’’دیوار اور دیو‘‘

کام بہت مشکل اس لیے ہے کہ ’’تسمے‘‘ آسانی سے پہچانے نہیں جاتے، سارے ایک رنگ کے ہوتے ہیں۔

barq@email.com

یونہی بیٹھے بیٹھے اور سامنے والی دیوار کو خالی خالی نظروں سے تکتے ہوئے، کیونکہ آج کل ہمارے پاس یہی ایک ''کام'' کرنے کو رہ گیا ہے، باقی سارے کام مہنگائی نے اپنے قبضے میں لے رکھے ہیں اور ہمارے پاس سوائے خالی خالی نظروں سے دیکھنے کے اور کوئی شغل نہیں رہا ہے کیونکہ خدا کے فضل، آئی ایم ایف کی ہدایات اور رہنماوں کی حرکات و سکنات ابھی تک اس کام یعنی ''خالی خالی نظروں سے تکنے'' پر کوئی ٹیکس لگا ہے اور نہ ہی کسی میمرا ڈیمرا نے اس کے لیے نرخوں کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا ہوا ہے اور ہم جب چاہیں جتنا چاہیں ''خالی خالی نظروں سے'' جی بھر کر دیکھ سکتے ہیں۔

اس وقت جس دیوار کو ہم خالی خالی نظروں سے تکنے کی مفت اور بلالگان عیاشی کر رہے تھے اس پر دنیا کو درپیش ہر مسئلے بلکہ آیندہ پیش آنے والے مسائل کے حل بھی موجود تھے، ''آپ کے ووٹوں کا صحیح حقدار''، ''قربانی کی کھالوں کے اصل مستحق'' اور زکوۃ کے حقیقی صارفین کے ساتھ ساتھ ان تمام امراض کے علاج بھی موجود تھے۔ جو اب تک اس دنیا کو لاحق ہوئے ہیں، لاحق ہیں اور لاحق ہونے والے ہیں۔ لیکن ہم ان سب کو نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ پشتو کہاوت کے مطابق ''اگر اونٹ ایک پیسے کا بھی ملے تو جب جیب میں پیسہ نہ ہو تو مہنگا ہے''۔

ہم تو ''دیوار'' ہی کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ جب دنیا میں دیواریں نہیں تھیں تو لوگ کیا کرتے ہوں گے اور یہ کہ اس دیوار جتنی مفید ایجاد کا ''موجد'' کون ہے۔ کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ایک زمانے میں انسان غاروں کے اندر رہتا تھا یا کسی درخت کے نیچے ڈیرے ڈالے رہتا تھا یا کہیں کسی دریا، تالاب کے کنارے زندگی نبھاتا تھا پھر یہ ''دیوار'' کب کیسے اور کیوں ایجاد ہوئی؟ یہ سوال ہمیں پریشان کر رہا تھا۔ اب علم تحقیق کی رو سے تحقیق کی ابتدا نام سے ہوتی ہے جسے '' وجہ تسمیہ'' کہتے ہیں یعنی کس ''تسمیے'' سے اس چیز کی وجہ بندھی ہوئی ہے اور وہ ''تسمہ'' کس جانور کی کھال کا ہے۔

کام بہت مشکل اس لیے ہے کہ ''تسمے'' آسانی سے پہچانے نہیں جاتے، سارے ایک رنگ کے ہوتے ہیں، اب کونسی وجہ کس چیز کی کھال کے تسمے سے بندھی ہوئی ہے یہی سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ دوسرا اصول تحقیق کا یہ ہے کہ ''نام'' کے ٹکڑے کر کے دیکھا جائے۔ سو ہم جب لفظ ''دیوار'' کے دو ٹکڑے کیے تو ایک ''ٹکڑا'' دیو، کا ہوا اور دوسرا ''آر'' کا ۔ دیو، آر لفظ چونکہ فارسی کا ہے اس لیے فارسی میں ''دیو'' کو ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ یہ پرانے زمانے میں ایک مخلوق ہوتی تھی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مخلوق دنیا سے مٹ گئی اور معدوم ہو چکی ہے، موجود اب بھی ہے لیکن دوسرے ناموں اور شکلوں سے مثلاً حکومت، سیاست، جمہوریت پارٹی لیڈر اور مزارات شریفات۔

چنانچہ اب تو اس مخلوق کی ''صفات'' کو بیان کرنا از حد مشکل ہے کیونکہ ''صفات'' نے بھی ''گرگٹ'' کی خوبیاں اپنائی ہوئی ہیں۔ ہاں پرانے زمانے کے دیووں کے بارے میں کچھ معلومات ہمیں حاصل ہیں ''دیو'' نامی اس مخلوق کی پہلی بلکہ جنرل نشانی تو اس کا بدصورت ہونا تھا۔ لیکن اس کم بخت کو جادو بھی آتا تھا اس لیے اکثر کسی ''پری'' کے میک اپ میں رہتا تھا جیسا کہ حافظ جی آف شیراز نے کہا ہے کہ

پری نہفتہ رخ و ''دیو'' در کرشمہ حسن

بسوز عقل زحیرت کہ ایں چہ بولعجمی ست

حافظ جی تو ملنگ اور بے پروا یعنی گدائے گوشہ نشین یا دوسرے معنی میں کاہل بندے تھے۔ اس لیے اس سے زیادہ پتہ نہیں لگا پائے لیکن ہمارے علامہ اقبال نے اس ''دیو'' کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا


دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

یعنی جمہوریت اور آزادی دونوں ہی اس ''دیو'' کے پنجے میں ہوتے ہیں اور یہ بڑے مزے سے پری۔؟ علامہ صاحب چونکہ نامحرموں پر غور کی نگاہ نہیں ڈالتے تھے اس لیے تھوڑی سی غلطی ان سے بھی ہوئی کہ ''سبز'' اور نیلے میں فرق نہیں دیکھ سکے اور ''سبز پری'' کو نیلم پری سمجھ بیٹھے لیکن کوئی بات نہیں لباس کا کیا ہے وہ تو چہرے کی طرح ہر وقت بدلا جا سکتا ہے اور پھر دیو کے لیے کیا مشکل ہے، خیر ''دیوار'' میں آدھا حصہ ''دیو'' کا نکلا۔ باقی رہا ''آر'' تو وہ تو صاف ''لانے'' کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔ بادہ '' پیش آر'' کہ اسباب جہاں ایں ہمہ نیست'' یا پشتو کے شاعر مرحوم فضل حق شیدا نے ''لوممبا'' کی موت پر آدھا پشتو اور آدھا فارسی کا یہ خوبصورت شعر کہا تھا کہ:

''برگ گل'' آر کہ بر خاک لوممبا پاشی

اے د کانگو چمنہ زر بہ پسرلے راشی

یعنی پھولوں کی پتیاں لاو کہ لوممبا کی قبر پر نچھاور کریں یوں ''دیو''۔ اور ''آر'' کو ملا کر ''دیوار'' کا لفظ بنا۔ جو ابھی تک وہی مفہوم لیے ہوئے ''دیوار'' یعنی دیو۔ لاو۔ یا دیو لانا۔ اور جہاں کہیں کسی کو بڑے گھر یا دائرے میں سرکردگی اہمیت اور موقع نہیں ملتا۔ وہ۔ دیو۔ لاکر ''دیوار'' بنا دیتا ہے۔ اور دیوار ضروری نہیں کہ کس میٹریل کی بنی ہو۔

اینٹ کی، ریت کی پتھر کی ہو یامٹی کی

کسی دیوار کے سائے پہ بھروسا کیا ہے

برسر زمین دیوار تو کسی بھی وقت کسی بھی چیز کی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن اس سے پہلے دلوں میں ''دیوار'' کا پیدا ہونا یا کرنا ضروری ہے۔ جس طرح ''عشق اول در دل معشوق پیدا می شود'' دیوار بھی پہلے ''دردل'' ''دیو'' پیدا ہوتی ہے زمین پر اور بعد میں...
Load Next Story