شادی سے انکار مگر اخلاقیات کے دائرے میں
کسی کی شکل و صورت کو ٹارگٹ نہ کرتے ہوئے اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر منع کریں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو
فہد ایک اچھا طالب علم تھا، پڑھنے میں لائق رہا، اور یوں اس نے پی ایچ ڈی کرلیا۔ اسے اپنی کلاس فیلو پسند تھی، جو اس کی بہت اچھی دوست بھی تھی۔ پڑھائی مکمل کرنے، اور نوکری ملنے کے بعد اس نے اپنی دوست کو شادی کےلیے پروپوز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دن وہ بہت خوش تھا، کیونکہ وہ اپنے دل کی بات کرنے جارہا تھا۔ اس نے اپنے دل کا اظہار کرہی دیا، لیکن وہ اپنی سب سے اچھی دوست کا جواب سن کر جیسے سکتے میں آگیا۔ اس نے کہا کہ ''دنیا میں کیا لڑکے مرگئے ہیں، جو میں تم جیسے موٹے سے شادی کروں گی؟ میرا شوہر تو بہت ہینڈسم ہوگا، موٹا نہیں۔''
فہد کو انکار کا اتنا دکھ نہیں تھا، جتنا اسے اپنی ہی دوست سے اپنے بارے میں یہ سن کر ہوا کہ وہ کتنا زیادہ موٹا ہے۔ کسی کے بھی بارے میں جسمانی طور پر ایسے نقص کا برملا اظہار کرکے کسی کا دل دکھانا، کتنے افسوس کی بات ہے۔ فہد بہت دکھی تھا، لیکن اس کے دوستوں نے اسے اس موقع پر سہارا دیا، اور اکیلا نہیں چھوڑا۔ والدین نے بھی اس کےلیے خود سے لڑکی پسند کرنے میں دیر نہیں کی، اور یوں اس کی شادی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی بیوی حاملہ ہوئی، مگر کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے اسقاط حمل ہوا۔ اس کے بعد تین سال تک وہ حاملہ نہیں ہوسکی۔ اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا، اور اسی رمضان سے پہلے اس کی بیوی نے خلع لے لی۔ خلع کےلیے جو وجوہات بتائیں ان میں سے ایک تو یہ کہ وہ ماں نہیں بن رہی، لڑکے میں مسئلہ ہے، اور دوسری وجہ لڑکا موٹا ہے۔
فہد کی دوست جس نے اسے شادی سے منع کیا تھا، اس کی شادی اس سے بھی دگنا موٹے شخص سے ہوئی۔ فرق یہ تھا کہ اس کے پاس امریکا کا گرین کارڈ تھا۔ اس کا مطلب پیسہ ہونا آپ کے سب عیب چھپا دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس لڑکی کو موٹا جو نہیں لگا۔ اگر آپ نے شادی سے منع کرنا ہے، یا خلع لینی ہے تو اس کےلیے کسی کے خدوخال کو وجہ بنانا آخر کیوں ضروری ہے؟ یہ ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، تو مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ فہد اگر اس لڑکی کو موٹا لگا تو اس کا شوہر اسے موٹا کیوں نہیں لگا، جو کہ اس سے سائز میں ڈبل ہے، یا پھر دوسرے کی دولت کا چشمہ جب لگتا ہے تو موٹا بھی ہینڈسم ہی نظر آتا ہے۔ یہ سب ابھی ہوا ہے تو فہد بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں ہے۔ اس کی فیملی اور اس کے دوست اسے ایک بار پھر سے زندگی کا طرف لانے میں کوشاں ہیں۔ آپ اس شخص کی ذہنی تکلیف کو محسوس کرسکتے ہیں، جسے دو بار جسمانی طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔
لڑکوں کے ریجیکشن کے واقعات کم ہی سننے کو ملتے ہیں جو شکل، یا جسمانی لحاظ سے انکار میں بدلے۔ لڑکیوں کو افسوس ہمارے معاشرے میں ان خرافات کا سامنا سب سے زیادہ ہے۔ لڑکے کی ماں جب دلہن ڈھونڈتی ہے تو اسے چاند جیسی بہو چاہیے، جس کی وجہ سے رات میں چاندنی ہوجائے۔ لیکن خود کا بیٹا ایسا کہ دن کی روشنی میں بھی نظر نہ آئے۔ اس لیے ہمارے ملک میں کاسمیٹکس کے نام پر سب سے زیادہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بکتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں یورپ اور امریکا میں چہرے کی حفاظت کی کریمیں زیادہ بکتی ہیں۔ یہ فرق ہے ذہنیت، تعلیم، اور شعور کا۔ جس کا ہمارے معاشرے میں بہت فقدان ہے۔ کیوں کہ چہرے کی حفاظت ضروری ہے نہ کہ اس کا گورا ہونا۔ چہرہ بھی گورا کیا جاسکتا ہے، یہ وہم، اور جنون آپ کو صرف ایشیا ہی میں ملے گا۔ ہمارے جو کمرشلز ہیں، کریمز، صابن، فیس واش وغیرہ کے، سب کا نچوڑ ایک ہی ہے، رنگ ہوجائے گورا فٹافٹ، اور شادی ہوجائے جھٹ پٹ۔
شادی کےلیے رنگ گورا ہونا ہی ضروری ہوتا تو گوروں میں تو طلاقیں ہوتی ہی نہیں، مگر وہاں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہمارے ڈراموں میں اس اہم موضوع کو کامیڈی کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جیسے کہ چھوٹی بہن گوری ہے، اس کے رشتے آرہے ہیں کردو شادی۔ بڑی کیوں کہ سانولی ہے، اس کا رشتہ مشکل ہے، بچی میں گن تو سارے ہیں، بس رنگ میں مات کھا گئی۔ جیسے باقی سب تو آرڈر پر تیار ہوئے، بس وہی بیچاری رہ گئی تھی۔
رشتے کےلیے تو لڑکی کو پورا اسکین کیا جاتا ہے۔ رنگ روپ، چال ڈھال، نین نقش، بولنے کا انداز، غرض ہر لحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ یہ سب ڈراموں میں ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں یہ سب ہورہا ہے۔ اور آپ اس لڑکی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں، جسے اس کی شخصیت کے بجائے جسمانی لحاظ سے پرکھا جائے۔ اگر آپ کو کوئی رشتہ پسند نہیں ہے تو خدارا اس کی بظاہر شکل و صورت پر طنزیہ باتیں نہ کریں۔
ہمارے مذہب میں کسی کو برے لقب، یا نام سے بلانے کی سختی سے ممانعت ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں تو لوگوں کے طنزیہ نام رکھنا گھٹی میں شامل ہے۔ اور پھر شادی بیاہ جیسے معاملات میں اس حوالے سے لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ہر ایک کو اللہ تعالی نے بنایا ہے، اس نے ہر ایک کو جیسا بھی بنایا ہے، کامل بنایا ہے۔
شادی کے حوالے سے ہمارے نبیؐ کی بہت خوبصورت حدیث ہے کہ ''عورت سے شادی چار وجہ سے کی جاتی ہے: دولت، خوبصورتی، حسب نسب، اور دین، اور بہتر وہ ہے جو دین کا انتخاب کرے۔''
اس حدیث میں شادی کی بنیاد کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت اگر پہلی تین چیزوں میں سے کسی کو بھی فوقیت دی تو وہ دنیاوی ہیں، ان کا فائدہ دنیا میں ہے۔ لیکن اگر انتخاب دین کو کیا تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے گی۔ آج کل جو مسئلے درپیش ہیں شادی کے حوالے سے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ رشتہ کرتے وقت پہلی تین چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی کتنا ہی اخلاق میں اچھا اور دین دار کیوں نہ ہو، ہم نے اہمیت دولت اور شکل و صورت کو ہی دینی ہے۔
اس کے نتائج بھی آج ہمارے سامنے ہیں: طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، گھروں میں ناچاقیاں، ذہنی نفسیاتی مسائل، لڑائی جھگڑے، اور بے سکونی، وغیرہ کی شکل میں۔ ایسے رشتے زیادہ ٹکتے بھی نہیں ہیں جو کہ دنیاوی سازوسامان کو دیکھ کر کیے جائیں۔ کسی بھی لڑکی یا لڑکے کےلیے رشتے تو بہت آتے ہیں، لیکن شادی جہاں قسمت میں لکھی ہو، وہیں ہوتی ہے۔ تو رشتے سے انکار کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس کسی کی شکل و صورت کو ٹارگٹ نہ کرتے ہوئے اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر منع کریں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فہد کو انکار کا اتنا دکھ نہیں تھا، جتنا اسے اپنی ہی دوست سے اپنے بارے میں یہ سن کر ہوا کہ وہ کتنا زیادہ موٹا ہے۔ کسی کے بھی بارے میں جسمانی طور پر ایسے نقص کا برملا اظہار کرکے کسی کا دل دکھانا، کتنے افسوس کی بات ہے۔ فہد بہت دکھی تھا، لیکن اس کے دوستوں نے اسے اس موقع پر سہارا دیا، اور اکیلا نہیں چھوڑا۔ والدین نے بھی اس کےلیے خود سے لڑکی پسند کرنے میں دیر نہیں کی، اور یوں اس کی شادی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی بیوی حاملہ ہوئی، مگر کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے اسقاط حمل ہوا۔ اس کے بعد تین سال تک وہ حاملہ نہیں ہوسکی۔ اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا، اور اسی رمضان سے پہلے اس کی بیوی نے خلع لے لی۔ خلع کےلیے جو وجوہات بتائیں ان میں سے ایک تو یہ کہ وہ ماں نہیں بن رہی، لڑکے میں مسئلہ ہے، اور دوسری وجہ لڑکا موٹا ہے۔
فہد کی دوست جس نے اسے شادی سے منع کیا تھا، اس کی شادی اس سے بھی دگنا موٹے شخص سے ہوئی۔ فرق یہ تھا کہ اس کے پاس امریکا کا گرین کارڈ تھا۔ اس کا مطلب پیسہ ہونا آپ کے سب عیب چھپا دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس لڑکی کو موٹا جو نہیں لگا۔ اگر آپ نے شادی سے منع کرنا ہے، یا خلع لینی ہے تو اس کےلیے کسی کے خدوخال کو وجہ بنانا آخر کیوں ضروری ہے؟ یہ ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، تو مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ فہد اگر اس لڑکی کو موٹا لگا تو اس کا شوہر اسے موٹا کیوں نہیں لگا، جو کہ اس سے سائز میں ڈبل ہے، یا پھر دوسرے کی دولت کا چشمہ جب لگتا ہے تو موٹا بھی ہینڈسم ہی نظر آتا ہے۔ یہ سب ابھی ہوا ہے تو فہد بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں ہے۔ اس کی فیملی اور اس کے دوست اسے ایک بار پھر سے زندگی کا طرف لانے میں کوشاں ہیں۔ آپ اس شخص کی ذہنی تکلیف کو محسوس کرسکتے ہیں، جسے دو بار جسمانی طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔
لڑکوں کے ریجیکشن کے واقعات کم ہی سننے کو ملتے ہیں جو شکل، یا جسمانی لحاظ سے انکار میں بدلے۔ لڑکیوں کو افسوس ہمارے معاشرے میں ان خرافات کا سامنا سب سے زیادہ ہے۔ لڑکے کی ماں جب دلہن ڈھونڈتی ہے تو اسے چاند جیسی بہو چاہیے، جس کی وجہ سے رات میں چاندنی ہوجائے۔ لیکن خود کا بیٹا ایسا کہ دن کی روشنی میں بھی نظر نہ آئے۔ اس لیے ہمارے ملک میں کاسمیٹکس کے نام پر سب سے زیادہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بکتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں یورپ اور امریکا میں چہرے کی حفاظت کی کریمیں زیادہ بکتی ہیں۔ یہ فرق ہے ذہنیت، تعلیم، اور شعور کا۔ جس کا ہمارے معاشرے میں بہت فقدان ہے۔ کیوں کہ چہرے کی حفاظت ضروری ہے نہ کہ اس کا گورا ہونا۔ چہرہ بھی گورا کیا جاسکتا ہے، یہ وہم، اور جنون آپ کو صرف ایشیا ہی میں ملے گا۔ ہمارے جو کمرشلز ہیں، کریمز، صابن، فیس واش وغیرہ کے، سب کا نچوڑ ایک ہی ہے، رنگ ہوجائے گورا فٹافٹ، اور شادی ہوجائے جھٹ پٹ۔
شادی کےلیے رنگ گورا ہونا ہی ضروری ہوتا تو گوروں میں تو طلاقیں ہوتی ہی نہیں، مگر وہاں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہمارے ڈراموں میں اس اہم موضوع کو کامیڈی کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جیسے کہ چھوٹی بہن گوری ہے، اس کے رشتے آرہے ہیں کردو شادی۔ بڑی کیوں کہ سانولی ہے، اس کا رشتہ مشکل ہے، بچی میں گن تو سارے ہیں، بس رنگ میں مات کھا گئی۔ جیسے باقی سب تو آرڈر پر تیار ہوئے، بس وہی بیچاری رہ گئی تھی۔
رشتے کےلیے تو لڑکی کو پورا اسکین کیا جاتا ہے۔ رنگ روپ، چال ڈھال، نین نقش، بولنے کا انداز، غرض ہر لحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ یہ سب ڈراموں میں ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں یہ سب ہورہا ہے۔ اور آپ اس لڑکی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں، جسے اس کی شخصیت کے بجائے جسمانی لحاظ سے پرکھا جائے۔ اگر آپ کو کوئی رشتہ پسند نہیں ہے تو خدارا اس کی بظاہر شکل و صورت پر طنزیہ باتیں نہ کریں۔
ہمارے مذہب میں کسی کو برے لقب، یا نام سے بلانے کی سختی سے ممانعت ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں تو لوگوں کے طنزیہ نام رکھنا گھٹی میں شامل ہے۔ اور پھر شادی بیاہ جیسے معاملات میں اس حوالے سے لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ہر ایک کو اللہ تعالی نے بنایا ہے، اس نے ہر ایک کو جیسا بھی بنایا ہے، کامل بنایا ہے۔
شادی کے حوالے سے ہمارے نبیؐ کی بہت خوبصورت حدیث ہے کہ ''عورت سے شادی چار وجہ سے کی جاتی ہے: دولت، خوبصورتی، حسب نسب، اور دین، اور بہتر وہ ہے جو دین کا انتخاب کرے۔''
اس حدیث میں شادی کی بنیاد کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت اگر پہلی تین چیزوں میں سے کسی کو بھی فوقیت دی تو وہ دنیاوی ہیں، ان کا فائدہ دنیا میں ہے۔ لیکن اگر انتخاب دین کو کیا تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے گی۔ آج کل جو مسئلے درپیش ہیں شادی کے حوالے سے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ رشتہ کرتے وقت پہلی تین چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی کتنا ہی اخلاق میں اچھا اور دین دار کیوں نہ ہو، ہم نے اہمیت دولت اور شکل و صورت کو ہی دینی ہے۔
اس کے نتائج بھی آج ہمارے سامنے ہیں: طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، گھروں میں ناچاقیاں، ذہنی نفسیاتی مسائل، لڑائی جھگڑے، اور بے سکونی، وغیرہ کی شکل میں۔ ایسے رشتے زیادہ ٹکتے بھی نہیں ہیں جو کہ دنیاوی سازوسامان کو دیکھ کر کیے جائیں۔ کسی بھی لڑکی یا لڑکے کےلیے رشتے تو بہت آتے ہیں، لیکن شادی جہاں قسمت میں لکھی ہو، وہیں ہوتی ہے۔ تو رشتے سے انکار کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس کسی کی شکل و صورت کو ٹارگٹ نہ کرتے ہوئے اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر منع کریں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔