حکومتی پالیسیوں کے خلاف سندھ میں احتجاجی سیاست عروج پر
جماعت اسلامی نے ''کراچی کو عزت دو'' کے نام سے 30 جون کو عوامی ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں احتجاجی سیاست کے راستے پر گامزن ہو چکی ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کے تحت سندھ کو اپنی احتجاجی سیاست کا مرکز بنائے گی۔
جماعت اسلامی نے ''کراچی کو عزت دو'' کے نام سے 30 جون کو عوامی ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعتیں بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں کیا پوزیشن اختیار کریں گی؟ یہ سندھ کی سیاست کا اس وقت اہم سوال ہے۔
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی گرفتاری کے خلاف سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں مظاہروں کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہا ۔ 21 جون کو محترمہ بینظیر بھٹو کے 67 ویں یوم پیدائش کے موقع پر پیپلز پارٹی نے نواب شاہ میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس جلسہ عام سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا ۔ یہ جلسہ عام بھی پیپلز پارٹی کی احتجاجی سیاست کے سلسلے میں تھا ۔ نواب شاہ میں جلسہ عام کے بعد پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی بجٹ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی ۔
اس ریلی میں، بھی شریک لوگوں کی متاثر کن تعداد تھی ۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام اس ریلی سے کراچی میں پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ کافی عرصے کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنی سرگرمی سے یہ ثابت کیا کہ وہ بھی کراچی کی ایک مؤثر سیاسی جماعت ہے۔ گزشتہ اتوار کو نکالی جانے والی اس ریلی میں لوگوں کی زیادہ تعداد میں شرکت اس لیے بھی حیران کن تھی کہ کراچی میںشدید گرمی تھی اور اس دن کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ بھی تھا۔ مہنگائی اور وفاقی بجٹ کے خلاف پیپلز پارٹی سندھ کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظر 26 جون کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے فیصلوں پر ہے۔ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتوں نے اگر تحریک انصاف کے خلاف مشترکہ احتجاجی تحریک کا فیصلہ کیا تو پیپلز پارٹی سندھ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی سیاست کی حکمت عملی طے کرے گی۔ اگر مشترکہ احتجاجی تحریک کا فیصلہ نہ ہوا تو پیپلز پارٹی اپنے طور پر احتجاجی سیاست کو سندھ میں آگے بڑھائے گی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی گرفتاریوں کے بعد سندھ میں مزید پکڑ دھکڑ کے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تقریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ سمیت پورے ملک میں سیاسی حالات جوں کے توں نہیں رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس سیاسی گیم میں حتمی راؤنڈ کے لیے تیاریاں کر رہی ہے اور وہ سندھ کو اپنی احتجاجی سیاست کا مرکز بنا سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام 30 جون کو کراچی میں عوامی ملین مارچ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ جماعت اسلامی اس سیاسی سرگرمی کے ذریعہ کراچی کی سیاست میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پر کرنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ ملین مارچ ''کراچی کو عزت دو'' کے عنوان سے کیا جا رہا ہے اور یہ مارچ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت کے خلاف ہوگا ۔ جماعت اسلامی کا مؤقف یہ ہے کہ تینوں حکمران سیاسی جماعتوں نے کراچی کو نظر انداز کیا اور کراچی کے عوام کو اپنی سیاست کا ایندھن بنایا۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی شہر پر دوبارہ سیاسی گرفت حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔
سندھ میں تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعتیں خصوصاً گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل سیاسی جماعتیں اور متحدہ قومی موومنٹ نئے حالات میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ارکان نے تحریک ا نصاف کی مرکزی حکومت کا دفاع نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ضلع گھوٹکی کے قصبہ خان گڑھ جا کر سابق وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر سردار علی محمد خان مہر کے انتقال پر ان کے بھائیوں خصوصاً سردار علی گوہر خان مہر سے تعزیت کی۔ سردار علی محمد خان مہر مرحوم وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل تھے لیکن وزیراعظم ان کے انتقال کے کئی دنوں بعد تعزیت کے لیے آئے۔ اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا کیونکہ سردار علی محمد خان مہر کی خالی نشست پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ کسی حکومتی عہدیدار کا دورہ انتخابی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کو بھی مرکز میں ایک وزارت دینے کی پیش کش کی ہے۔ کیا جی ڈی اے اور ایم کیو ایم نئے حالات میں عمران خان کے ساتھ کھڑی رہیں گی؟ یہ سندھ کی سیاست کا اہم سوال ہے۔
جماعت اسلامی نے ''کراچی کو عزت دو'' کے نام سے 30 جون کو عوامی ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعتیں بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں کیا پوزیشن اختیار کریں گی؟ یہ سندھ کی سیاست کا اس وقت اہم سوال ہے۔
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی گرفتاری کے خلاف سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں مظاہروں کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہا ۔ 21 جون کو محترمہ بینظیر بھٹو کے 67 ویں یوم پیدائش کے موقع پر پیپلز پارٹی نے نواب شاہ میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس جلسہ عام سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا ۔ یہ جلسہ عام بھی پیپلز پارٹی کی احتجاجی سیاست کے سلسلے میں تھا ۔ نواب شاہ میں جلسہ عام کے بعد پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی بجٹ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی ۔
اس ریلی میں، بھی شریک لوگوں کی متاثر کن تعداد تھی ۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام اس ریلی سے کراچی میں پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ کافی عرصے کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنی سرگرمی سے یہ ثابت کیا کہ وہ بھی کراچی کی ایک مؤثر سیاسی جماعت ہے۔ گزشتہ اتوار کو نکالی جانے والی اس ریلی میں لوگوں کی زیادہ تعداد میں شرکت اس لیے بھی حیران کن تھی کہ کراچی میںشدید گرمی تھی اور اس دن کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ بھی تھا۔ مہنگائی اور وفاقی بجٹ کے خلاف پیپلز پارٹی سندھ کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظر 26 جون کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے فیصلوں پر ہے۔ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتوں نے اگر تحریک انصاف کے خلاف مشترکہ احتجاجی تحریک کا فیصلہ کیا تو پیپلز پارٹی سندھ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی سیاست کی حکمت عملی طے کرے گی۔ اگر مشترکہ احتجاجی تحریک کا فیصلہ نہ ہوا تو پیپلز پارٹی اپنے طور پر احتجاجی سیاست کو سندھ میں آگے بڑھائے گی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی گرفتاریوں کے بعد سندھ میں مزید پکڑ دھکڑ کے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تقریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ سمیت پورے ملک میں سیاسی حالات جوں کے توں نہیں رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس سیاسی گیم میں حتمی راؤنڈ کے لیے تیاریاں کر رہی ہے اور وہ سندھ کو اپنی احتجاجی سیاست کا مرکز بنا سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام 30 جون کو کراچی میں عوامی ملین مارچ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ جماعت اسلامی اس سیاسی سرگرمی کے ذریعہ کراچی کی سیاست میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پر کرنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ ملین مارچ ''کراچی کو عزت دو'' کے عنوان سے کیا جا رہا ہے اور یہ مارچ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت کے خلاف ہوگا ۔ جماعت اسلامی کا مؤقف یہ ہے کہ تینوں حکمران سیاسی جماعتوں نے کراچی کو نظر انداز کیا اور کراچی کے عوام کو اپنی سیاست کا ایندھن بنایا۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی شہر پر دوبارہ سیاسی گرفت حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔
سندھ میں تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعتیں خصوصاً گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل سیاسی جماعتیں اور متحدہ قومی موومنٹ نئے حالات میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ارکان نے تحریک ا نصاف کی مرکزی حکومت کا دفاع نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ضلع گھوٹکی کے قصبہ خان گڑھ جا کر سابق وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر سردار علی محمد خان مہر کے انتقال پر ان کے بھائیوں خصوصاً سردار علی گوہر خان مہر سے تعزیت کی۔ سردار علی محمد خان مہر مرحوم وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل تھے لیکن وزیراعظم ان کے انتقال کے کئی دنوں بعد تعزیت کے لیے آئے۔ اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا کیونکہ سردار علی محمد خان مہر کی خالی نشست پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ کسی حکومتی عہدیدار کا دورہ انتخابی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کو بھی مرکز میں ایک وزارت دینے کی پیش کش کی ہے۔ کیا جی ڈی اے اور ایم کیو ایم نئے حالات میں عمران خان کے ساتھ کھڑی رہیں گی؟ یہ سندھ کی سیاست کا اہم سوال ہے۔