ایف ایم ریڈیو تفریح اورمعلومات کا مؤثر ذریعہ
لوگ ریڈیو کو آج بھی اہم سہارا سمجھتے ہیں جس کے ساتھ وہ اپنی کامیابیوں اور مایوسیوں کا تذکرہ کر سکتے ہیں.
KARACHI:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو اطلاعات کے حصول اور تفریح کا مقبول ذریعہ ہے، جہاں ٹی وی کی رسائی نہیں وہاں ریڈیو ہی لوگوں کو دنیا کے حالات سے آگاہی فراہم کرتا ہے، ایف ایم کے آنے سے ریڈیوکی گرتی مقبولیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔
1920ء میں وسیع پیمانے پر ریڈیو کی نشریات ہونے لگی تھیں اور اس کے تیس سال بعد انسانوں کی زندگی میں ٹیلی ویژن وارد ہوا تھا، دنیا میں پہلے ریڈیو کس ملک میں سنا گیا اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو فاصلوں کو سمیٹنے کی جانب پہلا قدم تھا، ریڈیو کی آمد سے دنیا کے ممالک کے عوام ایک دوسرے سے باخبر ہوئے بل کہ قریب بھی ہوئے، ریڈیو برقی ابلاغ کی پہلی ایجاد ہونے کے باوجود آج بھی ابلاغ کا اہم ذریعہ ہے، الیکٹرونک میڈیا کے نئے قوی و مستعد وسائل میسر آجانے سے قطع نظر ریڈیو حیران کن طور پر آج بھی زندہ ہے، آواز کی لہروں پر نشر ہونے والی اطلاعات، تجزیوں اور دیگر فنی مواد کی آج بھی سامعین کو طلب ہے، بین الاقوامی ریڈیو اس صنعت کا ایک خاص حصہ ہے اس میں بہت زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک ریڈیو کو ابلاغ کے مؤثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، خطوں میں درج بااعتماد تحریریں غماز ہیں کہ سامعین ریڈیو کوقریبی دوست سمجھتے ہیں۔
لوگ ریڈیو کو آج بھی اہم سہارا سمجھتے ہیں جس کے ساتھ وہ اپنی کامیابیوں اور مایوسیوں کا تذکرہ کر سکتے ہیں، اپنے کنبے کے بارے میں بتا سکتے ہیں اپنے ملک کے حالات سے آگاہ کر سکتے ہیں اور اپنے کئے گئے سوالوں کے جواب پا سکتے ہیں، ریڈیونے آج بھی اپنی انسان دوست روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے، دنیا کے تمام براعظموں کو ایک ہی معیار کی آواز سنانے کی کوشش کی جاتی ہے، معیشت، ثقافت اور سائنس کے بارے میں دنیا میں بسنے والوں کے حالات زندگی سے آگاہ کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہے، ماسکو سے برصغیر کے لئے نشریات کا آغاز 18 مئی 1942ء کو ہندوستانی زبان میں ہوا تھا،
اسی زمانے میں چوں کہ دوسری جنگ عظیم ہو رہی تھی، اس لیے ماسکو سے محاذوں کی صورت حال آگاہ کئے جانے کی خاطر ہندوستانی زبان میں پندرہ منٹ کا پروگرام شروع کیا گیا تھا،1954ء سے ہندی اوراردو زبانوں کی نشریات علیحدہ علیحدہ کر دی گئی تھیں،دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی افواج نے نازیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ملک کے طول و عرض میں انتقام کے سخت ترین حربے استعمال کئے جس طرح نازیوں نے جنگ کے اولین دنوں میں کیاتھا،1948ء میں کوپن ہیگن میں اتحادیوں کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جرمنی کو اے ایم (amplitude modulation)سے باہر رکھا جائے اس فیصلہ کے بعد شکست خوردہ جرمن قوم کے پاس صرف شارٹ ویوز (frequency modulation) رہ گیا،
بلجیم ، ڈنمارک، ہالینڈر میں اس کے ساتھ ہی ایف ایم ریڈیو نشریات شروع ہوگئیں، لیکن جرمنی میں ایف ایم نے سننے والوں کو اپنی طرف راغب کیا اور قلیل وقت میں سننے والوں کی تعداد لاکھوںکو پہنچ گئی،ایف ایم ریڈیو کا موثر کردار عالمی جنگ کے بعدشروع ہوا، اتحادیوں نے دیس سے کوسوں میل دورفوجیوں کو تفریحی اور موسیقی کے پروگرام پیش کرنے شروع کئے ، عالمی جنگ کے بعد کمیونسٹوں نے جب یورپ کا دروازہ کھٹکٹھانا شروع کیا تو سرمایہ دار ملکوں نے ایف ایم لہروں کو اشتراکیوں کے خلاف سرد جنگ میں ایک بھرپور پراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا۔
ان ہی دنوں برطانیہ میں بی بی سی نے1955میں ایف ایم براڈکاسٹنگ نشریات شروع کیں،ہندوستان نے بھی1977 میں مدراس سے ایف ایم نشریات شروع کی اور بعد میں بڑے شہروں، دہلی، کولکتہ اوردیگرشہروں تک یہ سلسلہ چل نکلا،پاکستان میں آزادی اظہاررائے کو ہر دور میں دبانے کی کوشش کی گئی ہے،چھ دہائیوں پر محیط ملکی تاریخ میں چارمرتبہ جرنیلوں نے پارلیمنٹ ہائوس کو فتح کرنے کے بعد اولین کام قلم کے مزدوروں کی زبان پر تالالگانے کوفرض سمجھا اس کام میں جمہوریت پسند لیڈروں نے بھی اپنا پور اپورا حصہ ڈالا، صرف نام کی جمہوری جماعتوں نے اپنی عدم برداشت اور اناپرستی کو کبھی گرنے نہیں دیا ، کبھی بھی ان لوگوں نے تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ملک حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ورنہیں ہوسکاہے ،
لیکن باوردی پرویز مشرف نے آزادی اظہاررائے پر عائد زبانی کلامی پابندیوں کا خاتمہ کر دیا اور نجی ٹی وی، ایف ایم ریڈیواور کیبل آپریٹرز کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے درجنوں لائسنس فراہم کردیئے جس کے بعد یہاں مقابلے کی فضاپروان چڑھنے لگی ہے خاص کرایف ایم ریڈیوکو عوام نے خوش آمدید کہا ہے اوراس میڈیم نے آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں میں گھرکرنا شروع کردیاکیوں کہ اس کے ذریعے معلوماتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ تفریحی پروگرام بھی سننے والوں کے دلوں کو گرماتے رہے، خیبر پختون خوا میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے صوبے کے نام پر ایک ایف ایم ریڈیو قائم کیا۔
جو صوبے کی ثقافت کا آیئنہ دار ہواور پختون قوم کادرست امیج اجاگر کیاجاسکے اورمقابلے کی اس فضامیں لوگوں کو تفریح کے ساتھ معلومات تک رسائی حاصل ہواوریہاں فون لطیفہ سے وابستہ افرادکی نہ صرف خدمات سے استفادہ حاصل ہو بل کہ ان کی دلجوئی اورمعاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات کئے جاسکیں،لیکن دوسرے ایف ایم چینلز کی طرح پختون خوا ریڈیو وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا جس کی عوام اور حکومت کو توقع تھی کیوں کہ یہاں اس کے علاوہ خیبر پختون خوامیں ایف ایم کے بوم سے عوام اس وقت آشنا ہوئے جب عسکریت پسندوں نے اس کا موثر استعمال شروع کردیااورلوگوں کورام کرنے کی کوششیں کرنے لگے،
قطع نظراس کے ایک خاص کمیونٹی کے مسائل کی نشاندہی کرنا اور اس کا حل اسی معاشرے میں ڈھونڈنا ایف ایم ریڈیو کا کام ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایف ایم چینلز نے اس تھیوری کو تبدیل کر دیا ہے کیوں کہ ایف ایم چینلزاب مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تفریح طبع کا سامان بھی کرلیتے ہیں جب کہ ساتھ ہی تیزترین خبروں کاسلسلہ بھی شروع کردیاگیاہے ،پاکستان میں بھی درجنوں کے حساب سے ایف ایم چینلز کام کررہے ہیں جن میں زیادہ ترکمرشل بنیادوں پرکام کررہے ہیں لیکن چندایک ہی کمیونٹی کے مسائل حقیقی بنیادوں پر اجاگرکرکے ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہورہے ہیں!!!
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو اطلاعات کے حصول اور تفریح کا مقبول ذریعہ ہے، جہاں ٹی وی کی رسائی نہیں وہاں ریڈیو ہی لوگوں کو دنیا کے حالات سے آگاہی فراہم کرتا ہے، ایف ایم کے آنے سے ریڈیوکی گرتی مقبولیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔
1920ء میں وسیع پیمانے پر ریڈیو کی نشریات ہونے لگی تھیں اور اس کے تیس سال بعد انسانوں کی زندگی میں ٹیلی ویژن وارد ہوا تھا، دنیا میں پہلے ریڈیو کس ملک میں سنا گیا اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو فاصلوں کو سمیٹنے کی جانب پہلا قدم تھا، ریڈیو کی آمد سے دنیا کے ممالک کے عوام ایک دوسرے سے باخبر ہوئے بل کہ قریب بھی ہوئے، ریڈیو برقی ابلاغ کی پہلی ایجاد ہونے کے باوجود آج بھی ابلاغ کا اہم ذریعہ ہے، الیکٹرونک میڈیا کے نئے قوی و مستعد وسائل میسر آجانے سے قطع نظر ریڈیو حیران کن طور پر آج بھی زندہ ہے، آواز کی لہروں پر نشر ہونے والی اطلاعات، تجزیوں اور دیگر فنی مواد کی آج بھی سامعین کو طلب ہے، بین الاقوامی ریڈیو اس صنعت کا ایک خاص حصہ ہے اس میں بہت زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک ریڈیو کو ابلاغ کے مؤثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، خطوں میں درج بااعتماد تحریریں غماز ہیں کہ سامعین ریڈیو کوقریبی دوست سمجھتے ہیں۔
لوگ ریڈیو کو آج بھی اہم سہارا سمجھتے ہیں جس کے ساتھ وہ اپنی کامیابیوں اور مایوسیوں کا تذکرہ کر سکتے ہیں، اپنے کنبے کے بارے میں بتا سکتے ہیں اپنے ملک کے حالات سے آگاہ کر سکتے ہیں اور اپنے کئے گئے سوالوں کے جواب پا سکتے ہیں، ریڈیونے آج بھی اپنی انسان دوست روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے، دنیا کے تمام براعظموں کو ایک ہی معیار کی آواز سنانے کی کوشش کی جاتی ہے، معیشت، ثقافت اور سائنس کے بارے میں دنیا میں بسنے والوں کے حالات زندگی سے آگاہ کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہے، ماسکو سے برصغیر کے لئے نشریات کا آغاز 18 مئی 1942ء کو ہندوستانی زبان میں ہوا تھا،
اسی زمانے میں چوں کہ دوسری جنگ عظیم ہو رہی تھی، اس لیے ماسکو سے محاذوں کی صورت حال آگاہ کئے جانے کی خاطر ہندوستانی زبان میں پندرہ منٹ کا پروگرام شروع کیا گیا تھا،1954ء سے ہندی اوراردو زبانوں کی نشریات علیحدہ علیحدہ کر دی گئی تھیں،دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی افواج نے نازیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ملک کے طول و عرض میں انتقام کے سخت ترین حربے استعمال کئے جس طرح نازیوں نے جنگ کے اولین دنوں میں کیاتھا،1948ء میں کوپن ہیگن میں اتحادیوں کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جرمنی کو اے ایم (amplitude modulation)سے باہر رکھا جائے اس فیصلہ کے بعد شکست خوردہ جرمن قوم کے پاس صرف شارٹ ویوز (frequency modulation) رہ گیا،
بلجیم ، ڈنمارک، ہالینڈر میں اس کے ساتھ ہی ایف ایم ریڈیو نشریات شروع ہوگئیں، لیکن جرمنی میں ایف ایم نے سننے والوں کو اپنی طرف راغب کیا اور قلیل وقت میں سننے والوں کی تعداد لاکھوںکو پہنچ گئی،ایف ایم ریڈیو کا موثر کردار عالمی جنگ کے بعدشروع ہوا، اتحادیوں نے دیس سے کوسوں میل دورفوجیوں کو تفریحی اور موسیقی کے پروگرام پیش کرنے شروع کئے ، عالمی جنگ کے بعد کمیونسٹوں نے جب یورپ کا دروازہ کھٹکٹھانا شروع کیا تو سرمایہ دار ملکوں نے ایف ایم لہروں کو اشتراکیوں کے خلاف سرد جنگ میں ایک بھرپور پراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا۔
ان ہی دنوں برطانیہ میں بی بی سی نے1955میں ایف ایم براڈکاسٹنگ نشریات شروع کیں،ہندوستان نے بھی1977 میں مدراس سے ایف ایم نشریات شروع کی اور بعد میں بڑے شہروں، دہلی، کولکتہ اوردیگرشہروں تک یہ سلسلہ چل نکلا،پاکستان میں آزادی اظہاررائے کو ہر دور میں دبانے کی کوشش کی گئی ہے،چھ دہائیوں پر محیط ملکی تاریخ میں چارمرتبہ جرنیلوں نے پارلیمنٹ ہائوس کو فتح کرنے کے بعد اولین کام قلم کے مزدوروں کی زبان پر تالالگانے کوفرض سمجھا اس کام میں جمہوریت پسند لیڈروں نے بھی اپنا پور اپورا حصہ ڈالا، صرف نام کی جمہوری جماعتوں نے اپنی عدم برداشت اور اناپرستی کو کبھی گرنے نہیں دیا ، کبھی بھی ان لوگوں نے تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ملک حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ورنہیں ہوسکاہے ،
لیکن باوردی پرویز مشرف نے آزادی اظہاررائے پر عائد زبانی کلامی پابندیوں کا خاتمہ کر دیا اور نجی ٹی وی، ایف ایم ریڈیواور کیبل آپریٹرز کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے درجنوں لائسنس فراہم کردیئے جس کے بعد یہاں مقابلے کی فضاپروان چڑھنے لگی ہے خاص کرایف ایم ریڈیوکو عوام نے خوش آمدید کہا ہے اوراس میڈیم نے آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں میں گھرکرنا شروع کردیاکیوں کہ اس کے ذریعے معلوماتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ تفریحی پروگرام بھی سننے والوں کے دلوں کو گرماتے رہے، خیبر پختون خوا میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے صوبے کے نام پر ایک ایف ایم ریڈیو قائم کیا۔
جو صوبے کی ثقافت کا آیئنہ دار ہواور پختون قوم کادرست امیج اجاگر کیاجاسکے اورمقابلے کی اس فضامیں لوگوں کو تفریح کے ساتھ معلومات تک رسائی حاصل ہواوریہاں فون لطیفہ سے وابستہ افرادکی نہ صرف خدمات سے استفادہ حاصل ہو بل کہ ان کی دلجوئی اورمعاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات کئے جاسکیں،لیکن دوسرے ایف ایم چینلز کی طرح پختون خوا ریڈیو وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا جس کی عوام اور حکومت کو توقع تھی کیوں کہ یہاں اس کے علاوہ خیبر پختون خوامیں ایف ایم کے بوم سے عوام اس وقت آشنا ہوئے جب عسکریت پسندوں نے اس کا موثر استعمال شروع کردیااورلوگوں کورام کرنے کی کوششیں کرنے لگے،
قطع نظراس کے ایک خاص کمیونٹی کے مسائل کی نشاندہی کرنا اور اس کا حل اسی معاشرے میں ڈھونڈنا ایف ایم ریڈیو کا کام ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایف ایم چینلز نے اس تھیوری کو تبدیل کر دیا ہے کیوں کہ ایف ایم چینلزاب مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تفریح طبع کا سامان بھی کرلیتے ہیں جب کہ ساتھ ہی تیزترین خبروں کاسلسلہ بھی شروع کردیاگیاہے ،پاکستان میں بھی درجنوں کے حساب سے ایف ایم چینلز کام کررہے ہیں جن میں زیادہ ترکمرشل بنیادوں پرکام کررہے ہیں لیکن چندایک ہی کمیونٹی کے مسائل حقیقی بنیادوں پر اجاگرکرکے ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہورہے ہیں!!!