امن مذاکرات میں امریکا سست روی کا شکار کیوں

امریکا مذاکرات کو طول دے کر داعش کو افغانستان میں مضبوط کررہا ہے، تاکہ طالبان کے مقابل مضبوط ہوں


امریکا افغان امن عمل مذاکرات کو دانستہ طول دے رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افغان امن مذاکرات جس انداز سے پیش رفت کی راہ پر محو سفر تھے اور امیدیں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ مجھے کئی بار یہ خوشخبری دینی پڑی کہ اس ساتویں راؤنڈ میں اہم اقدام متوقع ہے۔ تمام تر صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس بار جون کے آخری ہفتے ہیں ہونے والے راؤنڈ میں امریکی انخلا کےلیے ٹائم ٹیبل بنایا جائے گا اور مسودے پر دستخط کیے جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے طالبان کے سیاسی وفد کے ترجمان سہیل شاہین سے قبل یہ خبر پوسٹ کی کہ امریکا نے انخلا پر اتفاق اور وعدہ کیا ہے اور اس بار اس پر دستخط متوقع ہے۔ میری اس خبر کے اگلے دن سہیل شاہین نے یہ خوشخبری سنادی کہ امریکا نے انخلا کا وعدہ کیا ہے۔

امن مذاکراتی عمل میں چھ راؤنڈز ہونے کے بعد، مختلف ملکوں کے دورے کے بعد، اور زلمے خلیل زاد کے ٹویٹس اور قوم کو اچھی خبریں دینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا عقل سلیم کےلیے جائز تھا کہ وہ ان تمام راؤنڈز کو سودمند ہونے کی نظر سے دیکھے۔ لیکن طالبان بار بار اس امر کا اظہار کرچکے تھے کہ ہماری نظریں مذاکرات پر ثانیاً ہے، اولاً ہم نے یہ جنگ جیتی ہے، جس کا پوری دنیا مشاہدہ کرچکی ہے۔ اس لیے مذاکرات کےلیے بیٹھ جانے کو ہماری مجبوری نہ گردانا جائے۔

لیکن شاید امریکا کو ایک بار پھر گھمنڈ اور خفیہ سازشوں نے اس حال پر پہنچایا کہ مذاکرات کو مزید طول دیا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی سہیل شاہین نے امریکی انخلا کی بابت اور اس ساتویں راؤنڈ سے متعلق خبر دیں تو امریکا نے اس پر شدید تنقید کی اور اس خبر کو ایسے پیروں تلے روند ڈالا، گویا یہ سابقہ چھ راؤنڈز میں کیے گیے وعدے جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے۔

چنانچہ سہیل شاہین کے بیان کے اگلے روز یعنی ہفتے کو کابل میں نیٹو فوج کے جنگی ترجمان ڈیوڈ بٹلر نے طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے اس بیان پر کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ امریکا نے امارات اسلامی کے ساتھ مذاکرات میں اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کا وعدہ کیا ہے، شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انخلا کے بارے میں طالبان کی بات غلط ہے۔ ایسی باتیں درست نہیں۔

اس کے ساتھ ڈیوڈ نے انتہائی نازیبا اور غیر ذمے دارانہ بیان اور الزام داغا کہ طالبان کے رہنما افغانستان میں موجود نہیں ہیں، وہ دوسرے ممالک سے ٹویٹ کرتے ہیں۔ ہم افغان فورسز کی تربیت کےلیے یہاں موجود ہیں، یہاں تک کہ افغانستان میں امن آئے۔

سوال یہ ہے کہ طالبان کے کمانڈرز ملک سے باہر ہیں تو آئے روز افغانوں کے گھروں پر، مساجد، مدارس، اسکولوں پر چھاپے اور بمباری کس مقصد اور کن پر ہوتی ہیں؟ جہاں بعد میں ہر روز میڈیا پر یہ بیان داغ دیا جاتا ہے کہ فلاں آپریشن میں اتنے طالبان کمانڈر مار دیے اور اتنے گرفتار کرلیے گئے، ان کے مراکز تباہ کردیئے گئے، اہم کمانڈر کی ہلاکت ہوئی ہے۔

اگر آپ بات کررہے ہیں اس سیاسی وفد کی، جو آپ سے مذاکرات کررہے ہیں تو اس کو اجازت آپ نے دی ہے۔ آپ ہی نے ان کو مدعو کیا ہے۔ اور آپ ہوتے کون ہیں؟ امارات اسلامیہ ایک قوت ہے۔ ایک سیاسی قوت کی حامل حکومت ہے جو اپنے فیصلوں اور اقدامات میں مختار کل ہیں۔ جس نے آپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، آپ کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا۔

اگر ان سے پوچھا جائے کہ امارات اسلامی کے کئی صوبوں ہلمند، بغلان، قندوز اور کندھار کے گورنرز افغانستان میں شہید ہوئے یا ملک سے باہر۔ تو ان کا جواب کیا ہوگا؟ کیا اس قسم کے متضاد بیانات امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں؟

نیٹو کے اس جنگجو نے کہا کہ امریکا افغانستان میں قیام امن تک افغان فورسز کی تربیت اور مدد کےلیے موجود رہے گا۔ حالانکہ اس سے قبل بٹلر نے خود ایک بیان دیا تھا کہ افغان قوم کی اکثریت غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف ہے۔

اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوا کہ مذاکرات آگے بڑھ نہیں سکتے جب تک طالبان ہتھیار نہ ڈالیں۔ کیوں کہ امن کا انحصار امریکی انخلا پر منحصر ہے، جس کی طالبان نے کھل کر کئی بار وضاحت کی ہے۔ امریکی انخلا سے قبل اور بعد میں بھی طالبان کا جنگی بندی کرنا یا ہتھیار ڈالنا یہ صرف امریکا اور افغان حکومت کی بھول ہوسکتی ہے۔

اور پھر زلمے خلیل زاد کا اس پر ردعمل آنا اور اسے جھوٹا گرداننا ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ کیوں کہ وہ خود اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ دو نکات پر پیش رفت ہوچکی ہے۔ وہ افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کا انخلا اور افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت۔

یہ معاملہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں، گزشتہ مذاکرات کی چھ میٹنگز میں ان ہی دو نکات پر زیادہ گفتگو ہوتی رہی۔ اس کو اگلے راؤنڈز کےلیے پیش خیمہ گردانا جاتا رہا۔ فریقین نے اس پر اتفاق کی خبر دی تھیں۔ البتہ فوجیوں کے انخلا کے طریقہ کار اور مدت انخلا جیسے مسائل پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔ فوجیوں کے انخلا کے علاوہ دوسرے مسائل پر خلیل زاد نے درجنوں مرتبہ افغان میڈیا کو بتایا کہ دوسرے مسائل افغان قوم کے اندرونی مسائل ہیں اور وہ خود آپس میں بیٹھ کر کوئی حل نکال لیں۔

ان دونوں کے تبصرے اور ردعمل پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ امریکی وفد مذاکرات میں کیے گئے وعدوں پر وفا نہیں کر رہے۔ جس ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز کیا تھا، اب اس سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ انہیں افغانستان میں قیام امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں افغانستان میں خونریزی روکنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔

میرا موقف ہے کہ امریکا مذاکرات کو طول دے کر کچھ خفیہ مقاصد کی تکمیل کررہا ہے، جسے وہ سمجھتا ہے کہ شاید اس سے دنیا واقف نہیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ان مقاصد میں سے اہم اور اصل مقصد جس پر عمل درآمد کچھ عرصہ پہلے شروع کیا گیا تھا اور تاحال جاری ہے، وہ افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں ایک ایسی قوت کھڑی کرنی ہے جو طالبان کےلیے اپنی امارات اسلامیہ قائم کرنے میں رکاوٹ کا کردار ادا کریں۔ اس نکتے پر غور اس وقت ہوا جب امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ کیا۔ اور اسی سال اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ میرا اشارہ ''داعش'' کی طرف ہے۔

چنانچہ پہلے تو داعش کو مضبوط کیا گیا، ان کی طاقت کو ظاہر کیا گیا۔ دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ داعش ایک قوت ہے۔ اور شام میں کئی دفعہ خفیہ طور پر داعش کو امداد پہنچائی گئی۔ اس کے بعد ان کو عارضی اور سازشی طور پر شکست دی گئی اور ان کےلیے افغانستان کی جانب راہیں ہموار کی گئیں۔ جس کے بعد ان کےلیے مزید ہاتھ کھولتے ہوئے افغانستان میں ان کی کم ترین تعداد ہونے کے باوجود حال ہی امریکا نے اس بات کا اظہار کیا کہ داعش افغانستان میں ایک قوت بن چکی ہے۔ آخر امریکا کا داعش کےلیے مہم چلانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔

جون ہی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کہا کہ داعش امریکا کےلیے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے خاص طور پر ‏افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سرگرم داعش کے جنگجو امریکا پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ‏کہ جب تک داعش پر ہمارا دباؤ برقرار رہے گا، وہ امریکا پر حملہ نہیں کرسکتی۔ کچھ دن پہلے دیگر امریکی حکام اور کابل انتظامیہ کے رہنماؤں نے بھی افغانستان میں داعش سے متعلق ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب تک شام و عراق سے داعش کی جانب سے امریکا پر ایک حملہ ہوا ہے؟ آپ نے داعش کو شکست دینے کی خوشخبری سنائی تو آج آپ پھر اپنے اس بیان سے کیوں مکر رہے ہیں؟ کیا داعش واقعی اتنی مضبوط قوت ہے کہ وہ افغانستان سے امریکا ‏کو نشانہ بناسکتی ہے؟ اگر امریکا نے داعش کی قوت کا احساس کیا ہے تو ‏پھر افغانستان میں اس کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں گریز کر رہا ہے؟

کابل انتظامیہ میں شامل معروف شخصیات نے متعدد بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کو ہتھیاروں ‏اور رقم دینے کی مدد کررہا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ حکام نے یہ بھی کہا کہ امریکی حکام داعشی جنگجوؤں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک ‏ہیلی کاپٹروں میں منتقل کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ جنگ کے دوران انہیں امداد فراہم کرتے ہیں۔

کئی بار ایسا بھی ہوا کہ مجاہدین نے داعش کا پیچھا کیا اور اس کے اہلکاروں کو گھیرے میں لے لیا۔ لیکن امریکی طیاروں نے مجاہدین پر ‏بمباری کی اور داعشیوں کو راہ فرار اختیار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اسی طرح حملہ آوروں اور کابل انتظامیہ نے داعش کو فنڈنگ اور ‏دیگر وسائل فراہم کرنے کی ذمے داری بھی اٹھائی ہے۔ شمال اور مشرقی علاقوں میں داعش کے ساتھ ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی ‏کا تعاون بھی کیا ہے۔

درج بالا حقیقت کی ایک مثال کا مشاہدہ گزشتہ سال عوام اور دنیا نے شمالی صوبہ جوزجان میں کیا۔ مجاہدین نے جوزجان کے ضلع درزاب ‏میں داعش کے خلاف آپریشن شروع کیا تو قابض امریکی فوج نے مجاہدین کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ تاہم مجاہدین نے اس کے باوجود ‏داعش کو شکست دی اور اس کے زیرکنٹرول علاقوں کو فتح کیا۔ اس دوران امریکی فوج نے اپنے طیاروں میں داعش کے سرکردہ ‏کمانڈروں سمیت 250 داعشیوں کو میدان جنگ سے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا۔ ان کا بلخ اور کابل میں معزز مہمانوں کی طرح ‏استقبال کیا گیا۔

چند دن قبل جب افغان صوبہ کنڑ میں داعش کے خلاف افغان طالبان نے سخت کارروائی کا آغاز کیا اور ان کے کمانڈروں اور اسلحہ بردار افراد کو محاصرے میں لیا تو امریکی اور کابل انتظامیہ کے ہیلی کاپٹروں، طیاروں اور ٹینکوں کے ذریعے ہی ان کو مجاہدین کے حملوں سے نجات دلائی گئی اور گرفتاریوں سے بچایا۔

افغانستان میں داعش کے ساتھ امریکی اور کٹھ پتلی حکومت کے تعاون کا دعویٰ کوئی پروپیگنڈا نہیں۔ بلکہ عوام اور اعلیٰ حکام کے علاوہ ‏پڑوسی ممالک کو بھی اس کا علم ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کی حمایت کررہا ہے۔ اسے لاجسٹک سپورٹ اور جنگی وسائل فراہم کر‏رہا ہے۔ داعش کی شہرت اور اس کو قوت بخشنے کے لیے وقتاً فوقتاً پروپیگنڈے کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔‏

اس تمام صورت حال سے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ امریکا مذاکرات کو طول دے کر داعش کو افغانستان میں مضبوط کررہا ہے، تاکہ طالبان کے مقابل مضبوط ہوں اور حکومت قائم کرنے میں رکاوٹ بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں