روس نے شام پر امریکی حملے میں رکاوٹ ڈال دی

روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جی 20 اجلاس میں شریک عالمی طاقتیں شام کے خلاف فوجی کارروائی پر متفق نہ ہو سکیں۔

اگر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کیا گیا تو شام کو میزائل دفاعی نظام فراہم کریں گے،روس۔ فوٹو:فائل

روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جی 20 اجلاس میں شریک عالمی طاقتیں شام کے خلاف فوجی کارروائی پر متفق نہ ہو سکیں۔ یا بالفاظ دیگر روسی صدر ولادی میر پوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب بارک اوباما کے مابین اس مسئلے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ روس کا کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کیا گیا تو وہ شام کو میزائل دفاعی نظام فراہم کر د ے گا۔ گویا فی الوقت شام پر امریکی حملے کی راہ میں روس ہی رکاوٹ ہے۔ ادھر روسی اراکین پارلیمنٹ نے امریکا کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔ دنیا کے20 بڑے ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی ٹوئنٹی کے دو روزہ اجلاس کے پہلے روز عشائیے میں شام کی صورتحال پر غور کیا گیا ، یہاں روس، چین اور بھارت نے شام پر حملے کی مخالفت کی۔

ادھر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نئے شواہد ملے ہیں اور اب اگر امریکا پیچھے ہٹا تو اس سے بشار الاسد اور ان جیسے دیگر حکمرانوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں شام کا مسئلہ حاوی رہا حالانکہ یہ رسمی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی قوتوں کے لیے یہ بحران کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس کے اختتام پر صدر باراک اوباما نے تسلیم کیا کہ شام پر حملہ کرنے کے بارے میں عالمی رہنمائوں کی رائے منقسم ہے۔ صدر پیوٹن نے امریکی صدر سے ایک غیرمتوقع ملاقات بھی کی ہے' اس کے بعد پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شام پر حملے کے پورے مشرق وسطی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔


صدر اوباما نے کہا ہے کہ جی ٹوئنٹی ملکوں کے رہنمائوں میں اس بات پر اتفاق تھا کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے، اختلاف اس بات پر تھا کہ اس پر کیا ردعمل اختیار کیا جائے۔ چین، بھارت، انڈونیشیا، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ اور اٹلی نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ ایک طرف یہ منظر نامہ ہے کہ امریکا کو جی 20 تنظیم کے اجلاس میں شریک ممالک کی اکثریت کی حمایت نہیں ملی لیکن سینٹ پیٹرزبرگ میں ہی جی 20 تنظیم کے رکن 11 ملکوں کا الگ اجلاس ہوا ہے' اس میں امریکا بھی شریک تھا' اس اجلاس میں شریک سربراہان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے عالمی برادری سے شام میں گزشتہ ماہ ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے پر سخت بین الاقوامی ردِعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مذکورہ بیان وہائٹ ہائوس سے جاری ہوا ہے۔

بیان پر دستخط کرنے والوں میں امریکا کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، سعودی عرب، اسپین ، ترکی اور برطانیہ شامل ہیں۔ ادھر امریکا نے بیروت میں واقع امریکی سفارتخانے سے تمام غیرضروری سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا شام حملہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری شام کے مسئلہ پر حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپ کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔
Load Next Story