یونٹی آف کمانڈ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کوسکیورٹی کے تمام اداروں کی صلاحیتوں کو یکجا کرکے استعمال کرنا ضروری ہے۔
سکیورٹی فورسز کسی بھی ملک کے دفاع اور قوانین کے نفاذ کے لئے ایسی ہی اہمیت رکھتی ہیں جیسے ہمارے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ۔
اگر جسم میں ریڑھ کی ہڈی نہ ہوتو وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا ، البتہ یہ ضرور کہا جائے گا کہ جسم میں ابھی جان ہے مگر ایسی زندگی بڑی ترحم آمیز ہو گی۔ اگر کسی ملک میں سکیورٹی فورسز موجود نہیں ہوں گی تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ہو گی اور ہر طرف انارکی پھیلی ہو گی، ایسی صورت میں دشمن ملک اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا ، گویا سکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی میں ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا، اس لئے ملک وقوم کی حفاظت اور نظم و نسق کو چلانے کے لئے سکیورٹی فورسز کی موجودگی بہت ضروری ہے۔
اور جن دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے معاشی خوشحالی ہی کافی ہے تو شائد ان کا یہ موقف اس وجہ سے ہے کہ سکیورٹی فورسز پر خزانے کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کر دیا جاتا ہے جو دیگر شعبوں جیسے تعلیم و صحت اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے، ان کا یہ موقف اس صورت میں درست ثابت ہو سکتا ہے جب ملک و قوم کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہ ہوں، البتہ سکیورٹی فورسز پر اندھا دھند اور بے جا خرچ کرنا اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ جنگی جنون کے مصداق ہے اور جنون کے نتائج ہمیشہ خوفناک ہی نکلتے ہیں۔
اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے، نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ایسا ہونا چاہئے کہ خزانے کا زیادہ حصہ سکیورٹی فورسز پر خرچ کر دیا جائے اور عوام مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔
پاکستان کو ہمیشہ سے ہی بھارتی جنگی جنون کا سامنا رہا ہے اور اس کے جنگی جنون کی وجہ سے پاکستان کو اپنے دفاع کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے ، اس لئے بہت سے دانشور یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا بھارت کی وجہ سے ہے۔، نہ بھارت اپنے جنگی جنون کے زیر ا ثر ایٹمی ری ایکٹر لگاتا اور نہ پاکستان کو اس راستے پر چلنا پڑتا۔ پاکستان کی اس مجبوری کے باوجود یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان بھی جنگی جنون میں مبتلا ہے ، ا ن کی اس بات کو درست بھی مانا جا سکتا ہے، مگر پاکستان کا یہ جنگی رویہ بھارت کی فوجی تیاریوں سے مشروط ہے، حالانکہ دونوں ملکوں کا یہی جنون معاشی بہتری کے لئے ہوتا تو اس سے دونوں ملک معاشی ترقی کا کوئی نہ کوئی سنگ میل ضرور طے کر چکے ہوتے۔
گزشتہ 66سال سے موجود اس تناؤ کی وجہ سے پاکستان میں دفاعی نکتہ نظر سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے چاہے وہ سرحدوں کا معاملہ ہو یا اندرون خانہ سکیورٹی کا مسئلہ ہو۔ پاکستان میں صورتحال اس وقت مزید تناؤ کا شکار ہوگئی جب 2001ء میں امریکا میںورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد خطے کے حالات میں اچانک ڈرامائی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور پاکستان امریکا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو گیا۔
کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف شروع کی جانے والی اس جنگ کے لئے اتحادی افواج کا جو نیٹ ورک بنایا گیا تھا اس کا حصہ نہ بننے پر عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل کا خطرہ تھا، بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی گاؤں کا چوہدری اپنے احکامات نہ ماننے پر کسی خاندان کا بائیکاٹ کر دیتا ہے اور گاؤں کے کسی بھی فرد کو اس خاندان سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہوتی، یوں وہ خاندان گاؤں والوں سے کٹ کر کسمپرسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں پاکستان عالمی برادری کے ردعمل سے بچنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس امریکی جنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہو گیا۔
اس وقت حکمرانوں کو شائد اندازہ نہیں تھا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی یہ جنگ بالآخر ان کے اپنے گلے پڑنے والی ہے۔ افغانستان میں متحرک مختلف مسلح تنظیموں نے جب پاکستان کو نیٹو فورسز کے لئے استعمال ہوتے دیکھا تو بہت سے مسلح گروہوں نے پاکستان کا رخ کر لیا اور یہاں پہلے سے موجود ان کے حامی گروہ بھی ان کا حصہ بن گئے، یوں افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سرحدیں پار کر کے پاکستان میں داخل ہو گئی۔ اس طرح پاکستان گزشتہ 13سالوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے منفی ردعمل کا شکار ہے اور ملک کا کوئی بھی حصہ ان دہشت گرد گروہوں کی دست برد سے بچا ہوا نہیں۔
دہشت گردی کے واقعات میں 2001ء سے لے کر اب تک 50ہزار سے زائد افراد جان بحق ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کا پہلا فیز یعنی 2001ء سے 2008ء تک آٹھ سالوں میں 24ہزارافراد جاں بحق ہوئے جن میں سے 15681 سکیورٹی اہلکار اور 5128عام شہری تھے جبکہ اگلے پانچ سالوں میں 25ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح 2013ء کے آٹھ مہینوں میں اب تک دہشت گردی کی 254کاروائیاں ہو چکی ہیں۔
جن میں 2608افراد جاں بحق ہوئے جن میں 1092عام شہری، 297سکیورٹی اہلکار اور 1291دہشت گرد شامل ہیں، ان حملوں میں 2484افراد زخمی بھی ہوئے۔ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2013ء میں جاں بحق ہونے کی شرح گزشتہ سالوں سے کہیں زیادہ ہے، یعنی مسلح گروہوں کا نیٹ ورک مزید وسیع اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ہمت یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کر دیا اور اپنے 248ساتھیوں کو جیل سے نکال کر لے گئے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی تین بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں دہشت گردی ، لوڈشیڈنگ اور معیشت کی بحالی شامل ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے تو کوششیں شروع کرد یں مگر مسلح گروہوں سے مذاکرات کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکی تا کہ دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی قابل عمل حل نکالا جا سکے۔
دوسری طرف ملک میں موجود سکیورٹی فورسز قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے اپنے طور پر بھرپور کوشش میں مصروف رہیںمگر ان سب کی کوئی مربوط نیٹ ورکنگ نہیں تھی، گویا ایک ہی جسم کے بہت سے ہاتھ الگ الگ کام کرنے میں مصروف تھے یوں کوئی بھی کام مکمل طور پر انجام نہیں پاتا تھا اور کوئی نہ کوئی کمزوری یا خامی رہ جاتی تھی جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے تھے اور پورے ملک میں جہاں چاہتے تھے کاروائی کر گزرتے تھے۔
پاکستان جیسے امن پسند ملک میں جاری اس گوریلا جنگ نے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری سکیورٹی فورسز کو اپنے ہی ملک کے افراد کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ یوں دونوں طرف ہونے والا نقصان پاکستان کا ہی ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والے گروہ ایک نظرئیے کے تحت یہ سب کر رہے ہیں اور وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور جب ایسی کاروائیاں کسی نظرئیے کے تحت ہوں تو پھر ایسے گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں حتیٰ کہ غیر ملکی ایجنسیوں سے امداد لینا بھی غلط نہیں سمجھتے، بلکہ صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ یوں پاکستانی سکیورٹی فورسزکو بہت سے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت جتنے بھی مسلح گروہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ ان سب کا آپس میں رابطہ ہے گویا انھوں نے ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے جس کے تحت انھوں نے پورے ملک میں اپنے پنجے جمائے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے اس مضبوط نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ایک متحدہ کمانڈ(unity of command)کے تحت کام کریں یعنی ان سب کی تار ایک ہی جگہ سے ہلائی جائے جس سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے اورتوڑنے میں آسانی رہے گی۔
دوسرے ملکوں کی مثال لی جائے تو امریکا اور برطانیہ میں مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لئے یونٹی آف کمانڈ کے تحت نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ امریکا میں آرمڈ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیاں سی آئی اے، ڈی آئی اے اور ایف آئی اے کا م کر رہی ہیں ، یہ تینوں ایجنسیاں خفیہ رہتے ہوئے اپنا کام کرتی ہیں، سی آئی اے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات کی خفیہ نگرانی کی پابند ہے جبکہ ڈی آئی اے کاکام فوج کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنا ہے اور دونوں ایجنسیاں ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرتی ہیں ،
تاہم ان سب سے بڑھ کر نیشنل سکیورٹی ایجنسی ہے جس کا کام ڈیفنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیٹلائٹ سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ این ایس اے 1952ء میں قائم کی گئی اور اس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک دنیا بھر میں قائم ہے ، گو سی آئی اے اپنے طور پر بھی معلومات حاصل کرتی ہے مگر این ایس اے کے ذریعے انٹیلی جنس شیئرنگ کا کام تیزی سے ہوتا ہے اور اہداف کو جلد اور آسانی سے حاصل کر لیا جاتا ہے، ایبٹ آباد میں تمام تر آپریشن آرمڈ فورسز کی سپیشل برانچ نے کیا مگر اس کو تمام تر لاجسٹک سپورٹ این ایس اے کی حاصل تھی جو کافی عرصے سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنے میں مصروف تھی کی ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن ہی موجود ہے ،
این ایس اے کی مدد سے دیگر خفیہ ایجنسیاں 40سے 60فیصد تک اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں کہ کمپاؤنڈ میں موجود شخص اسامہ ہی ہے ، یوں اس آپریشن کو مربوط کرنے میں این ایس اے نے اہم کردار ادا کیا گویا این ایس اے ایسا ادارہ ہے جو سیٹلائٹ نیٹ ورک اور دیگر ذرائع سے آرمڈ فورسز اور دیگر خفیہ اداروں کو ایک ہی لڑی میں پروتا ہے اور ان کی الگ الگ حیثیت بھی برقرار رہتی ہے۔ برطانیہ میں بھی آرمڈ فورسز کی مدد کے لئے ایم 6،ایم 5، انٹرپول اور ایف آئی اے جیسے ادارے کام کر رہے ہیں ان سب کو باہم ملانے اور مدد کے لئے بھی این ایس اے ہی مدد کرتی ہے حالانکہ وہ ایک امریکی ادارہ ہے مگر فائیو آئی کے نام سے کئے گئے معاہدے کے تحت این ایس اے پانچ ملکوں امریکا ،برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاکو انٹیلیجنس معلومات فراہم کرتا ہے، گویا برطانیہ کے سکیورٹی اداروں کو باہم مربوط کرنے میں بھی این ایس اے کا کردار ہے۔
پاکستان جس طرح سے گزشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے اس میں پاکستان کی آرمد فورسز ، خفیہ ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مربوط کرنے کی شدید ضرورت ہے گو تمام ادارے بوقت ضرورت آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں مگر ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب دو ادارے ایک ہی معاملے میںکام کرتے ہوئے ٹکرا جائیں۔ اب وزارت داخلہ میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نئی قومی سکیورٹی پالیسی بنائی جا رہی ہے جس کے تحت اسلام آباد میں انٹیلی جنس سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا،
جس میں ایم آئی، آئی ایس آئی ، آئی بی سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں کے افسران شامل ہوں گے یوں تمام اداروں میں ہم آہنگی ہو گی، اسی طرح کاؤنٹر ٹیررازم فورس بنائی جائے گی جس میں زیادہ تر ریٹائرٖڈ فوجی شامل ہوں گے انھیں جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا بلکہ ہیلی کاپٹر بھی مہیا کئے جائیں گے۔ اسی طرح رینجرز اور پولیس کو بھی یکجا کیا جائے گا، یوں تمام اداروں میں ایک یونٹی آف کمانڈ قائم کی جائے گی اور مسح گروہوں سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مربوط نیٹ ورک کی شدید ضرورت تھی ، حکومت کو اس بات کا خیال دیر سے آیا ، چلیں شکر ہے آیا تو سہی ،کہتے ہیں دیر آید درست آید ،حکومت کے اس اقدام پر بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔
اگر جسم میں ریڑھ کی ہڈی نہ ہوتو وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا ، البتہ یہ ضرور کہا جائے گا کہ جسم میں ابھی جان ہے مگر ایسی زندگی بڑی ترحم آمیز ہو گی۔ اگر کسی ملک میں سکیورٹی فورسز موجود نہیں ہوں گی تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ہو گی اور ہر طرف انارکی پھیلی ہو گی، ایسی صورت میں دشمن ملک اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا ، گویا سکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی میں ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا، اس لئے ملک وقوم کی حفاظت اور نظم و نسق کو چلانے کے لئے سکیورٹی فورسز کی موجودگی بہت ضروری ہے۔
اور جن دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے معاشی خوشحالی ہی کافی ہے تو شائد ان کا یہ موقف اس وجہ سے ہے کہ سکیورٹی فورسز پر خزانے کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کر دیا جاتا ہے جو دیگر شعبوں جیسے تعلیم و صحت اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے، ان کا یہ موقف اس صورت میں درست ثابت ہو سکتا ہے جب ملک و قوم کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہ ہوں، البتہ سکیورٹی فورسز پر اندھا دھند اور بے جا خرچ کرنا اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ جنگی جنون کے مصداق ہے اور جنون کے نتائج ہمیشہ خوفناک ہی نکلتے ہیں۔
اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے، نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ایسا ہونا چاہئے کہ خزانے کا زیادہ حصہ سکیورٹی فورسز پر خرچ کر دیا جائے اور عوام مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔
پاکستان کو ہمیشہ سے ہی بھارتی جنگی جنون کا سامنا رہا ہے اور اس کے جنگی جنون کی وجہ سے پاکستان کو اپنے دفاع کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے ، اس لئے بہت سے دانشور یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا بھارت کی وجہ سے ہے۔، نہ بھارت اپنے جنگی جنون کے زیر ا ثر ایٹمی ری ایکٹر لگاتا اور نہ پاکستان کو اس راستے پر چلنا پڑتا۔ پاکستان کی اس مجبوری کے باوجود یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان بھی جنگی جنون میں مبتلا ہے ، ا ن کی اس بات کو درست بھی مانا جا سکتا ہے، مگر پاکستان کا یہ جنگی رویہ بھارت کی فوجی تیاریوں سے مشروط ہے، حالانکہ دونوں ملکوں کا یہی جنون معاشی بہتری کے لئے ہوتا تو اس سے دونوں ملک معاشی ترقی کا کوئی نہ کوئی سنگ میل ضرور طے کر چکے ہوتے۔
گزشتہ 66سال سے موجود اس تناؤ کی وجہ سے پاکستان میں دفاعی نکتہ نظر سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے چاہے وہ سرحدوں کا معاملہ ہو یا اندرون خانہ سکیورٹی کا مسئلہ ہو۔ پاکستان میں صورتحال اس وقت مزید تناؤ کا شکار ہوگئی جب 2001ء میں امریکا میںورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد خطے کے حالات میں اچانک ڈرامائی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور پاکستان امریکا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو گیا۔
کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف شروع کی جانے والی اس جنگ کے لئے اتحادی افواج کا جو نیٹ ورک بنایا گیا تھا اس کا حصہ نہ بننے پر عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل کا خطرہ تھا، بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی گاؤں کا چوہدری اپنے احکامات نہ ماننے پر کسی خاندان کا بائیکاٹ کر دیتا ہے اور گاؤں کے کسی بھی فرد کو اس خاندان سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہوتی، یوں وہ خاندان گاؤں والوں سے کٹ کر کسمپرسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں پاکستان عالمی برادری کے ردعمل سے بچنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس امریکی جنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہو گیا۔
اس وقت حکمرانوں کو شائد اندازہ نہیں تھا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی یہ جنگ بالآخر ان کے اپنے گلے پڑنے والی ہے۔ افغانستان میں متحرک مختلف مسلح تنظیموں نے جب پاکستان کو نیٹو فورسز کے لئے استعمال ہوتے دیکھا تو بہت سے مسلح گروہوں نے پاکستان کا رخ کر لیا اور یہاں پہلے سے موجود ان کے حامی گروہ بھی ان کا حصہ بن گئے، یوں افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سرحدیں پار کر کے پاکستان میں داخل ہو گئی۔ اس طرح پاکستان گزشتہ 13سالوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے منفی ردعمل کا شکار ہے اور ملک کا کوئی بھی حصہ ان دہشت گرد گروہوں کی دست برد سے بچا ہوا نہیں۔
دہشت گردی کے واقعات میں 2001ء سے لے کر اب تک 50ہزار سے زائد افراد جان بحق ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کا پہلا فیز یعنی 2001ء سے 2008ء تک آٹھ سالوں میں 24ہزارافراد جاں بحق ہوئے جن میں سے 15681 سکیورٹی اہلکار اور 5128عام شہری تھے جبکہ اگلے پانچ سالوں میں 25ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح 2013ء کے آٹھ مہینوں میں اب تک دہشت گردی کی 254کاروائیاں ہو چکی ہیں۔
جن میں 2608افراد جاں بحق ہوئے جن میں 1092عام شہری، 297سکیورٹی اہلکار اور 1291دہشت گرد شامل ہیں، ان حملوں میں 2484افراد زخمی بھی ہوئے۔ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2013ء میں جاں بحق ہونے کی شرح گزشتہ سالوں سے کہیں زیادہ ہے، یعنی مسلح گروہوں کا نیٹ ورک مزید وسیع اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ہمت یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کر دیا اور اپنے 248ساتھیوں کو جیل سے نکال کر لے گئے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی تین بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں دہشت گردی ، لوڈشیڈنگ اور معیشت کی بحالی شامل ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے تو کوششیں شروع کرد یں مگر مسلح گروہوں سے مذاکرات کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکی تا کہ دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی قابل عمل حل نکالا جا سکے۔
دوسری طرف ملک میں موجود سکیورٹی فورسز قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے اپنے طور پر بھرپور کوشش میں مصروف رہیںمگر ان سب کی کوئی مربوط نیٹ ورکنگ نہیں تھی، گویا ایک ہی جسم کے بہت سے ہاتھ الگ الگ کام کرنے میں مصروف تھے یوں کوئی بھی کام مکمل طور پر انجام نہیں پاتا تھا اور کوئی نہ کوئی کمزوری یا خامی رہ جاتی تھی جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے تھے اور پورے ملک میں جہاں چاہتے تھے کاروائی کر گزرتے تھے۔
پاکستان جیسے امن پسند ملک میں جاری اس گوریلا جنگ نے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری سکیورٹی فورسز کو اپنے ہی ملک کے افراد کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ یوں دونوں طرف ہونے والا نقصان پاکستان کا ہی ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والے گروہ ایک نظرئیے کے تحت یہ سب کر رہے ہیں اور وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور جب ایسی کاروائیاں کسی نظرئیے کے تحت ہوں تو پھر ایسے گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں حتیٰ کہ غیر ملکی ایجنسیوں سے امداد لینا بھی غلط نہیں سمجھتے، بلکہ صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ یوں پاکستانی سکیورٹی فورسزکو بہت سے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت جتنے بھی مسلح گروہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ ان سب کا آپس میں رابطہ ہے گویا انھوں نے ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے جس کے تحت انھوں نے پورے ملک میں اپنے پنجے جمائے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے اس مضبوط نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ایک متحدہ کمانڈ(unity of command)کے تحت کام کریں یعنی ان سب کی تار ایک ہی جگہ سے ہلائی جائے جس سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے اورتوڑنے میں آسانی رہے گی۔
دوسرے ملکوں کی مثال لی جائے تو امریکا اور برطانیہ میں مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لئے یونٹی آف کمانڈ کے تحت نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ امریکا میں آرمڈ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیاں سی آئی اے، ڈی آئی اے اور ایف آئی اے کا م کر رہی ہیں ، یہ تینوں ایجنسیاں خفیہ رہتے ہوئے اپنا کام کرتی ہیں، سی آئی اے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات کی خفیہ نگرانی کی پابند ہے جبکہ ڈی آئی اے کاکام فوج کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنا ہے اور دونوں ایجنسیاں ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرتی ہیں ،
تاہم ان سب سے بڑھ کر نیشنل سکیورٹی ایجنسی ہے جس کا کام ڈیفنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیٹلائٹ سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ این ایس اے 1952ء میں قائم کی گئی اور اس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک دنیا بھر میں قائم ہے ، گو سی آئی اے اپنے طور پر بھی معلومات حاصل کرتی ہے مگر این ایس اے کے ذریعے انٹیلی جنس شیئرنگ کا کام تیزی سے ہوتا ہے اور اہداف کو جلد اور آسانی سے حاصل کر لیا جاتا ہے، ایبٹ آباد میں تمام تر آپریشن آرمڈ فورسز کی سپیشل برانچ نے کیا مگر اس کو تمام تر لاجسٹک سپورٹ این ایس اے کی حاصل تھی جو کافی عرصے سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنے میں مصروف تھی کی ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن ہی موجود ہے ،
این ایس اے کی مدد سے دیگر خفیہ ایجنسیاں 40سے 60فیصد تک اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں کہ کمپاؤنڈ میں موجود شخص اسامہ ہی ہے ، یوں اس آپریشن کو مربوط کرنے میں این ایس اے نے اہم کردار ادا کیا گویا این ایس اے ایسا ادارہ ہے جو سیٹلائٹ نیٹ ورک اور دیگر ذرائع سے آرمڈ فورسز اور دیگر خفیہ اداروں کو ایک ہی لڑی میں پروتا ہے اور ان کی الگ الگ حیثیت بھی برقرار رہتی ہے۔ برطانیہ میں بھی آرمڈ فورسز کی مدد کے لئے ایم 6،ایم 5، انٹرپول اور ایف آئی اے جیسے ادارے کام کر رہے ہیں ان سب کو باہم ملانے اور مدد کے لئے بھی این ایس اے ہی مدد کرتی ہے حالانکہ وہ ایک امریکی ادارہ ہے مگر فائیو آئی کے نام سے کئے گئے معاہدے کے تحت این ایس اے پانچ ملکوں امریکا ،برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاکو انٹیلیجنس معلومات فراہم کرتا ہے، گویا برطانیہ کے سکیورٹی اداروں کو باہم مربوط کرنے میں بھی این ایس اے کا کردار ہے۔
پاکستان جس طرح سے گزشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے اس میں پاکستان کی آرمد فورسز ، خفیہ ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مربوط کرنے کی شدید ضرورت ہے گو تمام ادارے بوقت ضرورت آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں مگر ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب دو ادارے ایک ہی معاملے میںکام کرتے ہوئے ٹکرا جائیں۔ اب وزارت داخلہ میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نئی قومی سکیورٹی پالیسی بنائی جا رہی ہے جس کے تحت اسلام آباد میں انٹیلی جنس سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا،
جس میں ایم آئی، آئی ایس آئی ، آئی بی سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں کے افسران شامل ہوں گے یوں تمام اداروں میں ہم آہنگی ہو گی، اسی طرح کاؤنٹر ٹیررازم فورس بنائی جائے گی جس میں زیادہ تر ریٹائرٖڈ فوجی شامل ہوں گے انھیں جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا بلکہ ہیلی کاپٹر بھی مہیا کئے جائیں گے۔ اسی طرح رینجرز اور پولیس کو بھی یکجا کیا جائے گا، یوں تمام اداروں میں ایک یونٹی آف کمانڈ قائم کی جائے گی اور مسح گروہوں سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مربوط نیٹ ورک کی شدید ضرورت تھی ، حکومت کو اس بات کا خیال دیر سے آیا ، چلیں شکر ہے آیا تو سہی ،کہتے ہیں دیر آید درست آید ،حکومت کے اس اقدام پر بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔