ججوں کی تعیناتی قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی میں قواعد و ضوابط میں ترمیم کا معاملہ موخر
عدلیہ کو کئی مشکلات درپیش ہیں جن میں جوڈیشل افسران اور انفرا اسٹرکچر کی کمی نمایاں ہے،چیف جسٹس
قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی نے ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں قواعد و ضوابط میں ترمیم کا معاملہ موخر کردیا۔
اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں قومی پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس جاری ہے،اجلاس میں پانچوں ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان اور ججوں نے شرکت کی، اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے قواعدمیں ترامیم پر پارلیمانی کمیٹی اور بار کونسلز کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ جوڈیشنل کمیشن نے قرار دیا کہ ججوں کی تعیناتی کے قواعد سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ کی جانب سے 18 ویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں کیس کے عبوری فیصلے کی روشنی میں بنائے گئے ہیں، عبوری حکم نومبر 2011 میں آیا جس کے بعد سے اب تک کیس کو سنا ہی نہیں گیا اور اس عبوری حکم تک ان قواعد میں ترامیم نہیں ہو سکتی، اس لئے قواعد و ضوابط میں ترامیم کا معاملہ موخر کردیا گیا ہے۔
اجلاس کے آغاز پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کمیشن اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے رہا ہے، باقاعدگی سے اس کے اجلاس ہورہے ہیں اور کمیشن مکمل طور پر فعال ہے، اعلیٰ عدلیہ کے ججز آئین اورقانون کے مطابق انصاف فراہم کررہے ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بہت سے مقدمے التوا کا شکار ہیں اور فیصلے نہیں ہوتے، اس سلسلے میں یہ بات کہنے والوں کو زمینی حقائق بھی مد نظررکھنے چاہئیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو کئی مشکلات درپیش ہیں جن میں جوڈیشل افسران اور انفرا اسٹرکچر کی کمی نمایاں ہے، جوڈیشنل افسران کی تقرری کی منظوری دینے والے اداروں سے آبادی کی بنیاد پر ججوں کے تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم اس میں پنجاب کے علاوہ کسی صوبے نے کام نہیں کیا ، غرض کہ وفاقی حکومت نے بھی ججوں کی کمی کے معاملے کو حل نہیں کیا،اس کے علاوہ فنڈز کی کمی کا معاملہ کئی بارحکومت کے سامنے اٹھایا گیا ہے جسے حکومت نے تاحال حل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت اجاگرکرنے کی ضرورت ہے جلد ہی عدلیہ میں بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرایا جائے گا۔
اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں قومی پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس جاری ہے،اجلاس میں پانچوں ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان اور ججوں نے شرکت کی، اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے قواعدمیں ترامیم پر پارلیمانی کمیٹی اور بار کونسلز کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ جوڈیشنل کمیشن نے قرار دیا کہ ججوں کی تعیناتی کے قواعد سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ کی جانب سے 18 ویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں کیس کے عبوری فیصلے کی روشنی میں بنائے گئے ہیں، عبوری حکم نومبر 2011 میں آیا جس کے بعد سے اب تک کیس کو سنا ہی نہیں گیا اور اس عبوری حکم تک ان قواعد میں ترامیم نہیں ہو سکتی، اس لئے قواعد و ضوابط میں ترامیم کا معاملہ موخر کردیا گیا ہے۔
اجلاس کے آغاز پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کمیشن اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے رہا ہے، باقاعدگی سے اس کے اجلاس ہورہے ہیں اور کمیشن مکمل طور پر فعال ہے، اعلیٰ عدلیہ کے ججز آئین اورقانون کے مطابق انصاف فراہم کررہے ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بہت سے مقدمے التوا کا شکار ہیں اور فیصلے نہیں ہوتے، اس سلسلے میں یہ بات کہنے والوں کو زمینی حقائق بھی مد نظررکھنے چاہئیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو کئی مشکلات درپیش ہیں جن میں جوڈیشل افسران اور انفرا اسٹرکچر کی کمی نمایاں ہے، جوڈیشنل افسران کی تقرری کی منظوری دینے والے اداروں سے آبادی کی بنیاد پر ججوں کے تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم اس میں پنجاب کے علاوہ کسی صوبے نے کام نہیں کیا ، غرض کہ وفاقی حکومت نے بھی ججوں کی کمی کے معاملے کو حل نہیں کیا،اس کے علاوہ فنڈز کی کمی کا معاملہ کئی بارحکومت کے سامنے اٹھایا گیا ہے جسے حکومت نے تاحال حل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت اجاگرکرنے کی ضرورت ہے جلد ہی عدلیہ میں بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرایا جائے گا۔