بھائی جان برتن دھونے سے مل مالک بننے تک
قسمت کی دیوی ایک غریب مزدور بچے پر اچانک مہربان ہوگئی۔
عجیب انسان تھے وہ۔ لیکن انسان، بہت ہم درد، مخلص اور ایثار کیش، پڑھے لکھے نہیں تھے، بس کسی سے دست خط کرنا سیکھ گئے تھے۔ ان کی کتھا بھی اتنی ہی عجیب ہے جتنے وہ خود تھے۔
جہلم کے ایک گاؤں سے روزی رزق کی تلاش میں کراچی آگئے تھے اور اس وقت بارہ برس کے تھے۔ خاندان کے باقی لوگ بھی معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے، لیکن ان کے والد کے پاس تو وہ بھی نہیں تھی ۔ تو مزدوری کرنے کراچی چلے آئے تھے ۔ بارہ سال کا بچہ کیا کام کرتا، ان کے ایک عزیز نے ہوٹل پر لگا دیا تھا ، جہاں وہ برتن دھویا کرتے تھے، وہاں سے انہیں دو وقت کھانے، ناشتے کے ساتھ تیس روپے بھی ملتے تھے اور رہائش بھی ۔ بہت معصوم سے، کم گو، محنتی، بس کام سے کام رکھنے والے۔ چار سال تک وہ یہی کام کرتے رہے ، ہوٹل کا مالک ان کے کام سے خوش تھا اور اس نے ان کی تن خواہ ستر روپے کردی تھی۔ ان کا اپنا تو کوئی خرچ تھا نہیں، اس لیے وہ اپنی ساری تن خواہ اپنے والدین کو بھیج دیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ صرف دو بار گاؤں گئے تھے۔
کراچی کیا، اس وقت تو پورے ملک کے حالات بہت اچھے تھے۔ پاکستان کے کیا پوری دنیا کے۔ کراچی تو پاکستان کے غریبوں کی ماں کا درجہ رکھتی تھی اور کسی حد تک اب بھی، کراچی میں اس وقت غیرملکی سیاح بلاخوف و خطر گھوما پھرا کرتے تھے۔ امن تھا، امان تھی، بھائی چارہ تھا، یگانگت تھی، بس یوں سمجھیے کہ زندگی تھی۔
وہ اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتے تھے، لیکن مجھ سے ان کا نہ جانے کیسا رشتہ تھا، جب بھی ان سے کچھ پوچھا، کبھی انکار نہیں کیا۔ وہ پڑوسی کے حقوق جانتے تھے اور میں ان کا ہمسایہ تھا۔ برسوں میں ان کی کہانی سنتا رہا، نام تو ان کا محمد صادق تھا، لیکن میں انہیں بھائی جان کہتا تھا، ان کی جیون کتھا میں کیا کیا عجیب واقعات ہوئے، میں نے ان سے اک دن پوچھا۔ پہلے تو وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے اور سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتارتے رہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی شاید وہ نمی تھی، شاید غلط کہہ گیا ہوں یقیناً، پھر وہ سنبھلے اور رواں ہوئے، نہ جانے کیا کیا پوچھتا رہتا ہے تو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن میں ہوٹل کے باہر بیٹھا برتن دھو رہا تھا۔ دسمبر تھا اور سخت سردی۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہوا تھی کہ جسم میں خون جم رہا تھا۔ یخ پانی کی وجہ سے میرے ہاتھ شل ہو رہے تھے۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میرا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا، لیکن کام تو کرنا ہی تھا۔ نوکری، مزدوری میں نخرہ کیا کرنا۔ اتنے میں ایک کار آکر رکی جسے ایک گورا چلا رہا تھا۔ وہ اترا اور بازار میں غائب ہوگیا۔ لیکن کار میں ایک خاتون بیٹھی رہی، بعد میں پتا چلا کہ وہ اس گورے کی بیوی تھی میں اپنا کام کر رہا تھا، لیکن وہ خاتون مسلسل مجھے دیکھے جارہی تھی، تھوڑی دیر تو وہ مجھے دیکھتی رہی، اور پھر اتر کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔
میں بہت پریشان ہوا، پھر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا، لیکن میں کچھ نہیں سمجھ پایا، اسے میرے پاس بیٹھے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی اور ہوٹل کے سارے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے نہ جانے کیا معلوم کرنا چاہ رہی تھی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا، لیکن اس وقت مجھے اپنی ماں بہت یاد آرہی تھی۔ اس خاتون میں مجھے نہ جانے کیوں اپنی ماں دکھائی دے رہی تھی۔ پھر عجیب ماجرا ہوا۔ وہ رونے لگی۔ اتنے میں اس کا شوہر آگیا۔ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص میرے پا س آیا اور کہنے لگا،''کیا تم میرے ساتھ کام کروگے؟'' میں تو بوکھلا گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں، میں خا موش رہا۔
وہ گورا میرے مالک کے پاس گیا اور کچھ باتیں کیں اور پھر ہوٹل کا ما لک مجھ سے آکر کہنے لگا،''جاؤ پیارے! تمہاری تو قسمت کُھل گئی۔ ماں باپ کی دعائیں تمہارے کام آ گئیں۔ یہ جرمن ہے اور یہاں ایک ٹیکسٹائل مل چلاتا ہے۔ یہ تمہیں کا م سکھائے گا اور اپنے ساتھ رکھے گا۔ اگر تمہارا وہاں دل نہ لگے تو واپس آجانا۔ میں تیار ہوگیا۔ میرے پاس تھا ہی کیا صرف دو جوڑے کپڑے تھے۔ وہ لیے اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔
قائداعظم کے مزار کے پاس ایک کوٹھی کے اندر کار رکی اور ہم نیچے اترے۔ میں خوش تو تھا اور حیران بھی، لیکن مجھ سے زیادہ وہ خا تون خوش تھی۔ میرے کپڑے میلے تھے، اس کے باوجود اس نے مجھے بہت پیار کیا۔ وہ خاصی بڑی کوٹھی تھی۔ انہوں نے مجھے نہانے کا کہا، گرم پانی سے نہانے کا مزا مجھے اس دن آیا۔ میں نے صاف کپڑے پہنے اور باتیں کیں اس شخص کو اردو آتی تھی، بس اس طرح کی باتیں کہ کہاں کے ہو، ماں باپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتا دیا کہ اماں ابا بہت بوڑھے ہیں اور غریب بھی، اس لیے میں مزدوری کرنے نکلا ہوں۔
پھر انہوں نے مجھے ایک کمرا دے دیا، جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا اور اک الماری تھی۔ دوسرے دن وہ مجھے صدر لے گئے۔ اس وقت صدر ہی کراچی کا واحد کاروباری مرکز تھا، جہاں ضروریات زندگی کا سب سامان مل جاتا تھا اور ارزاں بھی۔ وہاں سے انہوں نے مجھے بہت ساری پینٹ شرٹ اور قمیص شلوار لے کردیے، دوپہر تک ہم خریداری کرتے رہے پھر اک بہت بڑے ہوٹل میں ہم نے کھانا کھایا۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور خواب تھا۔ اس کے بعد ہم گھر آگئے وہ جرمن خاتون میرے لیے ماں جیسی تھی۔ ہم گھر پہنچ کر سو گئے۔
شام کی چائے پر کچھ دیر باتیں ہوئیں اور میں نے انہیں ممی اور ڈیڈی کہنا شروع کردیا۔ ان لفظوں کا مطلب بھی انہوں نے ہی مجھے سمجھایا تھا اور بعد کی زندگی میں انہوں نے اور میں نے یہ رشتہ نبھایا بھی۔ داستان بہت طویل ہے۔ ڈیڈی ایک ٹیکسٹائل مل میں پرنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے نگراں تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ پرنٹنگ مشینیں بھی جرمنی کی بنی ہوئی ہیں۔ وہ پرنٹنگ میں جو کیمیکل اور رنگ استعمال ہوتے ہیں ان کے ماہر تھے۔ وہ پہلا دن مجھے یاد ہے، جب میں ان کے ساتھ کار میں کام پر گیا، اتنی بڑی مشینیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ اب تم دل لگاکر اور آنکھیں کھول کر اور اپنا ذہن پوری طرح سے کھول لو اور کام سیکھو، سب سے پہلے احتیاط سیکھو، ہمارا کام بہت خطرناک ہے بس یہ سمجھو ہمارے آس پاس زہر بکھرا ہوا ہے اور ہمیں اسی زہر کو اپنے کام میں لانا ہے۔
اپنی آنکھیں بہت بچاکر رکھنا اور منہ پر کپڑا باندھ کر رکھنا اور جب تک کام کرو اپنا چشمہ مت اتارنا۔ اب بس تم مجھے غور سے دیکھا کرو میں کیا کرتا ہوں۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں ڈرم رکھے ہوئے تھے، شیشے کی برنیاں تھیں، مختلف پیمانے تھے، شیشے کی ٹیوبس تھیں، ترازو تھے اور ہر طرح کے رنگ۔
انہوں نے ہال میں داخل ہوکر اس کا دروازہ بند کردیا اور پھر اپنا کام کرنے لگے، وہ بہت سارے رنگوں اور کیمیکل کو مختلف مقدار میں لیکر مکس کر رہے تھے۔ میں انہیں بہت غور سے دیکھ رہا تھا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ دو گھنٹے ہو گئے تھے پھر انہوں نے جو محلول بنایا تھا اسے ایک کین میں انڈیلا اور ہاتھ منھ دھو کر دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کسی کو فون کیا اور دو مزدور وہ کین اٹھا کر لے گئے ۔ باہر نکل کر انہوں نے اس ہال کا دروازہ بند کر کے تالا لگادیا اور اپنے دفتر میں آکر بیٹھ گئے۔ پھر چائے آگئی۔ ہم نے پی۔ کچھ دیر وہ ایک رجسٹر دیکھتے رہے اور پھر گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔
راستے میں انہوں نے مجھ سے کہا،''تم کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟'' میں نے کہا بس یہ بتائیں کہ آپ نے ہال کو اندر سے بند کیوں کیا تھا؟ وہ مسکرائے اور گُڈ کہا اور پھر بتایا،''دیکھو! ہر کام کے کچھ راز ہوتے ہیں اور یہی راز انسان کو اہم بناتے ہیں، اگر یہ عام ہو جائیں تو ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کاروباری راز ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہنر ہے۔ ہم جو رنگ بنا تے ہیں ان کا فارمولا اگر سب کو معلوم ہوجائے تو سب بنالیں گے اور ہماری خاصیت ختم ہوجائے گی، بس ہر کام رازداری سے کرنا۔ اپنے فارمولے کسی بھی قیمت پر کسی کو بھی مت بتانا۔ جب تک تم راز کو راز رکھو گے بادشاہ رہو گے اگر بتادیا تو گداگر۔
ابتدا میں مجھے بہت پریشانی ہوئی، اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، اس لیے مجھے سب فارمولے زبانی یاد رکھنے پڑتے تھے، لیکن مجھے آہستہ آہستہ اس کی مشق ہو گئی اور سچ تو یہ ہے کہ والدین کی دعاؤں سے اﷲ نے میرا دماغ کھول دیا، مجھے آج بھی سارے فارمولے زبانی یاد ہیں۔
ڈیڈی میرے کام سے بہت خوش تھے۔ وہ میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور ممی تو بہت ہی خوش تھیں۔ میں اس وقت جب ہزار روپے بہت زیادہ اچھی تن خواہ سمجھی جاتی تھی بیس ہزار روپے ماہانہ اپنے والدین کو بھیجتا تھا۔ میری کمائی سے ابا نے شان دار گھر بنایا تھا اور زرعی زمین بھی لے لی تھی۔ دو سال بعد میں نے ڈیڈی سے کہا کہ میں کچھ دن کے لیے گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے جب شام کو ہم گھر جا رہے تھے تو وہ راستے میں ایک دفتر میں گئے اور پھر آکر ایک لفافہ مجھے دیا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تم گاؤں جا رہے ہو تو یہ جہاز کا ٹکٹ ہے۔ اس وقت جتنی خوشی مجھے ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا۔
ایک ہفتے تک میں نے خریداری کی اور پھر ممی اور ڈیڈی مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔ ممی نے مجھے گلے لگایا وہ رو رہی تھیں اور پھر کہا بس ایک ہفتے میں واپس آجانا۔ میں وہ منظر نہیں بھول سکتا۔ میں جہاز میں بیٹھا تو بہت جذباتی تھا۔ اسلام آباد تک میں روتا ہوا گیا تھا اور اپنے اﷲ کا شکر ادا کرتا رہا کہ جس نے مجھ جیسے نا اہل کو اس قابل بنایا، اس نے ممی ڈیڈی جیسے لوگوں کو وسیلہ بنایا۔
اسلام آباد ایئر پورٹ پر میری امی ابا اور بھائی بہنیں آئی ہوئی تھیں۔ وہ سب کچھ بھی میں نہیں بھول سکتا۔ ایک ہفتہ لمحوں میں ہی گزرگیا اور میں واپس کراچی آگیا۔ ڈیڈی میرے کام سے بے حد خوش تھے۔ بس یوں سمجھو اﷲ نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ چھے ماہ بعد ڈیڈی اور ممی کچھ دنوں کے لیے جرمنی چلے گئے اور جاتے ہوئے ساری ذمے داریاں مجھ پر ڈال گئے۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے بس اک بات کہی تھی۔ دیکھو! اگر تم بیساکھیوں سے چلو گے تو چل تو لوگے لیکن دوڑ نہیں سکو گے۔ تمہیں دوڑنا ہے۔ اس لیے کسی بیساکھی کا سہارا مت لینا۔ تمہیں جو کرنا ہے خود کرنا ہے، میں کچھ دنوں کے کیے جارہا ہوں۔ مجھے یقین ہے تم سارے کام پوری ذمے داری، اعتماد اور دل جمعی سے کروگے۔ میں فون پر رابطے میں رہوں گا، پہلے خود سوچنا اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچو تو پوچھ لینا، لیکن مجھے خوشی ہوگی اگر تم سارے کام خود سر انجام دو۔
وہ پہلا دن بھی مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ میں لیب میں اکیلا تھا اور مجھے اکیلے کام کرنا تھا۔ میں نے اﷲ سے دعا کی اور پھر شروع ہوگیا۔ ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور ڈیڈی نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ البتہ ممی دن میں دو مرتبہ میری خیریت پوچھتی تھیں۔ بیس دن بعد ڈیڈی ممی واپس آگئے۔ اس وقت تک میں ڈرائیونگ سیکھ چکا تھا، بلکہ مجھے کار بھی مل گئی تھی۔ ڈیڈی نے ایئر پورٹ پر ہی مجھے بہت پیار کیا۔ میں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے تو مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ وہ مسکرائے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ روزانہ چار مرتبہ فون کرکے میری کارکردگی معلوم کرتے رہے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ اس دوران میں نے کو ئی غلطی نہیں کی۔ اس کے بعد تو ساری ذمے داریاں مجھے سونپ دی گئیں اور اﷲ کا احسان ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ دس سال بیت گئے تھے اور میں اب اس کام کے ماہرین میں شمار ہونے لگا تھا، پیسے مجھ پر بارش کی طرح برس رہے تھے۔
ایک دن ڈیڈی اور ممی نے وہ کہا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ڈیڈی اور ممی نے کہا،''بیٹا! اب تم سب کچھ سیکھ چکے ہو ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے، تم ہی ہمارے بیٹے ہو۔ تم نے بہت محنت کی ہے اور خود کو اس کام کا اہل ثابت کیا ہے اور بیٹے کا حق بھی ادا کیا ہے۔ میں نے اس ٹیکسٹائل مل کے اپنے حصے کے تمام شیئر تمہارے نام منتقل کردیے ہیں اب ہمیں واپس جرمنی جانا ہے۔ اس لیے ہم اگلے ہفتے جا رہے ہیں۔ تم جرمنی ضرور آنا اور ہم بھی کبھی کبھی آیا کریں گے۔'' یہ سن کر مجھے لگا کہ میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ میرے آنسو تھم نہیں رہے تھے، لیکن حقیقت سامنے تھی، میں نے بہت منت سماجت کی، بہت رویا، لیکن وہ وقت بھی آہی گیا جب ممی ڈیڈی چلے گئے اور میں تنہا رہ گیا۔
اب میں مل کا مالک تھا، لیکن پہلے دن ہی میں نے غلطی کی اور ایک لاکھ مالیت کا کیمیکل اور رنگ مجھ سے ضائع ہو گیا۔ یہ میری پہلی غلطی تھی، لیکن اس کا جواز تھا کہ میں خود کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ پھر زندگی بدل گئی تھی۔ میں کئی مرتبہ جرمنی گیا اور ممی ڈیڈی بھی یہاں آئے۔
ایک دن مجھے معلوم ہوا کی ممی ڈیڈی کا روڈ ا یکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ آج میرے پاس جو کچھ ہے، اور سب کچھ ہے، وہ ان ہی کی دین ہے۔ اﷲ نے انہیں وسیلہ بنا دیا۔ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اب ادھورا ہوں۔ وہ تھے تو جینا بہار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی بھائی جان کی جیون کتھا۔ میں نے خود دیکھا ہے وہ اپنے ورکر کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ بوائلر پھٹ گیا تھا اور سات مزدور زخمی ہو گئے تھے۔ صبح سویرے ہم پہنچے تو ایک منیجر نے کہا،''انہیں سول اسپتال بھیج دیتے ہیں۔'' بھائی جان نے اسے بہت ڈانٹا اور کہا،''یہی مزدور ہیں جن کی محنت سے تمہیں تن خواہ ملتی اور میں عیاشی کرتا ہوں۔'' اور پھر سارے مزدوروں کو شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ سات ماہ تک زیر علاج رہے اور پھر انہیں تین ماہ کی مزید رخصت دی گئی۔
ایک مرتبہ بھائی جان نے برانڈ نیو کار لی، نئی گاڑیوں کا انہیں بہت شوق تھا، اور اپنے ڈرائیور کو شوروم بھیجا۔ راستے میں کار کا حادثہ ہوگیا اور وہ مکمل طور تباہ ہوگئی۔ انہیں جب معلوم ہوا تو پہنچے اور اپنے ڈرائیور کو دیکھا اور کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کار تو نئی بھی لے سکتے ہیں، تمہیں کچھ ہوجاتا تو کیا کرتے۔ رمضان میں انہوں نے مختلف جگہوں پر پھل والے منتخب کیے تھے جہاں سے پورے ماہ ان کے مزدور افطاری لیا کرتے، جس کی ادائیگی وہ خو د کیا کرتے۔
عیدِقرباں پر سارے مزدوروں میں قربانی کے بکرے تقسیم کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ان کے بچے ضد کریں گے تو یہ کہاں سے لائیں گے، ان کی بھی خواہشات ہیں۔ وہ انتہائی انسان دوست تھے۔ میں نے کبھی بھی ان کے پاس سے کسی کو بھی خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ بلا کے سگریٹ نوش اور بزلہ سنج، اپنے محلے، اپنے مزدوروں اور عام لوگوں کا بے انتہا خیال رکھنے والے بھائی جان کا جب انتقال ہوا تو ایک بھی آنکھ ایسی نہیں تھی جو برس نہ رہی ہو۔
(عبداللطیف ابوشامل سینیر صحافی ہونے کے ساتھ جہاں گشت بھی ہیں۔ انھوں نے کم عمری میں گھر کا عیش وآرام چھوڑا اور برسوں فٹ پاتھوں سے ویرانوں تک زندگی بتاتے رہے۔ اس دوران ان کا واسطہ قسم قسم کے لوگوں سے پڑا۔ ان میں سے بہت سے کردار اور ان کی کہانیاں حیرت اوردل چسپی کے پہلو سمیٹے ہوئے ہیں۔ عبداللطیف ابوشامل سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے یہ کہانیاں تحریر کریں گے۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ پڑھنے والوں کو پسند آئے گا)
جہلم کے ایک گاؤں سے روزی رزق کی تلاش میں کراچی آگئے تھے اور اس وقت بارہ برس کے تھے۔ خاندان کے باقی لوگ بھی معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے، لیکن ان کے والد کے پاس تو وہ بھی نہیں تھی ۔ تو مزدوری کرنے کراچی چلے آئے تھے ۔ بارہ سال کا بچہ کیا کام کرتا، ان کے ایک عزیز نے ہوٹل پر لگا دیا تھا ، جہاں وہ برتن دھویا کرتے تھے، وہاں سے انہیں دو وقت کھانے، ناشتے کے ساتھ تیس روپے بھی ملتے تھے اور رہائش بھی ۔ بہت معصوم سے، کم گو، محنتی، بس کام سے کام رکھنے والے۔ چار سال تک وہ یہی کام کرتے رہے ، ہوٹل کا مالک ان کے کام سے خوش تھا اور اس نے ان کی تن خواہ ستر روپے کردی تھی۔ ان کا اپنا تو کوئی خرچ تھا نہیں، اس لیے وہ اپنی ساری تن خواہ اپنے والدین کو بھیج دیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ صرف دو بار گاؤں گئے تھے۔
کراچی کیا، اس وقت تو پورے ملک کے حالات بہت اچھے تھے۔ پاکستان کے کیا پوری دنیا کے۔ کراچی تو پاکستان کے غریبوں کی ماں کا درجہ رکھتی تھی اور کسی حد تک اب بھی، کراچی میں اس وقت غیرملکی سیاح بلاخوف و خطر گھوما پھرا کرتے تھے۔ امن تھا، امان تھی، بھائی چارہ تھا، یگانگت تھی، بس یوں سمجھیے کہ زندگی تھی۔
وہ اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتے تھے، لیکن مجھ سے ان کا نہ جانے کیسا رشتہ تھا، جب بھی ان سے کچھ پوچھا، کبھی انکار نہیں کیا۔ وہ پڑوسی کے حقوق جانتے تھے اور میں ان کا ہمسایہ تھا۔ برسوں میں ان کی کہانی سنتا رہا، نام تو ان کا محمد صادق تھا، لیکن میں انہیں بھائی جان کہتا تھا، ان کی جیون کتھا میں کیا کیا عجیب واقعات ہوئے، میں نے ان سے اک دن پوچھا۔ پہلے تو وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے اور سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتارتے رہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی شاید وہ نمی تھی، شاید غلط کہہ گیا ہوں یقیناً، پھر وہ سنبھلے اور رواں ہوئے، نہ جانے کیا کیا پوچھتا رہتا ہے تو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن میں ہوٹل کے باہر بیٹھا برتن دھو رہا تھا۔ دسمبر تھا اور سخت سردی۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہوا تھی کہ جسم میں خون جم رہا تھا۔ یخ پانی کی وجہ سے میرے ہاتھ شل ہو رہے تھے۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میرا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا، لیکن کام تو کرنا ہی تھا۔ نوکری، مزدوری میں نخرہ کیا کرنا۔ اتنے میں ایک کار آکر رکی جسے ایک گورا چلا رہا تھا۔ وہ اترا اور بازار میں غائب ہوگیا۔ لیکن کار میں ایک خاتون بیٹھی رہی، بعد میں پتا چلا کہ وہ اس گورے کی بیوی تھی میں اپنا کام کر رہا تھا، لیکن وہ خاتون مسلسل مجھے دیکھے جارہی تھی، تھوڑی دیر تو وہ مجھے دیکھتی رہی، اور پھر اتر کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔
میں بہت پریشان ہوا، پھر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا، لیکن میں کچھ نہیں سمجھ پایا، اسے میرے پاس بیٹھے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی اور ہوٹل کے سارے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے نہ جانے کیا معلوم کرنا چاہ رہی تھی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا، لیکن اس وقت مجھے اپنی ماں بہت یاد آرہی تھی۔ اس خاتون میں مجھے نہ جانے کیوں اپنی ماں دکھائی دے رہی تھی۔ پھر عجیب ماجرا ہوا۔ وہ رونے لگی۔ اتنے میں اس کا شوہر آگیا۔ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص میرے پا س آیا اور کہنے لگا،''کیا تم میرے ساتھ کام کروگے؟'' میں تو بوکھلا گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں، میں خا موش رہا۔
وہ گورا میرے مالک کے پاس گیا اور کچھ باتیں کیں اور پھر ہوٹل کا ما لک مجھ سے آکر کہنے لگا،''جاؤ پیارے! تمہاری تو قسمت کُھل گئی۔ ماں باپ کی دعائیں تمہارے کام آ گئیں۔ یہ جرمن ہے اور یہاں ایک ٹیکسٹائل مل چلاتا ہے۔ یہ تمہیں کا م سکھائے گا اور اپنے ساتھ رکھے گا۔ اگر تمہارا وہاں دل نہ لگے تو واپس آجانا۔ میں تیار ہوگیا۔ میرے پاس تھا ہی کیا صرف دو جوڑے کپڑے تھے۔ وہ لیے اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔
قائداعظم کے مزار کے پاس ایک کوٹھی کے اندر کار رکی اور ہم نیچے اترے۔ میں خوش تو تھا اور حیران بھی، لیکن مجھ سے زیادہ وہ خا تون خوش تھی۔ میرے کپڑے میلے تھے، اس کے باوجود اس نے مجھے بہت پیار کیا۔ وہ خاصی بڑی کوٹھی تھی۔ انہوں نے مجھے نہانے کا کہا، گرم پانی سے نہانے کا مزا مجھے اس دن آیا۔ میں نے صاف کپڑے پہنے اور باتیں کیں اس شخص کو اردو آتی تھی، بس اس طرح کی باتیں کہ کہاں کے ہو، ماں باپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتا دیا کہ اماں ابا بہت بوڑھے ہیں اور غریب بھی، اس لیے میں مزدوری کرنے نکلا ہوں۔
پھر انہوں نے مجھے ایک کمرا دے دیا، جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا اور اک الماری تھی۔ دوسرے دن وہ مجھے صدر لے گئے۔ اس وقت صدر ہی کراچی کا واحد کاروباری مرکز تھا، جہاں ضروریات زندگی کا سب سامان مل جاتا تھا اور ارزاں بھی۔ وہاں سے انہوں نے مجھے بہت ساری پینٹ شرٹ اور قمیص شلوار لے کردیے، دوپہر تک ہم خریداری کرتے رہے پھر اک بہت بڑے ہوٹل میں ہم نے کھانا کھایا۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور خواب تھا۔ اس کے بعد ہم گھر آگئے وہ جرمن خاتون میرے لیے ماں جیسی تھی۔ ہم گھر پہنچ کر سو گئے۔
شام کی چائے پر کچھ دیر باتیں ہوئیں اور میں نے انہیں ممی اور ڈیڈی کہنا شروع کردیا۔ ان لفظوں کا مطلب بھی انہوں نے ہی مجھے سمجھایا تھا اور بعد کی زندگی میں انہوں نے اور میں نے یہ رشتہ نبھایا بھی۔ داستان بہت طویل ہے۔ ڈیڈی ایک ٹیکسٹائل مل میں پرنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے نگراں تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ پرنٹنگ مشینیں بھی جرمنی کی بنی ہوئی ہیں۔ وہ پرنٹنگ میں جو کیمیکل اور رنگ استعمال ہوتے ہیں ان کے ماہر تھے۔ وہ پہلا دن مجھے یاد ہے، جب میں ان کے ساتھ کار میں کام پر گیا، اتنی بڑی مشینیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ اب تم دل لگاکر اور آنکھیں کھول کر اور اپنا ذہن پوری طرح سے کھول لو اور کام سیکھو، سب سے پہلے احتیاط سیکھو، ہمارا کام بہت خطرناک ہے بس یہ سمجھو ہمارے آس پاس زہر بکھرا ہوا ہے اور ہمیں اسی زہر کو اپنے کام میں لانا ہے۔
اپنی آنکھیں بہت بچاکر رکھنا اور منہ پر کپڑا باندھ کر رکھنا اور جب تک کام کرو اپنا چشمہ مت اتارنا۔ اب بس تم مجھے غور سے دیکھا کرو میں کیا کرتا ہوں۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں ڈرم رکھے ہوئے تھے، شیشے کی برنیاں تھیں، مختلف پیمانے تھے، شیشے کی ٹیوبس تھیں، ترازو تھے اور ہر طرح کے رنگ۔
انہوں نے ہال میں داخل ہوکر اس کا دروازہ بند کردیا اور پھر اپنا کام کرنے لگے، وہ بہت سارے رنگوں اور کیمیکل کو مختلف مقدار میں لیکر مکس کر رہے تھے۔ میں انہیں بہت غور سے دیکھ رہا تھا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ دو گھنٹے ہو گئے تھے پھر انہوں نے جو محلول بنایا تھا اسے ایک کین میں انڈیلا اور ہاتھ منھ دھو کر دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کسی کو فون کیا اور دو مزدور وہ کین اٹھا کر لے گئے ۔ باہر نکل کر انہوں نے اس ہال کا دروازہ بند کر کے تالا لگادیا اور اپنے دفتر میں آکر بیٹھ گئے۔ پھر چائے آگئی۔ ہم نے پی۔ کچھ دیر وہ ایک رجسٹر دیکھتے رہے اور پھر گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔
راستے میں انہوں نے مجھ سے کہا،''تم کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟'' میں نے کہا بس یہ بتائیں کہ آپ نے ہال کو اندر سے بند کیوں کیا تھا؟ وہ مسکرائے اور گُڈ کہا اور پھر بتایا،''دیکھو! ہر کام کے کچھ راز ہوتے ہیں اور یہی راز انسان کو اہم بناتے ہیں، اگر یہ عام ہو جائیں تو ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کاروباری راز ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہنر ہے۔ ہم جو رنگ بنا تے ہیں ان کا فارمولا اگر سب کو معلوم ہوجائے تو سب بنالیں گے اور ہماری خاصیت ختم ہوجائے گی، بس ہر کام رازداری سے کرنا۔ اپنے فارمولے کسی بھی قیمت پر کسی کو بھی مت بتانا۔ جب تک تم راز کو راز رکھو گے بادشاہ رہو گے اگر بتادیا تو گداگر۔
ابتدا میں مجھے بہت پریشانی ہوئی، اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، اس لیے مجھے سب فارمولے زبانی یاد رکھنے پڑتے تھے، لیکن مجھے آہستہ آہستہ اس کی مشق ہو گئی اور سچ تو یہ ہے کہ والدین کی دعاؤں سے اﷲ نے میرا دماغ کھول دیا، مجھے آج بھی سارے فارمولے زبانی یاد ہیں۔
ڈیڈی میرے کام سے بہت خوش تھے۔ وہ میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور ممی تو بہت ہی خوش تھیں۔ میں اس وقت جب ہزار روپے بہت زیادہ اچھی تن خواہ سمجھی جاتی تھی بیس ہزار روپے ماہانہ اپنے والدین کو بھیجتا تھا۔ میری کمائی سے ابا نے شان دار گھر بنایا تھا اور زرعی زمین بھی لے لی تھی۔ دو سال بعد میں نے ڈیڈی سے کہا کہ میں کچھ دن کے لیے گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے جب شام کو ہم گھر جا رہے تھے تو وہ راستے میں ایک دفتر میں گئے اور پھر آکر ایک لفافہ مجھے دیا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تم گاؤں جا رہے ہو تو یہ جہاز کا ٹکٹ ہے۔ اس وقت جتنی خوشی مجھے ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا۔
ایک ہفتے تک میں نے خریداری کی اور پھر ممی اور ڈیڈی مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔ ممی نے مجھے گلے لگایا وہ رو رہی تھیں اور پھر کہا بس ایک ہفتے میں واپس آجانا۔ میں وہ منظر نہیں بھول سکتا۔ میں جہاز میں بیٹھا تو بہت جذباتی تھا۔ اسلام آباد تک میں روتا ہوا گیا تھا اور اپنے اﷲ کا شکر ادا کرتا رہا کہ جس نے مجھ جیسے نا اہل کو اس قابل بنایا، اس نے ممی ڈیڈی جیسے لوگوں کو وسیلہ بنایا۔
اسلام آباد ایئر پورٹ پر میری امی ابا اور بھائی بہنیں آئی ہوئی تھیں۔ وہ سب کچھ بھی میں نہیں بھول سکتا۔ ایک ہفتہ لمحوں میں ہی گزرگیا اور میں واپس کراچی آگیا۔ ڈیڈی میرے کام سے بے حد خوش تھے۔ بس یوں سمجھو اﷲ نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ چھے ماہ بعد ڈیڈی اور ممی کچھ دنوں کے لیے جرمنی چلے گئے اور جاتے ہوئے ساری ذمے داریاں مجھ پر ڈال گئے۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے بس اک بات کہی تھی۔ دیکھو! اگر تم بیساکھیوں سے چلو گے تو چل تو لوگے لیکن دوڑ نہیں سکو گے۔ تمہیں دوڑنا ہے۔ اس لیے کسی بیساکھی کا سہارا مت لینا۔ تمہیں جو کرنا ہے خود کرنا ہے، میں کچھ دنوں کے کیے جارہا ہوں۔ مجھے یقین ہے تم سارے کام پوری ذمے داری، اعتماد اور دل جمعی سے کروگے۔ میں فون پر رابطے میں رہوں گا، پہلے خود سوچنا اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچو تو پوچھ لینا، لیکن مجھے خوشی ہوگی اگر تم سارے کام خود سر انجام دو۔
وہ پہلا دن بھی مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ میں لیب میں اکیلا تھا اور مجھے اکیلے کام کرنا تھا۔ میں نے اﷲ سے دعا کی اور پھر شروع ہوگیا۔ ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور ڈیڈی نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ البتہ ممی دن میں دو مرتبہ میری خیریت پوچھتی تھیں۔ بیس دن بعد ڈیڈی ممی واپس آگئے۔ اس وقت تک میں ڈرائیونگ سیکھ چکا تھا، بلکہ مجھے کار بھی مل گئی تھی۔ ڈیڈی نے ایئر پورٹ پر ہی مجھے بہت پیار کیا۔ میں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے تو مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ وہ مسکرائے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ روزانہ چار مرتبہ فون کرکے میری کارکردگی معلوم کرتے رہے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ اس دوران میں نے کو ئی غلطی نہیں کی۔ اس کے بعد تو ساری ذمے داریاں مجھے سونپ دی گئیں اور اﷲ کا احسان ہے کہ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ دس سال بیت گئے تھے اور میں اب اس کام کے ماہرین میں شمار ہونے لگا تھا، پیسے مجھ پر بارش کی طرح برس رہے تھے۔
ایک دن ڈیڈی اور ممی نے وہ کہا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ڈیڈی اور ممی نے کہا،''بیٹا! اب تم سب کچھ سیکھ چکے ہو ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے، تم ہی ہمارے بیٹے ہو۔ تم نے بہت محنت کی ہے اور خود کو اس کام کا اہل ثابت کیا ہے اور بیٹے کا حق بھی ادا کیا ہے۔ میں نے اس ٹیکسٹائل مل کے اپنے حصے کے تمام شیئر تمہارے نام منتقل کردیے ہیں اب ہمیں واپس جرمنی جانا ہے۔ اس لیے ہم اگلے ہفتے جا رہے ہیں۔ تم جرمنی ضرور آنا اور ہم بھی کبھی کبھی آیا کریں گے۔'' یہ سن کر مجھے لگا کہ میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ میرے آنسو تھم نہیں رہے تھے، لیکن حقیقت سامنے تھی، میں نے بہت منت سماجت کی، بہت رویا، لیکن وہ وقت بھی آہی گیا جب ممی ڈیڈی چلے گئے اور میں تنہا رہ گیا۔
اب میں مل کا مالک تھا، لیکن پہلے دن ہی میں نے غلطی کی اور ایک لاکھ مالیت کا کیمیکل اور رنگ مجھ سے ضائع ہو گیا۔ یہ میری پہلی غلطی تھی، لیکن اس کا جواز تھا کہ میں خود کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ پھر زندگی بدل گئی تھی۔ میں کئی مرتبہ جرمنی گیا اور ممی ڈیڈی بھی یہاں آئے۔
ایک دن مجھے معلوم ہوا کی ممی ڈیڈی کا روڈ ا یکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ آج میرے پاس جو کچھ ہے، اور سب کچھ ہے، وہ ان ہی کی دین ہے۔ اﷲ نے انہیں وسیلہ بنا دیا۔ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اب ادھورا ہوں۔ وہ تھے تو جینا بہار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی بھائی جان کی جیون کتھا۔ میں نے خود دیکھا ہے وہ اپنے ورکر کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ بوائلر پھٹ گیا تھا اور سات مزدور زخمی ہو گئے تھے۔ صبح سویرے ہم پہنچے تو ایک منیجر نے کہا،''انہیں سول اسپتال بھیج دیتے ہیں۔'' بھائی جان نے اسے بہت ڈانٹا اور کہا،''یہی مزدور ہیں جن کی محنت سے تمہیں تن خواہ ملتی اور میں عیاشی کرتا ہوں۔'' اور پھر سارے مزدوروں کو شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ سات ماہ تک زیر علاج رہے اور پھر انہیں تین ماہ کی مزید رخصت دی گئی۔
ایک مرتبہ بھائی جان نے برانڈ نیو کار لی، نئی گاڑیوں کا انہیں بہت شوق تھا، اور اپنے ڈرائیور کو شوروم بھیجا۔ راستے میں کار کا حادثہ ہوگیا اور وہ مکمل طور تباہ ہوگئی۔ انہیں جب معلوم ہوا تو پہنچے اور اپنے ڈرائیور کو دیکھا اور کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کار تو نئی بھی لے سکتے ہیں، تمہیں کچھ ہوجاتا تو کیا کرتے۔ رمضان میں انہوں نے مختلف جگہوں پر پھل والے منتخب کیے تھے جہاں سے پورے ماہ ان کے مزدور افطاری لیا کرتے، جس کی ادائیگی وہ خو د کیا کرتے۔
عیدِقرباں پر سارے مزدوروں میں قربانی کے بکرے تقسیم کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ان کے بچے ضد کریں گے تو یہ کہاں سے لائیں گے، ان کی بھی خواہشات ہیں۔ وہ انتہائی انسان دوست تھے۔ میں نے کبھی بھی ان کے پاس سے کسی کو بھی خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ بلا کے سگریٹ نوش اور بزلہ سنج، اپنے محلے، اپنے مزدوروں اور عام لوگوں کا بے انتہا خیال رکھنے والے بھائی جان کا جب انتقال ہوا تو ایک بھی آنکھ ایسی نہیں تھی جو برس نہ رہی ہو۔
(عبداللطیف ابوشامل سینیر صحافی ہونے کے ساتھ جہاں گشت بھی ہیں۔ انھوں نے کم عمری میں گھر کا عیش وآرام چھوڑا اور برسوں فٹ پاتھوں سے ویرانوں تک زندگی بتاتے رہے۔ اس دوران ان کا واسطہ قسم قسم کے لوگوں سے پڑا۔ ان میں سے بہت سے کردار اور ان کی کہانیاں حیرت اوردل چسپی کے پہلو سمیٹے ہوئے ہیں۔ عبداللطیف ابوشامل سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے یہ کہانیاں تحریر کریں گے۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ پڑھنے والوں کو پسند آئے گا)