آمرانہ جمہوریت کے رنگ
پاکستان میں جمہوری حقوق کی تحاریک کی ایک طویل داستان ہے بلکہ پاکستان کا وجود خود ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا۔
SEOUL:
'' یہ نہ مصر ہے اور نہ ہی نواز شریف کو مرسی بننے دیا جائے گا '' یہ وہ الفاظ ہیں جو نواز شریف کی دختر مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہے، مریم نواز کے یہ الفاظ مصر اور دیگر ممالک میں فوجی بالا دستی اور بربریت کی داستان لیے ہوئے ہیں۔
قلوپطرہ کے حسن اور خوبصورتی میں لپٹا ہوا مصر آج پوری دنیا میں فوجی فسطائیت کی ایک ایسی المناک داستان بنا ہوا ہے ، جس میں کم ازکم مصر کے عوام دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہے ، وہ مصر جسے جمال عبد الناصر نے جدوجہد اور عوامی طاقت سے ایک جمہوری راہ پر چلنے والا ملک بنانا چاہا ، وہی مصر آج فوجی جنرلز کے عوام دشمن اور بہیمانہ اقدامات کی وجہ سے تاریخ کے سنہری باب پر ایک کلنک کا ٹیکہ بنا دیا گیا ہے۔
تاریخی بہائو میں اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ صدر حسنی مبارک نے اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر مصر میں اقتدار کی گرفت کو مضبوط کرنے میں فوجی بالا دستی کو قبول کیا ، مگر جب عوامی احتجاج نے جمہوری انداز اپنایا تو حسنی مبارک کو لانے والی بیرونی اور ملکی فوجی طاقت نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور حسنی مبارک کو بظاہر نشان عبرت بنا دیا ، ِحالانکہ اصل میں حسنی مبارک سے کام لینے کی میعاد کا خاتمہ ہو چلا تھا اور چونکہ حسنی مبارک مصرکی فوجی طاقت کے سہارے عوام سے دورکر دیا گیا تھا لہذا ، جب عوام کا سیل رواں مرسی کی مذہب پرست قیادت میں گلیوںِ ، بازاروں اور سڑکوں پر نکلا تو بہت خوبصورتی سے بیرونی آقائوں نے مصر کی فوجی طاقت کو حسنی مبارک سے الگ کر کے عوام دوست بنانے کا ڈھونگ کیا جسے مرسی کی مذہب پرست قیادت نے غنیمت جان کر اپنی صفوں میں مصر کی عوام دشمن فوج کو بخوشی شامل کیا اور عوامی احتجاج کو انتخابی عمل میں ڈھال کر اکثریت سے اقتدار حاصل کیا۔
اس موقع پر مرسی کو جمہوری طریقے سے ملک کا منتخب صدر بنایا گیا ، جس نے اپنے عوام سے کیے گئے ایجنڈے پرکام کی ابتدا کی ، جس پر مصری فوج نے صدر مرسی سے تحریک کے دوران اپنا اجر مانگا ، جس کو من وعن قبول نہ کیے جانے پر مصر کی فوج کے کرتا دھرتا نے بیرونی آقائوں کے اشارے پر تیل کا بحران پیدا کیا اور اس کے بعد مرسی حکومت کی معاشی نا تجربہ کاری کا پروپیگنڈہ کرکے عوام کو صدر مرسی کی تبدیلی کے جمہوریت پسند نعرے یاد دلائے ، جس میں مصر کے فوجی جنرلوں نے عوام کے جتھوں میں گھس بیٹھیے بھیج کر صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف ایک ماحول بنایا اور مصری فوج کی بالادستی بر قرار رکھنے کی خاطر ''جمہوری اسکوائر'' پر نہتے افراد پر گولیاں چلائیں جس میں مرسی حکومت کی نہ اجازت لی گئی اور نہ ہی صدر مرسی کو مصری فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے اعتماد میں لیا،اس طرح منتخب صدر مرسی کے خلاف مصری فوج کی یہ سازش تیار کی گئی جس میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری برابر کے شریک اور مصری فوج کی پشت پر کھڑے نظر آئے۔
جب امریکی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ '' آپ تو دنیا میں جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ نے جنرل سیسی کی حکومت کو سب سے پہلے کیوں قبول کیا'' اس پر جون کیری نے جواب دیا کہ '' مصرکے عوام صدر مرسی کی پالیسیوں کے خلاف تھے لہذا مصر کو مزید تباہی سے بچانے کا واحد علاج جنرل سیسی کی حمایت تھا ۔ یہ امریکی وزیر خارجہ کا وہ منافقانہ بیان تھا جس کو آج تک درست قرار نہیں دیا جا سکتا ، یہ ایک الگ بحث ہے کہ تمام مذہبی افراد اس منافقانہ پالیسیزکو آج تک منافقت کی چادر میں لپیٹ کر دراصل آمرانہ بادشاہت اور فوجی طاقتوں کا آلہ کار بنے رہتے ہیں اور آمرانہ تسلط کو عوام سے قبول کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، جن کو سمجھنا اور ان کے کردار کو عوام کے سامنے لانا آج کی اہم ضرورت ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں دیگر بادشاہتوں کو بچانے اور اسرائیل کو اپنی من مانی کرتے رہنے کا واحد علاج امریکا کو صدر مرسی کی قربانی اور قید ہی نظر آیا جو اس نے مصر کی عوام دشمن فوج کے ساتھ مل کر کیا ، مگر تاریخ کا پہیہ نہ امریکی خواہش کا پابند ہوتا ہے اور نہ کسی جنرل یا بادشاہ کی مرضی کا پابند ، بلکہ تاریخ اپنے منطقی انجام کا تعین خود کرتی ہے جو شاید مصرکے فوجی جنرل سیسی کو بھی نہیں پتہ اور مشرق وسطیٰ کی آمرانہ بادشاہتیں بھی اب تک اس سے لا علم ہیں۔
پاکستان میں جمہوری حقوق کی تحاریک کی ایک طویل داستان ہے بلکہ پاکستان کا وجود خود ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا ، جسے بہت سے تاریخی نا بلد عسکری جدوجہد کا شاخسانہ سمجھتے ہیں جو تاریخی طور پر نہ صرف ظلم ہے بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف قدم ہے۔ پاکستان میں جمہوری آئین اور جمہوری بالادستی کو ستر برس بعد بھی قبول نہ کرنے کی منزل پر ابھی تک یہ ملک اور اس کے عوام بے دست و پا نظر آتے ہیں اور جمہوریت کے حصول کی درست سمت کی تلاش میں مسلسل بھٹک رہے ہیں جس کا مسلسل فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی رہی ہیں اور اب تک کسی نہ کسی پیرایے میں غیر جمہوری اقدامات عوام کے سامنے قومی سلامتی کے ڈھونگ فلسفے میں لائے جاتے ہیں، جس سے جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
موجودہ سلیکٹیڈ کہی جانے والی حکومت کے دور میں ''اظہار رائے کی آزادی'' پر نامعلوم انداز سے ہدایات کا آنا اور بہت ہی چابکدستی سے میڈیا مالکان سے ان پر عمل کروانا دراصل '' آمرانہ جمہوری '' دور کی وہ علامت ہے جس میں بظاہر مارشلائی نظام حکومت نظر نہیں آتا مگر حقیقت میں ملک ''آمرانہ حکومتی'' اقدامات کی لپیٹ میں بڑھایا جا رہا ہے جہاں بولنے، لکھنے اور جمہوری احتجاج کے حق کی بھی آزادی دینے سے موجودہ جمہوری کہلائی جانے والی حکومت مسلسل کوتاہی برت رہی ہے اور اکثر عوام یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جمہوری اظہار اور حق پر تو پابندیاں آمرانہ فوجی اقتدار کی نشانیاں ہوا کرتی ہیں تو موجودہ حکومت کیوں کنٹرول میڈیا ، کنٹرولڈ فاٹا الیکشن اور کنٹرولڈ عوام دشمن معاشی پالیسیاں روا رکھے ہوئے ہے، اس پر موجودہ حکومت کا طرہ یہ ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کو دائو پر لگا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے یا بتایا جا رہا ہے کہ عملا جمہوری حکومت اور ادارے غیر مرئی قوتوں کے ہاتھوں کنٹرولڈ ہیں، یہ رجحان نہ ہی تحریک انصاف اور نہ ہی کسی جمہوری سیاسی جماعت کے لیے بہتر ہے۔
آج پاکستان کے عوام کی معاشی پالیسیوں کو بیرونی امداد اور ہدایات کا دھڑلے سے پابند بنایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوام ایک وقت کی روٹی کھانے سے محروم بنا دی گئی ہے۔ بجلی گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے اس قدر دورکردی گئی ہیں کہ صرف طاقت اور ''حکمران طبقے''کے ارکان جن میں اعلیٰ آسائشات کے حامل ریٹائرڈ عسکری ، جاگیردار ، وڈیرے ، سردار اور وہ مذہبی عناصر فائدہ اٹھا سکیں جن کو حکمران طبقہ اپنا اتحادی سمجھتا ہے، باقی عوام اور جمہوری حقوق جائیں بھاڑ میں۔
اس عوام دشمن حکومتی پالیسیوں کا تسلسل عوام کی حالت زار کو اس نہج پر لے جانے کا سبب بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ جہاں عوام کا ساتھ نہ دینے والی ہر سیاسی جماعت عوام کی مجرم ہوگی اور عوام کا انتقام اور عوامی بہائو سب کو بہا کر لے جائے گا ، اس مرحلے پر مریم نوازکی یہ بات حقیقت سے قریب تر ہے کہ '' اگر اپوزیشن نے غیر جمہوری اقدامات کی حامل حکومت کے عوام دشمن اقدامات نہ روکے یا اس پر خاموش رہے تو عوام اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنا دیں گے '' اس نوشتہ دیوار کو تمام طاقتور فرعونی و غیر جمہوری ذہن سمجھ لیں وگرنہ تاریخ اور وقت کا اپنا دھارا ہوتا ہے جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔
'' یہ نہ مصر ہے اور نہ ہی نواز شریف کو مرسی بننے دیا جائے گا '' یہ وہ الفاظ ہیں جو نواز شریف کی دختر مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہے، مریم نواز کے یہ الفاظ مصر اور دیگر ممالک میں فوجی بالا دستی اور بربریت کی داستان لیے ہوئے ہیں۔
قلوپطرہ کے حسن اور خوبصورتی میں لپٹا ہوا مصر آج پوری دنیا میں فوجی فسطائیت کی ایک ایسی المناک داستان بنا ہوا ہے ، جس میں کم ازکم مصر کے عوام دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہے ، وہ مصر جسے جمال عبد الناصر نے جدوجہد اور عوامی طاقت سے ایک جمہوری راہ پر چلنے والا ملک بنانا چاہا ، وہی مصر آج فوجی جنرلز کے عوام دشمن اور بہیمانہ اقدامات کی وجہ سے تاریخ کے سنہری باب پر ایک کلنک کا ٹیکہ بنا دیا گیا ہے۔
تاریخی بہائو میں اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ صدر حسنی مبارک نے اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر مصر میں اقتدار کی گرفت کو مضبوط کرنے میں فوجی بالا دستی کو قبول کیا ، مگر جب عوامی احتجاج نے جمہوری انداز اپنایا تو حسنی مبارک کو لانے والی بیرونی اور ملکی فوجی طاقت نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور حسنی مبارک کو بظاہر نشان عبرت بنا دیا ، ِحالانکہ اصل میں حسنی مبارک سے کام لینے کی میعاد کا خاتمہ ہو چلا تھا اور چونکہ حسنی مبارک مصرکی فوجی طاقت کے سہارے عوام سے دورکر دیا گیا تھا لہذا ، جب عوام کا سیل رواں مرسی کی مذہب پرست قیادت میں گلیوںِ ، بازاروں اور سڑکوں پر نکلا تو بہت خوبصورتی سے بیرونی آقائوں نے مصر کی فوجی طاقت کو حسنی مبارک سے الگ کر کے عوام دوست بنانے کا ڈھونگ کیا جسے مرسی کی مذہب پرست قیادت نے غنیمت جان کر اپنی صفوں میں مصر کی عوام دشمن فوج کو بخوشی شامل کیا اور عوامی احتجاج کو انتخابی عمل میں ڈھال کر اکثریت سے اقتدار حاصل کیا۔
اس موقع پر مرسی کو جمہوری طریقے سے ملک کا منتخب صدر بنایا گیا ، جس نے اپنے عوام سے کیے گئے ایجنڈے پرکام کی ابتدا کی ، جس پر مصری فوج نے صدر مرسی سے تحریک کے دوران اپنا اجر مانگا ، جس کو من وعن قبول نہ کیے جانے پر مصر کی فوج کے کرتا دھرتا نے بیرونی آقائوں کے اشارے پر تیل کا بحران پیدا کیا اور اس کے بعد مرسی حکومت کی معاشی نا تجربہ کاری کا پروپیگنڈہ کرکے عوام کو صدر مرسی کی تبدیلی کے جمہوریت پسند نعرے یاد دلائے ، جس میں مصر کے فوجی جنرلوں نے عوام کے جتھوں میں گھس بیٹھیے بھیج کر صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف ایک ماحول بنایا اور مصری فوج کی بالادستی بر قرار رکھنے کی خاطر ''جمہوری اسکوائر'' پر نہتے افراد پر گولیاں چلائیں جس میں مرسی حکومت کی نہ اجازت لی گئی اور نہ ہی صدر مرسی کو مصری فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے اعتماد میں لیا،اس طرح منتخب صدر مرسی کے خلاف مصری فوج کی یہ سازش تیار کی گئی جس میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری برابر کے شریک اور مصری فوج کی پشت پر کھڑے نظر آئے۔
جب امریکی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ '' آپ تو دنیا میں جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ نے جنرل سیسی کی حکومت کو سب سے پہلے کیوں قبول کیا'' اس پر جون کیری نے جواب دیا کہ '' مصرکے عوام صدر مرسی کی پالیسیوں کے خلاف تھے لہذا مصر کو مزید تباہی سے بچانے کا واحد علاج جنرل سیسی کی حمایت تھا ۔ یہ امریکی وزیر خارجہ کا وہ منافقانہ بیان تھا جس کو آج تک درست قرار نہیں دیا جا سکتا ، یہ ایک الگ بحث ہے کہ تمام مذہبی افراد اس منافقانہ پالیسیزکو آج تک منافقت کی چادر میں لپیٹ کر دراصل آمرانہ بادشاہت اور فوجی طاقتوں کا آلہ کار بنے رہتے ہیں اور آمرانہ تسلط کو عوام سے قبول کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، جن کو سمجھنا اور ان کے کردار کو عوام کے سامنے لانا آج کی اہم ضرورت ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں دیگر بادشاہتوں کو بچانے اور اسرائیل کو اپنی من مانی کرتے رہنے کا واحد علاج امریکا کو صدر مرسی کی قربانی اور قید ہی نظر آیا جو اس نے مصر کی عوام دشمن فوج کے ساتھ مل کر کیا ، مگر تاریخ کا پہیہ نہ امریکی خواہش کا پابند ہوتا ہے اور نہ کسی جنرل یا بادشاہ کی مرضی کا پابند ، بلکہ تاریخ اپنے منطقی انجام کا تعین خود کرتی ہے جو شاید مصرکے فوجی جنرل سیسی کو بھی نہیں پتہ اور مشرق وسطیٰ کی آمرانہ بادشاہتیں بھی اب تک اس سے لا علم ہیں۔
پاکستان میں جمہوری حقوق کی تحاریک کی ایک طویل داستان ہے بلکہ پاکستان کا وجود خود ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا ، جسے بہت سے تاریخی نا بلد عسکری جدوجہد کا شاخسانہ سمجھتے ہیں جو تاریخی طور پر نہ صرف ظلم ہے بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف قدم ہے۔ پاکستان میں جمہوری آئین اور جمہوری بالادستی کو ستر برس بعد بھی قبول نہ کرنے کی منزل پر ابھی تک یہ ملک اور اس کے عوام بے دست و پا نظر آتے ہیں اور جمہوریت کے حصول کی درست سمت کی تلاش میں مسلسل بھٹک رہے ہیں جس کا مسلسل فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی رہی ہیں اور اب تک کسی نہ کسی پیرایے میں غیر جمہوری اقدامات عوام کے سامنے قومی سلامتی کے ڈھونگ فلسفے میں لائے جاتے ہیں، جس سے جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
موجودہ سلیکٹیڈ کہی جانے والی حکومت کے دور میں ''اظہار رائے کی آزادی'' پر نامعلوم انداز سے ہدایات کا آنا اور بہت ہی چابکدستی سے میڈیا مالکان سے ان پر عمل کروانا دراصل '' آمرانہ جمہوری '' دور کی وہ علامت ہے جس میں بظاہر مارشلائی نظام حکومت نظر نہیں آتا مگر حقیقت میں ملک ''آمرانہ حکومتی'' اقدامات کی لپیٹ میں بڑھایا جا رہا ہے جہاں بولنے، لکھنے اور جمہوری احتجاج کے حق کی بھی آزادی دینے سے موجودہ جمہوری کہلائی جانے والی حکومت مسلسل کوتاہی برت رہی ہے اور اکثر عوام یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جمہوری اظہار اور حق پر تو پابندیاں آمرانہ فوجی اقتدار کی نشانیاں ہوا کرتی ہیں تو موجودہ حکومت کیوں کنٹرول میڈیا ، کنٹرولڈ فاٹا الیکشن اور کنٹرولڈ عوام دشمن معاشی پالیسیاں روا رکھے ہوئے ہے، اس پر موجودہ حکومت کا طرہ یہ ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کو دائو پر لگا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے یا بتایا جا رہا ہے کہ عملا جمہوری حکومت اور ادارے غیر مرئی قوتوں کے ہاتھوں کنٹرولڈ ہیں، یہ رجحان نہ ہی تحریک انصاف اور نہ ہی کسی جمہوری سیاسی جماعت کے لیے بہتر ہے۔
آج پاکستان کے عوام کی معاشی پالیسیوں کو بیرونی امداد اور ہدایات کا دھڑلے سے پابند بنایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوام ایک وقت کی روٹی کھانے سے محروم بنا دی گئی ہے۔ بجلی گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے اس قدر دورکردی گئی ہیں کہ صرف طاقت اور ''حکمران طبقے''کے ارکان جن میں اعلیٰ آسائشات کے حامل ریٹائرڈ عسکری ، جاگیردار ، وڈیرے ، سردار اور وہ مذہبی عناصر فائدہ اٹھا سکیں جن کو حکمران طبقہ اپنا اتحادی سمجھتا ہے، باقی عوام اور جمہوری حقوق جائیں بھاڑ میں۔
اس عوام دشمن حکومتی پالیسیوں کا تسلسل عوام کی حالت زار کو اس نہج پر لے جانے کا سبب بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ جہاں عوام کا ساتھ نہ دینے والی ہر سیاسی جماعت عوام کی مجرم ہوگی اور عوام کا انتقام اور عوامی بہائو سب کو بہا کر لے جائے گا ، اس مرحلے پر مریم نوازکی یہ بات حقیقت سے قریب تر ہے کہ '' اگر اپوزیشن نے غیر جمہوری اقدامات کی حامل حکومت کے عوام دشمن اقدامات نہ روکے یا اس پر خاموش رہے تو عوام اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنا دیں گے '' اس نوشتہ دیوار کو تمام طاقتور فرعونی و غیر جمہوری ذہن سمجھ لیں وگرنہ تاریخ اور وقت کا اپنا دھارا ہوتا ہے جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔