کراچی ترقی کے خوش آیند اعلانات ثمرات کب ملیں گے
وفاقی بجٹ ہو یا سندھ کا صوبائی بجٹ ، دونوں میں شہرکراچی کے حوالے سے بھی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔
٭ لیجیے جناب ! پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے اپنے بجٹ پیش کر دیے۔ ان میں ظاہری طور پر عوام کے فائدے کے لیے، علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ جاری منصوبوں کے علاوہ نئے منصوبے بھی شروع کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وفاقی حکومت کے بجٹ کو شہر اقتدار میں موجود حزب اختلاف اچھا نہیں سمجھ رہی جب کہ سندھ صوبے کے لیے پیش کردہ بجٹ پر صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔
وفاقی بجٹ ہو یا سندھ کا صوبائی بجٹ ، دونوں میں شہرکراچی کے حوالے سے بھی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں ۔ یہ منصوبے سننے میں بہت شاندار اور اچھے نظر آ رہے ہیں اور لوگوں کی رائے بھی یہ ہے کہ اگر شہرِ قائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف عوام کی بہت سی مشکلات کم ہو جائیں گی بلکہ شہر کا امیج بھی مزید اچھا ہو جائے گا۔
کراچی شہر کو دیکھا جائے تو اس وقت تقریباً نصف سے زائد شہر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اُدھڑا پڑا ہے، یہ جملہ گو کہ کچھ سخت لگ رہا ہے لیکن تلخ حقیقت بھی یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقے کئی سال سے مختلف نوعیت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے متاثر ہیں، کہیں سڑکیں بند ہیں تو کہیں ملبے کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کا جگہ جگہ جمع ہونا ، ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی صورت میں مختلف مقامات پر ٹریفک جام ہونا ، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر پریشان حال لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے حالات کشیدہ ہونا بھی روزمرہ کا معمول ہے جو لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی بجٹ کے بعد شہریوں کو جہاں یہ امید ہے کہ اب صورتحال کچھ بہتر ہو گی وہاں اُن کی ارباب اقتدار سے یہ التجا بھی ہے کہ بے شک نئے منصوبوں کو فوری طور پر شروع نہ کیا جائے لیکن کئی برسوں اور مہینوں سے جاری ترقیاتی کاموں کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچادیا جائے۔
وفاقی بجٹ میں کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے45.5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ سندھ کے بجٹ میں شہر قائد کے لیے 40 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عالمی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے بھی شہرکی تعمیر و ترقی کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ سندھ حکومت کے بجٹ کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اداروں کے تعاون سے آیندہ 5 سال میں شہر کراچی میں مزید 226 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
''کراچی والا '' ہونے کے ناتے ہمیں وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ حکومت سے صرف یہ کہنا ہے کہ جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، اُن کا شکریہ لیکن ضروری ہے کہ پہلے قلیل مدتی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ہر علاقے میں بجلی اور گیس کی بلا تعطل ترسیل ، جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیروں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹرانسپورٹ کے ابتر نظام کو جدید اور موثر کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ بہت سے منصوبے کئی سال سے جاری ہیں لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس طرف توجہ دینا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور کراچی سے آنے والے بجٹ غریبوں کے آنسو بھی پونچھنے کے قابل نہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں روپے کے اعلانات ، اعداد و شمارکا گورکھ دھندہ کاغذات کی حد تک تو بہت اچھا کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انھیں ہم اُس وقت اچھا سمجھیں گے جب غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے حل کا آغاز ہو جائے۔ سندھ کے بجٹ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے 5 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جس کا بڑا حصہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں اضافے، اُن میں بہتری اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہونا ہے ۔ فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بھی خطیر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ ہے لیکن عوام صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب کب ہو گا؟
ہر سال بجٹ آتا ہے، بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کیے جاتے ہیں، کچھ علاقوں میں منصوبوں پر کام بھی شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ منصوبے تعداد میں بہت کم ہیں جو وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچے ہوں۔
شہر بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے کا سفر کرتے ہیں اور گھنٹوں ٹریفک جام کی اذیت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کی مشقت اور خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب کو جھیلتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھر آتے ہوئے اور گھر سے جاتے ہوئے قلت آب، طویل لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل بھی ہر شہری کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ، ایسے میں ایئرکنڈیشنڈ کمروں اور ایوانوں میں مہنگے سوٹ پہن کر عوام کی خدمت اور سہولت کے لیے کیے گئے اعلانات اور وعدوں پر کون کیوں اور کیسے یقین کرے گا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک منصوبہ مکمل نہیں ہوتا کہ دوسرے کا اعلان ہو جاتا ہے۔ منصوبے بے شک کم ہوں لیکن اگر وقت پر مکمل کر لیے جائیں تو کسی بھی شہر کے باسیوں کو پریشانی نہیں ہو گی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ، یہاں آبادی بھی بہت ہے اور مسائل بھی لاتعداد ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی بحالی کے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دیں۔
میں نے پہلے بھی کہیں اپنی اس رائے کا ذکر کیا تھا کہ کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم اکثر ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر ہو کر ادھورے رہ جاتے ہیں یا اُن پر کام ہی شروع نہیں کیا جاتا۔ ملک کے حکمرانوں اور ''عوامی نمایندوں '' کو اس ''بیماری '' کا علاج خلوص دل، اجتماعی سوچ کے سہارے اور قومی مفاد میں ڈھونڈنا ہو گا۔
کراچی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کی چمک ملک بھر میں اجالا پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ اس شہر کا اتنا تو حق ہے کہ یہاں کے رہنے والے پُرسکون انداز میں گھر سے کام کی جگہ اور وہاں سے واپس اپنے گھر آسکیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہو جائے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بے شک ہو لیکن وقت پر ہو۔ امن و امان کی صورتحال مزید اتنی اچھی ہو جائے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی دھڑکا نہ لگا رہے کہ پتہ نہیں خیریت سے گھر واپسی ہو گی بھی یا نہیں، اگر صاف پانی ہر گھر تک باقاعدگی سے پہنچے اور شہر کی گلیوں، راستوں، سڑکوں اور تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی موثر انتظامات کیے جائیں تو شہری پلٹ کر بھی نہیں پوچھیں گے کہ کون حاکم ہے ؟ اور کیا کر رہا ہے؟
وفاقی بجٹ ہو یا سندھ کا صوبائی بجٹ ، دونوں میں شہرکراچی کے حوالے سے بھی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں ۔ یہ منصوبے سننے میں بہت شاندار اور اچھے نظر آ رہے ہیں اور لوگوں کی رائے بھی یہ ہے کہ اگر شہرِ قائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف عوام کی بہت سی مشکلات کم ہو جائیں گی بلکہ شہر کا امیج بھی مزید اچھا ہو جائے گا۔
کراچی شہر کو دیکھا جائے تو اس وقت تقریباً نصف سے زائد شہر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اُدھڑا پڑا ہے، یہ جملہ گو کہ کچھ سخت لگ رہا ہے لیکن تلخ حقیقت بھی یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقے کئی سال سے مختلف نوعیت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے متاثر ہیں، کہیں سڑکیں بند ہیں تو کہیں ملبے کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کا جگہ جگہ جمع ہونا ، ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی صورت میں مختلف مقامات پر ٹریفک جام ہونا ، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر پریشان حال لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے حالات کشیدہ ہونا بھی روزمرہ کا معمول ہے جو لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی بجٹ کے بعد شہریوں کو جہاں یہ امید ہے کہ اب صورتحال کچھ بہتر ہو گی وہاں اُن کی ارباب اقتدار سے یہ التجا بھی ہے کہ بے شک نئے منصوبوں کو فوری طور پر شروع نہ کیا جائے لیکن کئی برسوں اور مہینوں سے جاری ترقیاتی کاموں کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچادیا جائے۔
وفاقی بجٹ میں کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے45.5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ سندھ کے بجٹ میں شہر قائد کے لیے 40 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عالمی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے بھی شہرکی تعمیر و ترقی کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ سندھ حکومت کے بجٹ کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اداروں کے تعاون سے آیندہ 5 سال میں شہر کراچی میں مزید 226 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
''کراچی والا '' ہونے کے ناتے ہمیں وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ حکومت سے صرف یہ کہنا ہے کہ جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، اُن کا شکریہ لیکن ضروری ہے کہ پہلے قلیل مدتی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ہر علاقے میں بجلی اور گیس کی بلا تعطل ترسیل ، جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیروں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹرانسپورٹ کے ابتر نظام کو جدید اور موثر کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ بہت سے منصوبے کئی سال سے جاری ہیں لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس طرف توجہ دینا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور کراچی سے آنے والے بجٹ غریبوں کے آنسو بھی پونچھنے کے قابل نہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں روپے کے اعلانات ، اعداد و شمارکا گورکھ دھندہ کاغذات کی حد تک تو بہت اچھا کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انھیں ہم اُس وقت اچھا سمجھیں گے جب غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے حل کا آغاز ہو جائے۔ سندھ کے بجٹ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے 5 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جس کا بڑا حصہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں اضافے، اُن میں بہتری اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہونا ہے ۔ فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بھی خطیر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ ہے لیکن عوام صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب کب ہو گا؟
ہر سال بجٹ آتا ہے، بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کیے جاتے ہیں، کچھ علاقوں میں منصوبوں پر کام بھی شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ منصوبے تعداد میں بہت کم ہیں جو وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچے ہوں۔
شہر بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے کا سفر کرتے ہیں اور گھنٹوں ٹریفک جام کی اذیت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کی مشقت اور خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب کو جھیلتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھر آتے ہوئے اور گھر سے جاتے ہوئے قلت آب، طویل لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل بھی ہر شہری کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ، ایسے میں ایئرکنڈیشنڈ کمروں اور ایوانوں میں مہنگے سوٹ پہن کر عوام کی خدمت اور سہولت کے لیے کیے گئے اعلانات اور وعدوں پر کون کیوں اور کیسے یقین کرے گا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک منصوبہ مکمل نہیں ہوتا کہ دوسرے کا اعلان ہو جاتا ہے۔ منصوبے بے شک کم ہوں لیکن اگر وقت پر مکمل کر لیے جائیں تو کسی بھی شہر کے باسیوں کو پریشانی نہیں ہو گی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ، یہاں آبادی بھی بہت ہے اور مسائل بھی لاتعداد ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی بحالی کے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دیں۔
میں نے پہلے بھی کہیں اپنی اس رائے کا ذکر کیا تھا کہ کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم اکثر ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر ہو کر ادھورے رہ جاتے ہیں یا اُن پر کام ہی شروع نہیں کیا جاتا۔ ملک کے حکمرانوں اور ''عوامی نمایندوں '' کو اس ''بیماری '' کا علاج خلوص دل، اجتماعی سوچ کے سہارے اور قومی مفاد میں ڈھونڈنا ہو گا۔
کراچی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کی چمک ملک بھر میں اجالا پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ اس شہر کا اتنا تو حق ہے کہ یہاں کے رہنے والے پُرسکون انداز میں گھر سے کام کی جگہ اور وہاں سے واپس اپنے گھر آسکیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہو جائے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بے شک ہو لیکن وقت پر ہو۔ امن و امان کی صورتحال مزید اتنی اچھی ہو جائے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی دھڑکا نہ لگا رہے کہ پتہ نہیں خیریت سے گھر واپسی ہو گی بھی یا نہیں، اگر صاف پانی ہر گھر تک باقاعدگی سے پہنچے اور شہر کی گلیوں، راستوں، سڑکوں اور تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی موثر انتظامات کیے جائیں تو شہری پلٹ کر بھی نہیں پوچھیں گے کہ کون حاکم ہے ؟ اور کیا کر رہا ہے؟