، کسی پر بھی لاتوں، گھونسوں کی برسات کردے یا پھر فائر ہی کھول دے، کچھ پتا نہیں۔ ان کی نظر میں ایک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ انھیں کون سمجھائے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کے اس سارے سسٹم کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ علم کے حصول سے اور جہالت ختم کرکے۔ وہ علم کیسے اور کیونکر حاصل کیا جائے؟ یہ بحث ہم اگلی نشست میں کریں گے۔
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد ایک کاروباری کمپنی نے برصغیر پر گورے کے راج کا بول بالا کردیا۔ یہ بہت بڑی سلطنت تھی۔ آبادی بھی بہت زیادہ تھی، نیز آبادی میں بہت زیادہ تنوع تھا، جس میں مختلف مذہب، رنگ، نسل اور زبان کے لوگ بستے تھے۔ انگریز اس علاقے کو کیسے کنٹرول کرتا؟ اس کےلیے اس نے ایک ایکٹ، انڈیا ایکٹ نمبر ۵ پاس کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے پولیس بنائی گئی، جسے امپیریل پولیس کہا گیا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس پولیس کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں تھا بلکہ گورا سرکار کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی۔
اس سامراجی پولیس کی ہیرارکی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ آفیسرز پر مشتمل تھا۔ اس میں ڈی ایس پیز، سپرینٹنڈنٹ پولیس اور ڈی آئی جیز شامل تھے۔ صوبے کا انچارج آئی جی ہوتا تھا۔ یہ آفیسرز ایک طرح کا مقابلے کا امتحان پاس کرتے، جو برطانیہ میں منعقد ہوتا تھا۔ اس کے بعد ان کی مخصوص ٹریننگ ہوتی تھی۔ تب جاکر ان کو برصغیر بھیج دیا جاتا، تاکہ وہاں وہ گورے کی حکومت چلاسکیں۔
پہلے پہل آفیسرز صرف گورے تھے، لیکن بعد میں بھورے آفیسرز بھی تعینات ہونے شروع ہوگئے، جو دیکھنے میں بھورے تھے لیکن اندر سے گورے ہی ہوتے تھے۔ ان آفیسرز کو کئی ایکڑوں پر مشتمل بڑے بڑے محل نما دفاتر دیئے گئے۔ جہاں پر ان کی رہائش بھی ہوتی تھی، تاکہ عوام دفتر آکر اپنی شکایت بھول کر ان کے رعب میں دب جائے، اسے اپنے مسئلے کا ہوش بھی نہ رہے۔ نوکروں کی فوج ظفر موج ایک اشارے کی منتظر اور پروٹوکول ایسا کہ آسمان کو نیچا دکھائے۔ اختیارات بے پناہ۔ چاہے تو پشت پر ڈنڈے مارے یا منہ پر گولیاں۔ کوئی شکایت ہوگی نہ مقدمہ۔ کیونکہ اس پولیس کا مقصد شہریوں کے مسائل کا ادراک یا حل نہیں تھا، بلکہ شہریوں کو دبا کر ان پر حکومت کرنا تھا۔
اس کا دوسرا حصہ ایس ایچ او، کانسٹیبل اور سپاہی پر مشتمل تھا، جو زیادہ تر فیلڈ کے لوگ تھے۔ ایس ایچ او یا تھانے دار کو علاقے کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ کسی کو دبانا ہوتا، کسی سے کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ لینا ہوتا یا کسی کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرنا ہوتا، گورا سرکار اسی ایس ایچ او کی ہی خدمات لیتی تھی۔ پولیس کیا تھی، بس ایک سامراجی ملیشیا تھی۔
اس مختصرتجزیے کے بعد ہم واپس آتے ہیں۔ گورا چلا گیا، لیکن اپنے پیچھے پولیس چھوڑ گیا۔ کیا ہماری پولیس کے اندر وردی کے علاوہ کوئی تبدیلی آئی؟ کسی سے بھی پوچھ لیں، جواب نفی میں ہوگا۔ ہماری پولیس آج بھی سیاسی ایلیٹ اور سیاسی شخصیات کی ذاتی ملیشیا کا کردار ادا کررہی ہے۔ گائوں میں سیاسی مداخلت کے بغیر ایف آئی آر درج کروانا ناممکن ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے ایک پارٹی سے وعدہ کرکے دوسری پارٹی پر پرچہ کروا دیتا ہے، حالانکہ دونوں پارٹیاں اس کی ووٹرز ہوتی ہیں۔
شہروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ راقم الحروف کے ساتھ 2012 میں وحدت روڈ، لاہور پر ہونے والی ڈکیتی کو ماڈل ٹاؤن تھانہ اور اقبال ٹاؤن تھانے نے ایک کنفیوژن بنادیا تھا۔ نتیجتاً راقم کو اپنے لیپ ٹاپ اور نقدی کے چھن جانے پر ایف آئی آر کے بغیر ہی کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
محل نما دفاتر اور رہائشیں ابھی بھی قائم و دائم ہیں۔ ڈی آئی جی ہاؤس سرگودھا، ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے بھی بڑا ہے اور بیسویں صدی تک برطانیہ کا وزیراعظم خود اپنی رہائش اور دفتر کو ڈیکوریٹ کرتا تھا اور باقاعدہ اس مقصد کےلیے حکومتی خزانہ میں پیسے جمع کرواتا تھا۔ اب بھی دیواروں کو ڈیکوریٹ کرنے کےلیے اسے گورنمنٹ کے آرٹ نمونوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک کے سیاسی نظام نے سارے سسٹم کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، جس میں ہماری پولیس داہنے ہاتھ کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری معزز عدالتیں بھی اب تو اسے مانتی ہیں۔ سیاسی اشرافیہ پولیس کو اپنے پروٹوکول، سیکیورٹی، سیلیوٹ مروانے، سیاسی مخالفین پر پرچے کروانے، بلیک میل کرنے، حتیٰ کہ مروانے کےلیے بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ کام دنیا کئی سو سال پہلے چھوڑ چکی ہے، جبکہ ہمارے ہاں 1841 کا ایکٹ کاغذات میں تو ختم ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر ابھی تک جاری ہے۔
جہاں تک جرائم اور مجرم کا تعلق ہے تو یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہماری پولیس ابھی تک وہ طریقے استعمال کرتی ہے جو شائد آج سے دو ہزار سال پہلے رومن امپائر میں استعمال ہوتے تھے۔ میں اس سے بھی پہلے کی مثال دیتا لیکن اس سے پہلے شائد پولیس کا کسی بھی صورت میں وجود نہیں تھا۔ ابھی بھی ہماری پولیس مجرم کو پکڑنے کےلیے انعام رکھ دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس مخصوص علاقے میں جہاں جرم ہوا ہے، پولیس کے پاس نہ تو کوئی ڈیٹا ہے اور نہ ہی موجود ثبوتوں کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی اہلیت۔ سیاسی یا غیر سیاسی بنیادوں پر اِن کاؤنٹر کرنا، عام شہریوں کو ہراساں کرنا، بلیک میل کرنا، جرم ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی بن جانا۔ یہ چند ایک مائل اسٹون ہیں جن کے بارے میں ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے، یا کبھی نہ کبھی ایسی کیفیت سے گزرا ہوگا۔
رشوت ستانی کی یہ حالت ہے کہ ہر شہر میں نو گو ایریاز ہیں، جہاں سے باقاعدہ منتھلی جاتی ہے۔ اخلاق اتنا خراب کہ عام آدمی کو بات کرنے سے خوف آئے۔ کسی اغوا شدہ بچی کی لاش ڈھونڈ کر پولیس والے انعام بھی مانگ لیتے ہیں، کیونکہ یہ رشوت نہیں ان کا حق ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کا یہ حال کہ ایک اکیلا نفسیاتی مریض اپنی بیوی کو لے کر ملک کے دارالحکومت کو اسلحے کے زور پر جام کردے تو پورے ڈپارٹمنٹ میں ایک قابل شوٹر بھی موجود نہیں جو اس کے ہاتھ کا نشانہ لے سکے اور جب افسرصاحب آئیں تو اپنی کٹ میں ہی آجائیں۔
اس صورتحال میں ملک میں قانون کا عملدرآمد ختم ہوجاتا ہے اور اس نااہلی کا سارا بوجھ ہمارے دوسرے اداروں پر آجاتا ہے۔ جن میں ہماری انتہائی قابل افواج بھی شامل ہیں، جو پہلے ہی سرحدی علاقوں اور ففتھ جنریشن وار میں برسرپیکار ہیں۔ پولیس کو اس انداز سے ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک کے سول جسٹس سسٹم کو پوری طرح سنبھالے اور سسٹم کا حصہ بنے، نہ کہ سیاسی ایلیٹ کو سیلیوٹ مارتی پھرے اور ان کو پنکھے جھلتی رہے۔
اصل میں کسی بھی مہذب ملک میں طاقت کا استعمال آخری حد ہوتا ہے۔ جب کسی بھی طرح معاملہ طے نہ ہو اور عمل ناگزیر ہوجائے۔ اورملک کے اندر طاقت کا استعمال بھی ہمیشہ پولیس یا پولیس کے ذیلی ادارے ہی کرتے ہیں، سوائے اس کے کہ بہت زیادہ ہنگامی صورتحال پیدا ہوجائے فو ج طلب نہیں کی جاتی۔
حیرانگی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب پولیس کے اندر کوئی نیا ادارہ بنایا جاتا ہے تو وہ بھی اتنا ہی نااہل ہوتا ہے جتنا کہ پولیس خود۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب پولیس کی ڈولفن فورس ہے۔ جو نام کی تو ڈولفن ہے لیکن کام سارے شارک والے کرتی پھررہی ہے۔ جو کسی بھی وقت، کسی پر بھی لاتوں، گھونسوں کی برسات کردے یا پھر فائر ہی کھول دے، کچھ پتا نہیں۔ ان کی نظر میں ایک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ انھیں کون سمجھائے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کے اس سارے سسٹم کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ علم کے حصول سے اور جہالت ختم کرکے۔ وہ علم کیسے اور کیونکر حاصل کیا جائے؟ یہ بحث ہم اگلی نشست میں کریں گے۔
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔