ایران اور امریکا آبنائے تصادم پر
اگر دوررس نگاہوں سے دیکھا جائے تو اقتصادی طور پر اردگرد کے ممالک بھی معاشی گرداب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
سابق امریکی صدر بارک حسین اوباما جو انگریزی شارٹ فورم کی دنیا میں برک اوباما کے نام سے مشہور ہیں انھوں نے ایران سے ایک باعزت معاہدہ کیا تھا جس میں ایران کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت دی مگر ایٹمی ہتھیاروں کی ساخت پر ہر قسم کی پابندی۔ مگر راکٹ سازی پر کوئی پابندی نہیں۔ اس کے علاوہ تجارتی پابندیوں کا بھی بتدریج خاتمہ اور بھی بہت سی شقیں۔
اس معاہدے کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ روس اور مغربی ممالک کے اہم اراکین اس کے گواہ کے طور پر شامل تھے۔ لہٰذا ایران کی ترقی کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت تھی جس سے ایرانی عوام کا معیار زندگی بڑھنے کے یقینی حالات تھے۔
مگر ایران اور حزب اللہ اور عراقی رضا کاروں کی مدد سے داعش کا خاتمہ ہوجانا اور امریکا نواز حمایتوں کی شام کے محاذ پر مکمل شکست نے ڈونلڈ ٹرمپ کو زبردست ایران مخالف بنادیا۔ کیونکہ فرنٹ لائن پر حزب اللہ اور تاتاری قومیت کے لوگ جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اور عرب دنیا خصوصاً امریکی یافتہ شامی اور دیگر ممالک کے لوگ حزیمت اٹھا رہے تھے۔ اس سے امریکی اسلحہ تو بک رہا تھا، لیکن انھیں نظریاتی شکست کا سامنا تھا کیونکہ اس کے اثرات دیگر عرب ریاستوں پر اور ان کے حامیوں پر براہ راست پڑ رہے تھے۔ جن میں اسرائیل سرفہرست تھا۔ کیونکہ داعش کے تربیت یافتہ زخمیوں کے علاج معالجے اسرائیل میں ہو رہے تھے۔
یہاں ایک اور غور طلب پہلو مسٹر ٹرمپ کا جو سامنے آتا ہے کہ ان کی اسرائیل نوازی نسبتاً اس لیے زیادہ ہے کہ ان کے داماد نہ صرف مذہبی طور پر اسرائیل نواز ہیں بلکہ عقائد و نظریات بھی وہی ہیں۔ پھر اس جنگ سے امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بے انتہا فائدے ہوئے بلکہ مسٹر ٹرمپ جب پہلی بار سعودی عرب کے دورے پر گئے تو نہ صرف یہ کہ ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا بلکہ ان کا کھربوں ڈالر کا اسلحہ بھی خریدا گیا۔
یہاں اس پہلو کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکی صدور جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے نظریات میں فرق تو ہوتا ہے۔ مگر اتنا شدید اختلاف نہیں ہوتاکہ ایک صدر تجارتی پابندیاں کرکے جا رہا ہے جب کہ دوسرا صدر اس کے برعکس فیصلہ کرتا ہے۔ یہ سیاسی اختلاف سے بڑھ کر عقائد کا تصادم نظر آتا ہے۔ جو امریکا جیسے وسیع النظر، رنگ نسل اور مذہب سے بالاتر اسٹیٹ کو زیب نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ فکری اور جمہوری اختلاف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حالیہ دنوں میں جو بات باعث اختلاف بنی وہ بات یمن کے مسئلے سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب اور ایران کا موقف یمن کے موضوع پر مختلف ہے۔ ایک طرف اسلامی اتحاد نامی افواج ہیں تو دوسری جانب حوثی قبائلی ہیں۔
جن کے متعلق سعودی عرب کا کہنا یہ ہے کہ انھیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ تو اس کو ہم ایک طرح کی ''پراکسی وار'' کہہ سکتے ہیں اس وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس جنگ میں توقع یہ تھی کہ عراق ایرانی پارٹنر ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق کے ایک جنگجو سورما مقتدا صدر کے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں اس لیے عراقی عوام خصوصاً عسکری طبقہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے عراق کے محاذ پر ایران کو وہ سبقت حاصل نہیں جس کی توقع کی جاسکتی تھی۔ اگر پوری کی پوری عراقی قیادت ایران کے نظریات سے متفق ہوتی تو ممکن ہے کہ سعودی قیادت اور ایران میں اتنا تصادم نہ ہوتا اور امریکا کو اسلحے کی اتنی بڑی منڈی حاصل نہ ہوتی۔ اب چونکہ ایران اور سعودی زبانی تکرار بڑھتی جا رہی ہے اور خلیج عمان میں پٹرولیم کے جہاز گولہ باری کی زد میں آرہے ہیں۔ تو اس کا الزام شاہی ریاستیں ایران پر لگا رہی ہیں۔ سب ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
ایسے پرہول موقع پر جب کہ امریکا ان ریاستوں کے ساتھ ہے تو ایران ایسی حماقت نہیں کرسکتا اور ان کے دفاعی افسران اور حکومت بھی انکار کرچکے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں تقریباً ایک ہفتہ قبل آبنائے ہرمز میں (ہرمزان شہر کے قریب) امریکی ڈرون کو ایران نے مار گرایا۔ بقول ان کے یہ ڈرون ان کی اہم تنصیبات کی تصاویر لے رہا تھا۔ معاملہ جو بھی ہو یہ ایک حادثے کی شکل اختیار کرگیا اور بقول ڈونلڈ ٹرمپ کے انھوں نے فوری طور پر جنگ کا آرڈر دے دیا تھا۔ بقول صدر گرامی انھوں نے انسانی ہلاکتوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنا حکم نامہ منسوخ کردیا۔ اگر ایسا ہے تو آیندہ بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات جو سرحدی نوعیت کے ہوتے ہیں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ نہ بنیں۔ کیونکہ اس سے زیادہ بڑی غلطیاں یا اختلاف کم جانگ ان شمالی کوریا کے صدر کرچکے ہیں۔
اور بات آئی گئی ہوگئی ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ تاریخ کا بڑا واقعہ ہوگا۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی بڑی شخصیات میں سے ایک ہوں گے۔ جیسے انسانی حقوق کے امریکی صدر تھامس جیفرسن کرچکے ہیں۔ اور آج بھی دنیا میں ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہاں! اگر یہ تمام کارروائی اسلحہ بیچنے کے لیے ہے تو اس کو سیاسی حکمت عملی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یمن کی جنگ بھی اسلحے کی فروخت کا ایک محدود ذریعہ ہے جس سے خلیجی ریاستوں کو اپنے اپنے علاقے کے لیے جنگی سامان خریدنے کی خواہش یقینا پیدا ہوگی۔ لیکن اگر یہ واقعہ جنگ کی شکل اختیار کرگیا تو یہ جنگ عراق کی جنگ ثابت نہ ہوگی۔ کیونکہ عراق کی فوج کے سربراہان طارق عزیز جیسے لوگ تھے۔ اور عراق چند روز بھی اپنا دفاع نہ کرسکا۔ جب کہ ایران کی فوج کا ایک غیر رسمی حصہ پاسداران انقلاب بھی ہے۔ جو گلی کوچوں کی جنگ سے واقف ہے۔ یعنی اس جنگ میں ''ہوچی منہ'' کا انداز بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اور عراق سے آیت اللہ سیستانی کے حامی ایرانی پاسداران انقلاب کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر مختلف مذہبی گروپ جنگ کے دائرے کو وسیع کر سکتے ہیں جس سے خصوصاً پڑوسی ممالک متاثر ہوسکتے ہیں۔
اگر دوررس نگاہوں سے دیکھا جائے تو اقتصادی طور پر اردگرد کے ممالک بھی معاشی گرداب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور پھر اسلحے کا کوئی خریدار نہ رہے۔ دوسرا خطرہ اس جنگ کا یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسری بڑی طاقت بھی اس جنگ میں براہ راست نہ سہی پراکسی وار میں شریک ہوجائے اور یہ جنگ لبنان سے اسرائیل تک پھیل جائے اور یہ بڑی جنگ کہیں تاریخ میں یوں نہ لکھی جائے کہ ایک جنگ جو ایک ڈرون گرانے سے شروع ہوئی پورے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے علاقوں تک پہنچی اور اس میں ہلاکتوں کی تعداد نصف کروڑ تک پہنچی۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ کئی ممالک کی جغرافیائی سرحدیں بھی تبدیل ہو جائیں۔ جیساکہ عام طور پر ماضی میں دو عالمی جنگوں کے بعد تبدیل ہوچکی تھیں ۔ اس لیے آبنائے ہرمز کا نام ممکن ہے کہ تاریخ نویس آبنائے تصادم رکھ دیں۔
اس معاہدے کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ روس اور مغربی ممالک کے اہم اراکین اس کے گواہ کے طور پر شامل تھے۔ لہٰذا ایران کی ترقی کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت تھی جس سے ایرانی عوام کا معیار زندگی بڑھنے کے یقینی حالات تھے۔
مگر ایران اور حزب اللہ اور عراقی رضا کاروں کی مدد سے داعش کا خاتمہ ہوجانا اور امریکا نواز حمایتوں کی شام کے محاذ پر مکمل شکست نے ڈونلڈ ٹرمپ کو زبردست ایران مخالف بنادیا۔ کیونکہ فرنٹ لائن پر حزب اللہ اور تاتاری قومیت کے لوگ جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اور عرب دنیا خصوصاً امریکی یافتہ شامی اور دیگر ممالک کے لوگ حزیمت اٹھا رہے تھے۔ اس سے امریکی اسلحہ تو بک رہا تھا، لیکن انھیں نظریاتی شکست کا سامنا تھا کیونکہ اس کے اثرات دیگر عرب ریاستوں پر اور ان کے حامیوں پر براہ راست پڑ رہے تھے۔ جن میں اسرائیل سرفہرست تھا۔ کیونکہ داعش کے تربیت یافتہ زخمیوں کے علاج معالجے اسرائیل میں ہو رہے تھے۔
یہاں ایک اور غور طلب پہلو مسٹر ٹرمپ کا جو سامنے آتا ہے کہ ان کی اسرائیل نوازی نسبتاً اس لیے زیادہ ہے کہ ان کے داماد نہ صرف مذہبی طور پر اسرائیل نواز ہیں بلکہ عقائد و نظریات بھی وہی ہیں۔ پھر اس جنگ سے امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بے انتہا فائدے ہوئے بلکہ مسٹر ٹرمپ جب پہلی بار سعودی عرب کے دورے پر گئے تو نہ صرف یہ کہ ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا بلکہ ان کا کھربوں ڈالر کا اسلحہ بھی خریدا گیا۔
یہاں اس پہلو کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکی صدور جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے نظریات میں فرق تو ہوتا ہے۔ مگر اتنا شدید اختلاف نہیں ہوتاکہ ایک صدر تجارتی پابندیاں کرکے جا رہا ہے جب کہ دوسرا صدر اس کے برعکس فیصلہ کرتا ہے۔ یہ سیاسی اختلاف سے بڑھ کر عقائد کا تصادم نظر آتا ہے۔ جو امریکا جیسے وسیع النظر، رنگ نسل اور مذہب سے بالاتر اسٹیٹ کو زیب نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ فکری اور جمہوری اختلاف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حالیہ دنوں میں جو بات باعث اختلاف بنی وہ بات یمن کے مسئلے سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب اور ایران کا موقف یمن کے موضوع پر مختلف ہے۔ ایک طرف اسلامی اتحاد نامی افواج ہیں تو دوسری جانب حوثی قبائلی ہیں۔
جن کے متعلق سعودی عرب کا کہنا یہ ہے کہ انھیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ تو اس کو ہم ایک طرح کی ''پراکسی وار'' کہہ سکتے ہیں اس وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس جنگ میں توقع یہ تھی کہ عراق ایرانی پارٹنر ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق کے ایک جنگجو سورما مقتدا صدر کے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہیں اس لیے عراقی عوام خصوصاً عسکری طبقہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے عراق کے محاذ پر ایران کو وہ سبقت حاصل نہیں جس کی توقع کی جاسکتی تھی۔ اگر پوری کی پوری عراقی قیادت ایران کے نظریات سے متفق ہوتی تو ممکن ہے کہ سعودی قیادت اور ایران میں اتنا تصادم نہ ہوتا اور امریکا کو اسلحے کی اتنی بڑی منڈی حاصل نہ ہوتی۔ اب چونکہ ایران اور سعودی زبانی تکرار بڑھتی جا رہی ہے اور خلیج عمان میں پٹرولیم کے جہاز گولہ باری کی زد میں آرہے ہیں۔ تو اس کا الزام شاہی ریاستیں ایران پر لگا رہی ہیں۔ سب ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
ایسے پرہول موقع پر جب کہ امریکا ان ریاستوں کے ساتھ ہے تو ایران ایسی حماقت نہیں کرسکتا اور ان کے دفاعی افسران اور حکومت بھی انکار کرچکے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں تقریباً ایک ہفتہ قبل آبنائے ہرمز میں (ہرمزان شہر کے قریب) امریکی ڈرون کو ایران نے مار گرایا۔ بقول ان کے یہ ڈرون ان کی اہم تنصیبات کی تصاویر لے رہا تھا۔ معاملہ جو بھی ہو یہ ایک حادثے کی شکل اختیار کرگیا اور بقول ڈونلڈ ٹرمپ کے انھوں نے فوری طور پر جنگ کا آرڈر دے دیا تھا۔ بقول صدر گرامی انھوں نے انسانی ہلاکتوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنا حکم نامہ منسوخ کردیا۔ اگر ایسا ہے تو آیندہ بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات جو سرحدی نوعیت کے ہوتے ہیں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ نہ بنیں۔ کیونکہ اس سے زیادہ بڑی غلطیاں یا اختلاف کم جانگ ان شمالی کوریا کے صدر کرچکے ہیں۔
اور بات آئی گئی ہوگئی ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ تاریخ کا بڑا واقعہ ہوگا۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی بڑی شخصیات میں سے ایک ہوں گے۔ جیسے انسانی حقوق کے امریکی صدر تھامس جیفرسن کرچکے ہیں۔ اور آج بھی دنیا میں ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہاں! اگر یہ تمام کارروائی اسلحہ بیچنے کے لیے ہے تو اس کو سیاسی حکمت عملی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یمن کی جنگ بھی اسلحے کی فروخت کا ایک محدود ذریعہ ہے جس سے خلیجی ریاستوں کو اپنے اپنے علاقے کے لیے جنگی سامان خریدنے کی خواہش یقینا پیدا ہوگی۔ لیکن اگر یہ واقعہ جنگ کی شکل اختیار کرگیا تو یہ جنگ عراق کی جنگ ثابت نہ ہوگی۔ کیونکہ عراق کی فوج کے سربراہان طارق عزیز جیسے لوگ تھے۔ اور عراق چند روز بھی اپنا دفاع نہ کرسکا۔ جب کہ ایران کی فوج کا ایک غیر رسمی حصہ پاسداران انقلاب بھی ہے۔ جو گلی کوچوں کی جنگ سے واقف ہے۔ یعنی اس جنگ میں ''ہوچی منہ'' کا انداز بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اور عراق سے آیت اللہ سیستانی کے حامی ایرانی پاسداران انقلاب کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر مختلف مذہبی گروپ جنگ کے دائرے کو وسیع کر سکتے ہیں جس سے خصوصاً پڑوسی ممالک متاثر ہوسکتے ہیں۔
اگر دوررس نگاہوں سے دیکھا جائے تو اقتصادی طور پر اردگرد کے ممالک بھی معاشی گرداب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور پھر اسلحے کا کوئی خریدار نہ رہے۔ دوسرا خطرہ اس جنگ کا یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسری بڑی طاقت بھی اس جنگ میں براہ راست نہ سہی پراکسی وار میں شریک ہوجائے اور یہ جنگ لبنان سے اسرائیل تک پھیل جائے اور یہ بڑی جنگ کہیں تاریخ میں یوں نہ لکھی جائے کہ ایک جنگ جو ایک ڈرون گرانے سے شروع ہوئی پورے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے علاقوں تک پہنچی اور اس میں ہلاکتوں کی تعداد نصف کروڑ تک پہنچی۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ کئی ممالک کی جغرافیائی سرحدیں بھی تبدیل ہو جائیں۔ جیساکہ عام طور پر ماضی میں دو عالمی جنگوں کے بعد تبدیل ہوچکی تھیں ۔ اس لیے آبنائے ہرمز کا نام ممکن ہے کہ تاریخ نویس آبنائے تصادم رکھ دیں۔