مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین
پروفیسر غازی علم الدین زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
''مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین'' کے عنوان سے جو کتاب حفیظ الرحمن احسن نے مرتب کی ہے وہ متنوع مزاج و فکر کے حامل افراد کے رنگا رنگ مکاتیب پر مشتمل ہے۔ حفیظ کہتے ہیں کہ ان خطوط میں غازی صاحب کی تصانیف، لسانی نظریات اور اسلوب پرکھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے۔
اس مجموعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل زیادہ تر خطوط اردو زبان سے متعلق لسانی مباحث، شخصی مطالعات اور علمی و ادبی موضوعات پر مبنی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ایک قابل قدر ارمغان علمی کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی ایک اپنی تاریخی حیثیت بھی ہے۔
بمبئی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو، ڈاکٹر عبدالستار دلوی اپنے مقدمے میں فرماتے ہیں کہ یہ خطوط جو مختلف عالموں، ادیبوں اور محققین نے لکھے ہیں ، ان میں جہاں لسانی امور زیر بحث آئے ہیں وہاں علمی اور ادبی شخصیات کے خاکوں کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ پروفیسر غازی علم الدین زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے بہت غوروخوض کے بعد اور ڈوب کر اٹھایا ہے۔ ان کی کتاب ''لسانی مطالعے'' پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اس علم میں اختصاص حاصل ہے۔
حفیظ احسن کے مرتب کردہ اس مجموعے میں پروفیسر غازی علم الدین کے نام ایک خط ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا شامل ہے جس میں انھوں نے '' لسانی مطالعے'' پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''آپ کو اردو الفاظ اور تراکیب کی ساخت، ان کے اطلاق اور اس اطلاق کے جواز سے جو خصوصی دلچسپی ہے، آپ کی تحریریں اس کی آئینہ دار ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس سلسلے میں آپ کے ساتھ لفظ بہ لفظ اور بہ تمام وکمال اتفاق کیا جائے۔ اس میدان میں اختلاف، اتفاق سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف فکرونظر کی نئی راہیں سجھاتا ہے جب کہ کامل اتفاق ان راہوں کو مسدود کردیتا ہے۔ کتاب میں شامل آپ کے مضامین کی اصل اہمیت بھی یہی ہے کہ ان کے مطالعے سے قاری کے ذہن کے کتنے گوشے منور ہوجاتے ہیں جو اسے سوچنے پر آمادہ کرتے اور اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔''
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط اس کتاب کے بارے میں اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ یہ اردو کا سماجی لسانی مطالعہ ہے۔ اردو میں اس نوع کے صرف مضامین لکھے گئے تھے، آپ نے ایک مبسوط کتاب ہمیں دے دی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد نے بھی غازی صاحب کے نام اپنے خط میں '' لسانی مطالعے '' پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تین مقالے اس کتاب میں آپ کی زبان شناسی کے ساتھ ساتھ ہر اس پاکستانی کے دل کی آواز ہیں جو اس ملک کو متحد دیکھنا چاہتا ہے۔ ان مقالوں میں اردو کے ملی تشخص کو واضح کیا گیا ہے، نشریاتی اداروں کے حوالے سے زبان کی منفی بنت کاری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور مجموعی معاشرتی انحطاط کے زبان پر اثرات بیان کرتے ہوئے ان عوامل تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے جو اخلاقی اور سیاسی انحطاط کے نتیجے میں پیدا ہو رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنے خط میں لکھتے ہیں ''آپ نے یہاں اس وقت لسانی صورت حال کو چھیڑا ہے تو میں بھی اسی دائرے میں محدود رہتے ہوئے یہ کہوں گا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے احساس کمتری کے باعث ہے جس میں ڈیڑھ سو سال کی غلامی میں رہنے اور آج ایک بظاہر آزاد وخود مختار معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہم ہر شعبے میں مغرب کے اثرات کو قبول کر رہے ہیں اور بے دست و پا ہیں کہ مغربی معاشرت ہی نہیں، اخلاقیات اور تہذیبی و مذہبی تصورات تک کو ہم نے خود پر مسلط کرلیا ہے جس سے نکلنے کی اب بظاہرکوئی سبیل نہیں۔''
ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے مشاہیرکے لکھے ہوئے خطوط کی اہمیت کا ذکر اپنے خط میں کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ ان مکتوبات کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان میں اپنی نجی زندگی کے تمام موسم اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی مسلمہ ہے۔ مکتوب نگارکی تاب سخن کے اعجاز سے فکرونظر کے متعدد دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے ''مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین'' کی ایک خصوصیت کا ذکر ''حرفے چند'' میں کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ''مکتوب نگاروں میں بعض بزرگ ، زبان داں اور علام اہل قلم بھی شامل ہیں۔ چنانچہ ان مکاتیب میں جہاں بعض اہم علمی و لسانی مباحث و مسائل پر عالمانہ گفتگو ملتی ہے وہاں درد و سوز آرزو مندی بھی جھلکتی ہے۔ ان خطوط میں بعض نہایت دلچسپ نکات اور بعض ادبی مناقشوں کا حال بھی موجود ہے، کہیں بین السطور میں اور کہیں کھلے الفاظ میں۔ ایک قابل قدر بات یہ ہے کہ اہل علم نے جن خطوط میں غازی صاحب کی بعض تحریروں یا ان کے بعض خیالات سے اختلاف کیا ہے ان خطوط کو بھی غازی صاحب نے بڑی کشادہ دہنی اور فراخ دلی سے جوں کا توں شامل کردیا ہے۔
سید معراج جامی اپنے خط میں لکھتے ہیں ''آپ یہ سمجھ لیجیے غازی صاحب کہ آپ نے اردو زبان و بیان کی چھوٹی موٹی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کی جانب جو اشارہ کیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ عربی اور فارسی کے عالم ہیں۔ اگر آپ نے اردو میں ماسٹر کیا ہوتا یا ادب کے ڈاکٹر ہوتے تو پھر آپ کی نظریں ان باریک باریک نقطوں پر نہ پڑتیں کیونکہ آپ اردو زبان کو عربی اور فارسی کے چشمے میں سے دیکھ رہے ہیں اور یہ آپ کا عیب نہیں ہنر ہے کہ کم ازکم آپ تو اردو زبان و بیان کی غلطیوں پر گرفت کر رہے ہیں وگرنہ آپ بھی اردو کے استاد ہوتے تو اسی ریلے میں بہہ جاتے جس میں اردو کے ماسٹر اور ڈاکٹر بہے چلے جا رہے ہیں۔''
پروفیسر غازی علم الدین کے نام خطوط کے مجموعے میں ایک خط کشمیر یونیورسٹی، سری نگر کے ڈاکٹر الطاف انجم کا ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ اس سفر میں انھیں ہندوستان کی حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کے باعث بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں ایک ان کی غازی صاحب سے ملاقات نہ ہونا بھی تھی جس کی آرزو لے کر وہ یہاں آئے تھے۔
مکتوبات کے اس مجموعے میں پروفیسر ظفر حجازی کے سات خطوط شامل ہیں جو انھوں نے دسمبر 2017ء سے اکتوبر 2018ء کے درمیان غازی صاحب کو لکھے۔ ان خطوط میں تحریک پاکستان کا ذکر ہے، ہجرت کے مسائل ہیں، ادب اور سیاست کی باتیں ہیں ، برصغیر کی مقتدر شخصیتوں کا تذکرہ ہے، علامہ اقبال، مولانا آزاد، قائد اعظم، مولانا مودودی کے افکار پر اظہار خیال ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے قانون کے پس منظر میں مسلمانوں کے مستقبل سے پرامیدی ہے۔
ظہیر جاوید، چراغ حسن حسرت کے بیٹے ہیں۔ ایک خط میں وہ غازی صاحب کو لکھتے ہیں کہ آپ کے علم میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ ''ماہیا'' پنجابی کی صنف ہے جسے سب سے پہلے اردو میں والد بزرگوار نے لکھا۔ ان کے ماہیے:
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے، ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے
کو اس دور کے بڑے گائیکوں نے اٹھا لیا۔ ان میں استاد برکت علی خاں کا زیادہ مشہور ہوا۔ گائیکوں نے اسے پہاڑی میں گایا ہے جو بہت مشکل راگ ہے۔
غلام قادر آزاد مانچسٹر سے اپنے خط میں لکھتے ہیں ''بنیادی طور پر ہمارے لیے آپ کا علمی انہماک غیر معمولی ہے۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو آپ کے اندرون ذات بند ہوکر نہیں رہ گئی بلکہ اس کا فیض عام ہوجانے کی شدید تمنا اور آرزو سے عبارت ہے۔''