گدھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میثاق جموریت سے شروع ہونے والا سفر اب میثاق معیشت کی صورت میں مکمل ہونے جا رہا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

سیاست کی خبریں گرم ہیں، حکومت کو اپوزیشن کا بہت جلد لگنے والا آزار ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ سازندے اپنے سازوں کی تان درست کر رہے ہیں لیکن کوئی نوابزادہ نصراللہ خان موجود نہیںجو اپوزیشن کو کسی ایک نقطے یا ایجنڈے پر متفق کر لے۔ اپوزیشن کی ہر پارٹی کے اپنے مسائل ہیں اور اس کے ہر لیڈر کے اپنے اپنے مسائل ہیں جس کے پیش ِنظر وہ گفتگو بھی اسی بیانیے میں کر رہے ہیں۔

پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بڑی پارٹیوں کی دو نمبر قیادت اس وقت میدان میں ہے ان کی صف اول کی قیادت اس وقت جیل میں ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ جیل میں ہیں اور جن الزامات کے تحت یہ جیل میں ہیں وہ ان دونوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف لگائے اور اب وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے کھودے گئے کنوؤں میں گرے ہوئے ہیں۔ ان دونوں سیاسی پارٹیوںکی دو نمبر قیادت جو کہ اپنی سیاسی بلوغت سے گزر رہی ہے آپس میں ملاقات کر رہی ہے اور اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے آیندہ کی سیاست کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ عوام بڑی حیرت سے ماضی کی دونوں سیاسی حریف پارٹیوں کی نوجوان قیادت کو شیر و شکر ہوتا دیکھ رہے ہیں اور سر دھن رہے ہیں۔

اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میثاق جموریت سے شروع ہونے والا سفر اب میثاق معیشت کی صورت میں مکمل ہونے جا رہا ہے۔ پہلے تو ان دونوں پارٹیوں کی صف اول کی قیادت نے لندن میں آج سے ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے جس میں بنیادی نقطہ یہی تھا کہ اقتدار کو آپس میں مل بیٹھ کر انجوائے کیا جائے اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت یعنی فوجی مداخلت کی صورت میں ایک متحدہ پلیٹ فارم سے جدو جہد کی جائے اور فوج کو اقتدار میں آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہاں تک تو سیاسی اور جمہوری بات درست تھی لیکن جب میثاق کرنے والوں کو تیسری سیاسی پارٹی کا آزار لگا تو انھوں نے اس پارٹی کو فوری طور پر ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کی پروردہ کہنا شروع کر دیا حالانکہ تیسری پارٹی کو تحریک انصاف کی صورت میں ان دونوں پارٹیوں کی بار بار کی حکومتوں کے نتائج دیکھنے کے بعد عوام نے اقتدار کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ فوج کی جانب سے ان کو مکمل تعاون فراہم کیا جا رہا ہے جس کا ہمارے وزیر اعظم عمران خان کئی بار برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔


اس وقت ریاست کے اہم ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں جو کہ اپوزیشن کی دو بڑی پار ٹیوں کو ہضم نہیں ہو رہا اور انھوں نے موجودہ حکومت کے اقتدار کا ایک برس مکمل ہونے سے قبل ہی احتجاجی تحریک کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے اور عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کے لیے انھیںمیدان میں اتارنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ اپنے مخصوص مقاصد، جن میں سب سے بڑا مقصد میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرادی کی رہائی شامل ہے اس اعلیٰ و ارفع مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن نے عجلت میں احتجاجی تحریک کا پرو گرام ترتیب دے دیا ہے ۔ اس احتجاجی پروگرام کے خدو خال آنے والے دنوں میں واضح ہو جائیں گے ۔

خبر یہ ہے کہ ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ تعداد 54 لاکھ ہو گئی ہے ۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی ،آپ بھی پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔

کسی زمانے میں ایک بادشاہ نے چرند پرند کو بھی اعزازات سے نوازنے کا پروگرام بنایا ۔ ایک گدھا جو جنگل سے لکڑیاں اٹھا کر لا رہا تھا کیا دیکھتا ہے کہ جو بھی جانور ہے وہ گلے میں کوئی تمغہ سجائے پھرتا ہے۔ اس نے ادب کے ساتھ شیر سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں تو جنگل کا بادشاہ ہوں اس لیے میرے کاؤنٹر پارٹ نے مجھے یہ اعلیٰ ترین اعزاز دیا ہے۔ لومڑی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ بادشاہوں کو عقل اور چالاکی کی ضرورت رہتی ہے اس لیے مجھے عقل مند اور چالاک سمجھ کر یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ ہرن نے بتایا کہ اس کی چشم غزال کیا کم ہیں کہ اسے اعزاز نہ ملتا ۔ غرض جنگل میں گدھے کو جو جانور بھی ملا اس نے اپنی کوئی نہ کوئی خوبی ایسی بتائی جس نے اسے اعزاز کا مستحق قرار دلایا۔ شہر میں پہنچا تو مرغی بھی تمغہ لٹکائے پھرتی تھی کہ وہ انسان کی بہترین خوراک انڈہ دیتی ہے ۔

گدھے کو یہ سب دیکھ کر سخت رنج ہوا چنانچہ قسمت آزمانے کے لیے وہ بھی شاہی دربار میں سر جھکا کر کھڑا ہو گیا ۔ درباری اسے دیکھ کر ہنسنے لگے ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ بھائی کھوتے تمہیں کیوں تمغہ دیا جائے ۔ گدھے نے عرض کیا کہ جہاں پناہ! میں تو اعلیٰ ترین اعزاز کا مستحق ہوں۔ یہ سن کے سب درباری اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بادشاہ نے پوچھا، وہ کیسے۔ تو گدھے نے جواب دیا، بادشاہ سلامت اگر آپ کے عوام گدھے نہ ہوتے تو آپ حکومت کیسے کرتے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور درباری گدھے کی کی صاف گوئی پر عش عش کر اٹھے ۔ چنانچہ بادشاہ نے اپنے گلے سے ہار اتار کر گدھے کے گلے میں بھی ڈال دیا۔ بہرحال فی الحال خبر یہی ہے کہ گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ گلے میں ہار پہننے کے لیے بے تاب نظر آ رہے ہیں۔
Load Next Story