پاکستان میں صنفی امتیاز دیگر ممالک سے زیادہ ہے اقوام متحدہ
خواتین مردوں کے ایک گھنٹہ کے مقابلہ میں 11 گھنٹے بلامعاوضہ گھریلو کام کرتی ہیں، رپورٹ
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلا معاوضہ گھریلو مشقت کے حوالے سے پاکستان میں صنفی امتیاز کی صورتحال مخدوش ہے۔
خواتین کی ترقی کی سالانہ رپورٹ 2019-2020 میں شامل ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں خواتین مردوں کے ایک گھنٹے کے مقابلہ میں 11 گھنٹے بلامعاوضہ گھریلو کام کرتی ہیں اور یہ تناسب دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پایا جانے والا صنفی امتیاز افریقہ کے بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے،مصر اور عمان میں خواتین بالترتیب 9اور ڈھائی گھنٹے گھریلو مشقت اٹھاتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیلجیئم میں یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے جہاں خواتین مردوں سے صرف آدھ گھنٹہ زیادہ کام کرتی ہیں۔
رپورٹ میں وسط اور جنوب ایشیائی خطے کا یہ پہلو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین اور شیر خوار بچوں کی ماؤں کی لیبر مارکیٹ میں شرکت کم ہو جاتی ہے،اس خطے میں مذکورہ خواتین کی شرکت کا تناسب 29.1 فیصد ہے جو دیگر ممالک کے مقابلہ میں انتہائی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق شمالی افریقہ ،مغربی ایشیا،سب صحارن افریقی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک میں صنفی امتیاز کے خاتمہ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی اقوام متحدہ کی نمائندہ جمشید قاضی نے حکومت پاکستان سے عائلی قوانین اور بچوں کی شادی سے متعلقہ بلز میں ترمیم کی جائے تاکہ خواتین آزادی کے فیصلہ کر سکیں انہیں افرادی قوت کے حوالے سے کس خاندان کا حصہ بننا ہے۔
خواتین کی ترقی کی سالانہ رپورٹ 2019-2020 میں شامل ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں خواتین مردوں کے ایک گھنٹے کے مقابلہ میں 11 گھنٹے بلامعاوضہ گھریلو کام کرتی ہیں اور یہ تناسب دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پایا جانے والا صنفی امتیاز افریقہ کے بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے،مصر اور عمان میں خواتین بالترتیب 9اور ڈھائی گھنٹے گھریلو مشقت اٹھاتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیلجیئم میں یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے جہاں خواتین مردوں سے صرف آدھ گھنٹہ زیادہ کام کرتی ہیں۔
رپورٹ میں وسط اور جنوب ایشیائی خطے کا یہ پہلو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین اور شیر خوار بچوں کی ماؤں کی لیبر مارکیٹ میں شرکت کم ہو جاتی ہے،اس خطے میں مذکورہ خواتین کی شرکت کا تناسب 29.1 فیصد ہے جو دیگر ممالک کے مقابلہ میں انتہائی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق شمالی افریقہ ،مغربی ایشیا،سب صحارن افریقی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک میں صنفی امتیاز کے خاتمہ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی اقوام متحدہ کی نمائندہ جمشید قاضی نے حکومت پاکستان سے عائلی قوانین اور بچوں کی شادی سے متعلقہ بلز میں ترمیم کی جائے تاکہ خواتین آزادی کے فیصلہ کر سکیں انہیں افرادی قوت کے حوالے سے کس خاندان کا حصہ بننا ہے۔