ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
پاکستانی آئین کے مطابق علاج ومعالجے کی مفت سہولت عوام کا بنیادی حق ہے۔
'' اس دوا کا پورا پیکٹ میں نے پچھلے مہینے نو سو روپے کا خریدا تھا اور آپ آج پندرہ سو روپے کا پیکٹ دے رہے ہیں، کیسے اتنی جلدی قیمت بڑھ سکتی ہے؟''
'' میڈم ہوسکتا ہے ایسا ہوا ہو، مگر اب خود ہماری خرید اسی قیمت پر ہے، پیچھے مارکیٹ میںہی شارٹ ہے، اس لیے مہنگی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں ، آپ کو نہیں لینا تو مت لیں۔''
'' کیسے نہیں لیں ہمارے مر یض کے لیے ضروری ہے''
خاتون نے بے بسی سے کہا اور رقم دے دی۔
یہ ایک واقعہ نہیں ، ایسے کتنے ہی واقعات ہم پاکستانیوں کو اکثر پیش آتے ہیں۔ اشیائے خوردنی کے ساتھ دوائوں کی قیمتیں بھی آئے دن بڑھتی رہتی ہیں۔ ڈرگسٹ بھی اپنے فائدے کے لیے دوائو ں کو مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں، دوا شارٹ ہے کا رونا روتے ہوئے زیادہ قیمت میں فروخت کرتے ہیں۔ ہر فارمیسی پر آپ کو دوائوں کی قیمت الگ ملے گی، جس کا دکان مالک اپنی مرضی سے تعین کرتا ہے، جو ادویات ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں، وہ اس قدرگراں کر دی جاتی ہیںکہ بلبلا کر خریدنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا ، اب وہ دوائیں جن کے بارے میں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ دوائیں بالکل نہیں چھوڑنی، مگر ایک دن کی خوراک ہی تین سو سے پانچ سو تک ہو، ایسے میں ایک عام آدمی کس طرح بلاناغہ دوا لے سکتا ہے۔
لازمی سی بات ہے، وہ ایک دو دن کی خوراک ضرور اسکیپ کرتا ہے ۔ ایک طرف دوائیں مہنگی ہیں تو دوسری جانب جعلی ادویات کا کاروبار بھی عروج پر ہے جو ادویات پوری دنیا میں مضرصحت قرار دے کر بند کی جا چکی ہو، وہ ہمارے ملک میں عام فروخت کے لیے دستیاب ہے، سرکاری اسپتالوں کی حالت اور زیادہ خراب ہے، سرکاری اداروں میں دوائیں ملتی نہیں ، کیونکہ وہ پہلے ہی عملے کی ملی بھگت سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں لاڑکانہ سندھ کے گورنمنٹ اسپتال کا واقعہ افسوسناک ہے کہ ڈاکٹر اور عملے کی غفلت کے نتیجے میں تین سو سے زائد مریض ایڈزکا شکار ہوگئے، محض ایک سرنج کی قیمت بچانے کے چکر میں استعمال شدہ سرنج سب مریضوں کو لگاتے رہے، نتیجتا سب ہی ایڈزکا شکار ہوگئے ، ایسے واقعات کسی المیے سے کم نہیں، جن کی زندگیاں تباہ ہوگئیں ، اس کا حساب کون دے گا،کتنا بڑا ظلم ہوگیا ، ان غریبوں کے ساتھ اورکیا معلوم اس سے بھی بڑے سانحے ہمارے منتظر ہوں۔
1976ء کے ڈرگ ایکٹ کے تحت جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید ہے مگر افسوس کہ آج تک کسی کو اس قانون کے تحت سزا نہیں ملی ، مجرم چند سو روپے دے کر اپنی خلاصی کرواتے ہیں اوردوبارہ اسی کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ چند برس قبل لاہور میںایک دوا سازکمپنی کی تیارکردہ کھانسی کے سیرپ پینے سے کئی درجن افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ خبرکئی دنوں تک اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی رہی لگا جیسے اب مجرموں کو سزا ضرور ملے گی لیکن افسوس کہ کیس چلتا رہتا ہے اور سزا کا تعین ہو نہیں پاتا ۔کیا جعلی میڈیسن استعمال کرنے والے متاثرین کے بلاواسطہ قتل کے ذمے دار جعلی دوا بنانے والے ادارے یا خرید وفروخت کرنے والوں کے سر نہیں ، انسانی زندگی سے کھیلنے والے ان گناہگاروںکو گرفتار کرنا، انھیں سزا دلانا ایک بہت صبر آزما اور مشکل کام ہے یہ جرم معاشرے میں کینسرکی طرح پھیل چکا ہے، اس مافیا کے خلاف ارباب اختیار خاموش ہیں، کوئی حتمی بر وقت فیصلہ کرنے کی جسارت نہیں کرتا، ایک عام آدمی کی زندگی اسی دن ختم ہو جاتی ہے، جس دن اہم معاملات پر حکمران خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ، افسوس کہ ادویات سازی ایک ایسا منافع بخش گھنائونا کاروبار بن گیا ہے کہ لالچ نے آخرت کے انجام سے بے خبرکر دیا ہے۔
پرانے زمانے میں طبیب عوام سے فیس نہیں لیتے تھے ، ان کی گزر اوقات بادشاہوں ، نوابوں اور مہاراجائوں کی علاج وصحتیابی کے بعد انعام واکرام پر ہوا کرتی، آج ہمارے ڈاکٹروں کی کسی مریض کی صحتیابی سے زیادہ اپنی فیس کی فکر لاحق رہتی ہے ، غریب آدمی اگر بیمار ہو جائے تو اس کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ، ڈاکٹروں کی فیس اور دوائوں کا حصول کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غیر حاضری ، دوائوں کی عدم دستیابی ، عملے کی سرد مہری، مشینری کی خراب حالت اور طویل انتظار دیکھ کر تو مریض دعا کرتا ہے ، بیماری سے تو بہتر تھا کہ موت آ جاتی ، اس قدر تذلیل کے بعد چند رنگ برنگی گولیاں اور لال شربت سے کیا حاصل ؟
پاکستانی آئین کے مطابق علاج ومعالجے کی مفت سہولت عوام کا بنیادی حق ہے۔ ارباب اختیارکو اس جانب صرف توجہ ہی نہیں بلکہ ایک مستقل بنیاد پر لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے کہ کوئی فارمسٹ یا ادارہ اپنی مرضی سے دوائوں کی خرید و فروخت یا قیمتوں میں ردوبدل نہ کرسکے، جعلی دوائیں مارکیٹ تک نہ پہنچ سکیں جس طرح فوجی عدالتیں دہشت گردی کے سدباب کے لیے فوری فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے سے وابستہ تمام جرائم بھی ایک الگ پینل کورٹ کے سپرد کیے جائیں جو صرف عوامی صحت کے مسائل کے لیے مختص ہو جس تک غریب لوگوں کی رسائی ہو ، انھیں اپنے کیس کے دفاع میں قابل سرکاری وکلاء مفت فراہم کیے جائیں ، تاکہ مریض کو اپنی شکایات کا فوری حل مل سکے، جلد انصاف کے خوف سے شائد اس گھنائونے کاروبارکوکچھ لگام ڈالی جا سکے، کیونکہ یہ وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے.
یہ اچھی بات ہے کہ وزراء اچانک اسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں بر وقت احکامات دیتے ہیں، بہت سوں کا بھلا بھی ہوتا ہے،کچھ نشان عبرت بھی بنتے ہیں مگر اب یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے، تمام دنیا کی حکومتیں اپنی عوام کی صحت وطبی سہولتوں کے لیے مضبوط بنیادوں پر کام کرتی ہیں ، کسی پہلو پر کمپرومائز نہیں کرتی مگر ہمارے شفاخانوں کی غلام گردشوں میں قدم قدم پر آپ کو فرائض سے کوتاہی کی عام مثالیں نظر آتی ہیں، ان مسائل کو اب ہنگامی بنیادوں پر ہی حل کیا جاسکتا اور یہ کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں جوکیا نہ جاسکے ہم نے تو ایٹم بم بنا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا، بس ایمان داری سے ایک پرخلوص کوشش کی ضرورت ہے، اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر آیندہ نسل کوکرپشن سے بچا لیجیے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے وہ بہت لا دوا نہ تھے
'' میڈم ہوسکتا ہے ایسا ہوا ہو، مگر اب خود ہماری خرید اسی قیمت پر ہے، پیچھے مارکیٹ میںہی شارٹ ہے، اس لیے مہنگی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں ، آپ کو نہیں لینا تو مت لیں۔''
'' کیسے نہیں لیں ہمارے مر یض کے لیے ضروری ہے''
خاتون نے بے بسی سے کہا اور رقم دے دی۔
یہ ایک واقعہ نہیں ، ایسے کتنے ہی واقعات ہم پاکستانیوں کو اکثر پیش آتے ہیں۔ اشیائے خوردنی کے ساتھ دوائوں کی قیمتیں بھی آئے دن بڑھتی رہتی ہیں۔ ڈرگسٹ بھی اپنے فائدے کے لیے دوائو ں کو مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں، دوا شارٹ ہے کا رونا روتے ہوئے زیادہ قیمت میں فروخت کرتے ہیں۔ ہر فارمیسی پر آپ کو دوائوں کی قیمت الگ ملے گی، جس کا دکان مالک اپنی مرضی سے تعین کرتا ہے، جو ادویات ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں، وہ اس قدرگراں کر دی جاتی ہیںکہ بلبلا کر خریدنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا ، اب وہ دوائیں جن کے بارے میں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ دوائیں بالکل نہیں چھوڑنی، مگر ایک دن کی خوراک ہی تین سو سے پانچ سو تک ہو، ایسے میں ایک عام آدمی کس طرح بلاناغہ دوا لے سکتا ہے۔
لازمی سی بات ہے، وہ ایک دو دن کی خوراک ضرور اسکیپ کرتا ہے ۔ ایک طرف دوائیں مہنگی ہیں تو دوسری جانب جعلی ادویات کا کاروبار بھی عروج پر ہے جو ادویات پوری دنیا میں مضرصحت قرار دے کر بند کی جا چکی ہو، وہ ہمارے ملک میں عام فروخت کے لیے دستیاب ہے، سرکاری اسپتالوں کی حالت اور زیادہ خراب ہے، سرکاری اداروں میں دوائیں ملتی نہیں ، کیونکہ وہ پہلے ہی عملے کی ملی بھگت سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں لاڑکانہ سندھ کے گورنمنٹ اسپتال کا واقعہ افسوسناک ہے کہ ڈاکٹر اور عملے کی غفلت کے نتیجے میں تین سو سے زائد مریض ایڈزکا شکار ہوگئے، محض ایک سرنج کی قیمت بچانے کے چکر میں استعمال شدہ سرنج سب مریضوں کو لگاتے رہے، نتیجتا سب ہی ایڈزکا شکار ہوگئے ، ایسے واقعات کسی المیے سے کم نہیں، جن کی زندگیاں تباہ ہوگئیں ، اس کا حساب کون دے گا،کتنا بڑا ظلم ہوگیا ، ان غریبوں کے ساتھ اورکیا معلوم اس سے بھی بڑے سانحے ہمارے منتظر ہوں۔
1976ء کے ڈرگ ایکٹ کے تحت جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید ہے مگر افسوس کہ آج تک کسی کو اس قانون کے تحت سزا نہیں ملی ، مجرم چند سو روپے دے کر اپنی خلاصی کرواتے ہیں اوردوبارہ اسی کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ چند برس قبل لاہور میںایک دوا سازکمپنی کی تیارکردہ کھانسی کے سیرپ پینے سے کئی درجن افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ خبرکئی دنوں تک اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی رہی لگا جیسے اب مجرموں کو سزا ضرور ملے گی لیکن افسوس کہ کیس چلتا رہتا ہے اور سزا کا تعین ہو نہیں پاتا ۔کیا جعلی میڈیسن استعمال کرنے والے متاثرین کے بلاواسطہ قتل کے ذمے دار جعلی دوا بنانے والے ادارے یا خرید وفروخت کرنے والوں کے سر نہیں ، انسانی زندگی سے کھیلنے والے ان گناہگاروںکو گرفتار کرنا، انھیں سزا دلانا ایک بہت صبر آزما اور مشکل کام ہے یہ جرم معاشرے میں کینسرکی طرح پھیل چکا ہے، اس مافیا کے خلاف ارباب اختیار خاموش ہیں، کوئی حتمی بر وقت فیصلہ کرنے کی جسارت نہیں کرتا، ایک عام آدمی کی زندگی اسی دن ختم ہو جاتی ہے، جس دن اہم معاملات پر حکمران خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ، افسوس کہ ادویات سازی ایک ایسا منافع بخش گھنائونا کاروبار بن گیا ہے کہ لالچ نے آخرت کے انجام سے بے خبرکر دیا ہے۔
پرانے زمانے میں طبیب عوام سے فیس نہیں لیتے تھے ، ان کی گزر اوقات بادشاہوں ، نوابوں اور مہاراجائوں کی علاج وصحتیابی کے بعد انعام واکرام پر ہوا کرتی، آج ہمارے ڈاکٹروں کی کسی مریض کی صحتیابی سے زیادہ اپنی فیس کی فکر لاحق رہتی ہے ، غریب آدمی اگر بیمار ہو جائے تو اس کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ، ڈاکٹروں کی فیس اور دوائوں کا حصول کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غیر حاضری ، دوائوں کی عدم دستیابی ، عملے کی سرد مہری، مشینری کی خراب حالت اور طویل انتظار دیکھ کر تو مریض دعا کرتا ہے ، بیماری سے تو بہتر تھا کہ موت آ جاتی ، اس قدر تذلیل کے بعد چند رنگ برنگی گولیاں اور لال شربت سے کیا حاصل ؟
پاکستانی آئین کے مطابق علاج ومعالجے کی مفت سہولت عوام کا بنیادی حق ہے۔ ارباب اختیارکو اس جانب صرف توجہ ہی نہیں بلکہ ایک مستقل بنیاد پر لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے کہ کوئی فارمسٹ یا ادارہ اپنی مرضی سے دوائوں کی خرید و فروخت یا قیمتوں میں ردوبدل نہ کرسکے، جعلی دوائیں مارکیٹ تک نہ پہنچ سکیں جس طرح فوجی عدالتیں دہشت گردی کے سدباب کے لیے فوری فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے سے وابستہ تمام جرائم بھی ایک الگ پینل کورٹ کے سپرد کیے جائیں جو صرف عوامی صحت کے مسائل کے لیے مختص ہو جس تک غریب لوگوں کی رسائی ہو ، انھیں اپنے کیس کے دفاع میں قابل سرکاری وکلاء مفت فراہم کیے جائیں ، تاکہ مریض کو اپنی شکایات کا فوری حل مل سکے، جلد انصاف کے خوف سے شائد اس گھنائونے کاروبارکوکچھ لگام ڈالی جا سکے، کیونکہ یہ وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے.
یہ اچھی بات ہے کہ وزراء اچانک اسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں بر وقت احکامات دیتے ہیں، بہت سوں کا بھلا بھی ہوتا ہے،کچھ نشان عبرت بھی بنتے ہیں مگر اب یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے، تمام دنیا کی حکومتیں اپنی عوام کی صحت وطبی سہولتوں کے لیے مضبوط بنیادوں پر کام کرتی ہیں ، کسی پہلو پر کمپرومائز نہیں کرتی مگر ہمارے شفاخانوں کی غلام گردشوں میں قدم قدم پر آپ کو فرائض سے کوتاہی کی عام مثالیں نظر آتی ہیں، ان مسائل کو اب ہنگامی بنیادوں پر ہی حل کیا جاسکتا اور یہ کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں جوکیا نہ جاسکے ہم نے تو ایٹم بم بنا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا، بس ایمان داری سے ایک پرخلوص کوشش کی ضرورت ہے، اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر آیندہ نسل کوکرپشن سے بچا لیجیے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے وہ بہت لا دوا نہ تھے