سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر ر امتیاز کی بریت کیخلاف نیب اپیل مسترد
ملزمان کی آمدن اور زائد اثاثوں کی مالیت کا تعین کرنا نیب کی ذمہ داری ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر امتیاز کی بریت کیخلاف نیب اپیل مسترد کردی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز کی آمدن سے زائد اثاثوں میں بریت کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل خارج کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر امتیاز، عدنان خواجہ اور بیگم نسرین امتیاز کی بریت کا ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آمدن اور زائد اثاثوں کی مالیت کا تعین کرنا نیب کی ذمہ داری ہے، لیکن نیب نے اس مقدمہ میں آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین نہیں کیا۔ نیب کے وکیل نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی وضاحت ملزمان نے کرنا تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 2011 سے پہلے نیب کے ہر کیس میں یہی مسئلہ آ رہا تھا، پھر سپریم کورٹ نے 2011 میں فیصلہ دیا آمدن سے زائد اثاثوں کو ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزم کی اہلیہ نسرین بے نامی دار تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بے نامی دار ثابت کرنے سے پہلے آمدن سے زائد اثاثے ثابت کرنا بنیاد ہے، جب پہلی بنیاد نہ ہو تو بے نامی ہونا جرم نہیں، عدنان خواجہ کون تھا اس نے کیا کیا۔ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ عدنان خواجہ برگیڈیئر امتیاز کا بے نامی دار ہے، جن کی دی ہوئی رقم سے عدنان خواجہ نے ایک دکان خریدی۔
ملزمان کے وکلا نے کہا کہ عدنان خواجہ کاروباری شخصیت ہے جس کی اپنی ایک فیکٹری بھی ہے۔ برگیڈیئر امتیاز کے خلاف یہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ جائیدادیں اگر غیر قانونی ذرائع آمدن سے بنائی ہیں تو استغاثہ ثابت کرے۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ غیر قانونی ذرائع آمدن ریکارڈ پر موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تو ریکارڈ کو ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب اپیل مسترد کردی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز کی آمدن سے زائد اثاثوں میں بریت کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل خارج کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی بی برگیڈیئر امتیاز، عدنان خواجہ اور بیگم نسرین امتیاز کی بریت کا ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آمدن اور زائد اثاثوں کی مالیت کا تعین کرنا نیب کی ذمہ داری ہے، لیکن نیب نے اس مقدمہ میں آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین نہیں کیا۔ نیب کے وکیل نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی وضاحت ملزمان نے کرنا تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 2011 سے پہلے نیب کے ہر کیس میں یہی مسئلہ آ رہا تھا، پھر سپریم کورٹ نے 2011 میں فیصلہ دیا آمدن سے زائد اثاثوں کو ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزم کی اہلیہ نسرین بے نامی دار تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بے نامی دار ثابت کرنے سے پہلے آمدن سے زائد اثاثے ثابت کرنا بنیاد ہے، جب پہلی بنیاد نہ ہو تو بے نامی ہونا جرم نہیں، عدنان خواجہ کون تھا اس نے کیا کیا۔ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ عدنان خواجہ برگیڈیئر امتیاز کا بے نامی دار ہے، جن کی دی ہوئی رقم سے عدنان خواجہ نے ایک دکان خریدی۔
ملزمان کے وکلا نے کہا کہ عدنان خواجہ کاروباری شخصیت ہے جس کی اپنی ایک فیکٹری بھی ہے۔ برگیڈیئر امتیاز کے خلاف یہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ جائیدادیں اگر غیر قانونی ذرائع آمدن سے بنائی ہیں تو استغاثہ ثابت کرے۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ غیر قانونی ذرائع آمدن ریکارڈ پر موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تو ریکارڈ کو ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب اپیل مسترد کردی۔