ٹیکس ریکوری اور کرپشن

حکومتی مشینری خود ٹیکس چوری کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ نیب کو سب سے پہلے نوکر شاہی کو پکڑنا چاہیے۔


[email protected]

آج اگر پاکستان کی معاشی حالت کو عالمی سطح پر پرکھیں تو وطن عزیز ''بینک بیلنس''کے حساب سے 204 ممالک میں سے 194 نمبر پر ہے۔ ''ایکسپورٹ'' میں 224 ممالک میں سے 70 ویں نمبر پر ہے۔ ''آزاد معاشی اصلاحات'' میں 131 واں نمبر، جی ڈی پی میں 173 واں نمبر ۔ مہنگائی میں 163 واں اور بیرونی سرمایہ کاری میں 136 واں ہے۔ یعنی معاشی فہرست میں ہم دنیا کے اُن چند آخری ممالک میں آتے ہیں جہاں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان یہاں تک کیسے پہنچا؟ سابقہ کرپٹ حکومتوں نے کس بے رحمی سے کرپشن کی۔ کرپشن کرنے والوں کے جتھے موجود تھے۔

سرکاری دفاتر میں چپڑاسی سے لے کر سربراہ تک جہاں ہاتھ چلا، اس نے دریغ نہیں کیا ۔ آج جب وزیر اعظم چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ٹیکس دیں مگر اشرافیہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔ مجھے پاکستان کی بزنس ٹیائیکون کا ایک انٹرویو یاد آگیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کے دو بڑے مسائل ہیں۔ ایک کرپشن اور دوسرا ''بڑے کرنسی نوٹ''۔ جب تک پانچ ہزار کا نوٹ، 10ہزار ،25 ہزار اور چالیس ہزار کا بانڈ بند نہیں ہوگا، کرپشن ختم نہیں ہوگی، جب تک کیش کا لین دین بند نہیں ہوگا کرپشن کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ انھوں ایف بی آر، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور پولیس میں بہت بڑی ریفارمز کی ضرورت ہے۔

یہ بات مجھے حقیقت لگنے لگی کہ ٹیکس کی وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ ''اشرافیہ'' ہے، جس سے ٹیکس ریکوری ممکن ہی نہیں۔ اشرافیہ نے جائیدادوں کے انبار لگا رکھے ہیں۔ سابق جرنیل، جج، بیوروکریٹ، کرپٹ صحافی سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ جب عام طبقہ دیکھتا ہے کہ اشرافیہ کے لیے سب کچھ جائز ہے تو عام کاروباری طبقہ بھی ٹیکس چوری کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

حکومتی مشینری خود ٹیکس چوری کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ نیب کو سب سے پہلے نوکر شاہی کو پکڑنا چاہیے، اِن کی جائیدادوں کو سراغ لگانا چاہیے۔ ایف بی آر کے کرپٹ افسران کو قانون کے کٹہرئے میں لانا چاہیے۔ جب کہ کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جب میں نے دنیا بھر کے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے تھوڑی بہت تحقیق کی تو ترقی یافتہ ممالک میں 100سے زیادہ کا کرنسی نوٹ ہی نہیں دیکھا گیا۔

ہاں چند ممالک میں 500 یورو کا نوٹ دیکھا لیکن اب اس پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ برلن، آسٹریا،جرمنی کے مرکزی بینکوں نے پانچ سو یورو مالیت کے نوٹ جاری کرنا بند کر دیے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی ان بڑے نوٹوں کی مانگ زیادہ تھی اور ان کے عوض ایکسچینج ریٹ بھی بہتر دیا جاتا تھا۔ پانچ سو یورو کے نوٹ کا شمار دنیا کے ان بینک نوٹوں میں ہوتا ہے، جن کی قدر سب سے زیادہ ہے۔ پانچ سو یورو نوٹ کی قدر پاکستان میں تقریبا 82 ہزار روپے کے برابر بنتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی مانگ بھی زیادہ ہے۔ ایسے بڑے نوٹوں کو منی لانڈرنگ یا پھر اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

آپ ہمسایہ ملک انڈیا کی بات کر لیں وہاں مودی سرکار نے2016ء میں 500اور 1000کانوٹ بند کیا تو ایک دفعہ تو عوام کی چیخیں نکل گئیں، نوٹ بندی کے حوالے سے عوام کئی کئی دن قطاروں میں کھڑے رہے، درجنوں ہلاکتیں بھی ہوئیں مگر آپ یقین مانیں کہ وہاں نہ صرف دہشتگردی میں کمی آئی ہے، بلکہ کرپشن کا انڈیکس بھی پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش سمیت دیگر ملکوں میں ایک ہزار روپے سے زائد مالیت کے کرنسی نوٹ کا وجود ہی نہیں۔ ماضی میں زمبابوے، انڈونیشیا، میکسیکو، افغانستان ودیگر ممالک میں بڑے مالیت کے کرنسی نوٹ جاری کیے گئے تھے لیکن ان ممالک کی معیشتیں تباہی کی جانب گامزن ہوئیں۔

پاکستان میں بھی بڑے کرنسی نوٹ ختم کر کے چھوٹے کرنسی نوٹوں پر انحصار کرنا ہو گا جس سے یقینا کرپشن میں کمی ہو گی۔ اگر کسی نے 10کروڑ روپے رشوت ادا کرنی ہے تو وہ یقینا بینک کے ذریعے پیمنٹ کرے گا، اس کے لیے اگر وہ سو سو کے نوٹ اکٹھا کرے گا تو بوریاں بھر جائیں گی۔ اب جب کہ اگر آپ کسی کو رشوت ادا کرتے ہیں تو پانچ ہزار کے چند ہزار نوٹ ہی کافی ہوتے ہیں۔ اگر ماضی میں دیکھیں تو پانچ ہزار کے نوٹ کا اجرا سابق صدر پرویز مشرف نے کیا تھا۔ وہ بیس ہزار روپے کا نوٹ بھی نکالنا چاہتے تھے اور اُس کا اخباری اعلان بھی ہو چکا تھا' لیکن انھیں موقع نہیں ملا اور وہ پہلے گھر اور پھر دیارِ غیر چلے گئے۔اب یہ وہ نوٹ ہے جو ہر کرپٹ افسر اور لیڈر کے دکھ کا مداوا کرتا ہے۔آسانی سے کہیں بھی چھپ جاتا ہے اُن کی جان بچاتاہے، پکڑائی کے راستے بند کرواتا ہے۔آج سے چند سال قبل جب پانچ ہزار کے نوٹ کا وجود بھی نہیں تھا ان دنوں ایک شاعر نے بڑھتی ہوئی رشوت کے بارے میں کہا تھا :

لے کے رشوت پھنس گیا ہے

دے کے رشوت چھوٹ جا

یقینا پانچ ہزار کے نوٹ کی بندش کا سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں، سیاستدانوں اور ان کے ساجھے داروں کو ہوگا کیونکہ بڑے نوٹوں کی بڑی تعداد اُن کے پاس ہی موجود ہے۔اس کے علاوہ اگر یہ نہیں کرنا تو ایک معصومانہ سی تجویز ہے کہ بڑے کرنسی نوٹوں یعنی ایک ہزار اور 5ہزار والے نوٹوں پر ایکسپائری ڈیٹ ڈال دی جائے۔ لوگ اپنی کرپشن کی رقم زیادہ تر اپنی تجوریوں میں یا جائیداد اور دیگر قیمتی اشیاء بنانے میں لگاتے ہیں، بینکوں میں اس لیے نہیں رکھتے کہ حکومتی ادارے فوراً سوال کریں گے۔ اب اگر ان نوٹوں پر 3 یا 5 سال کی ایکسپائری ڈیٹ ڈال دی جائے تو تجوریوں میں محفوظ رقم کو لازمی تبدیل کرانے کے لیے انھیں بینکوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔

اب اگر وہ اپنی رقم سے جائیداد وغیرہ خرید لیں یا کچھ اور قیمتی اشیاء خریدیں تو ان کی رقم تو باہر ہی باہر گردش کرتی رہے گی؟ تو سادہ سا جواب ہے کہ حکومت کو اس ضمن میں یہ پابندی عائد کرنی ہو گی کہ 25 ہزار یا 50 ہزار سے زائد مالیت کی کوئی بھی شئے، قیمتی چیز یا جائیداد کی خریدوفروخت کے لیے صرف بینک پے آرڈر ہی سے لین دین ہوگا، نقد ڈیلنگ کرنے والے کی متعلقہ چیز فوری ضبط کرلی جائے گی۔اس کے علاوہ تمام غیر ملکی کرنسی کی لین دین صرف بینکوں تک محدود کر دی جائے اور اوپن مارکیٹ سے یہ سلسلہ ختم کیا جائے اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو صرف مقرر کردہ کرنسی ڈیلرز سے ہی غیر ملکی کرنسی کی لین دین ہو اور چیک یا بینک پے آرڈر کی صورت میں ہی پاکستانی کرنسی وصول کرکے غیرملکی کرنسی دی جائے۔

ایسا کرنے سے یقینا شروع شروع میں خوب شور مچے گا بالکل اسی طرح جیسے بھارت میں شور مچا، پھر رفتہ رفتہ مجبوری میں انھیں یہ قبول کرنا ہی پڑے گا۔یہ تجاویز میری تحریر کا نچوڑ ہیں، البتہ اس کے اچھے برے پہلوؤں کو مزید شفاف بناکر اسے لاگو کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا بولڈ فیصلے کرکے حکومت کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے پچھتانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں