حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
شیخ رشیداحمد پرٹرینوں کی تعداد بڑھانے کاجنون سوارہے اوروہ نئی نئی ٹرینیں چلا کر اپنی کامیابی کا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔
جمعرات 20جون کو شام کے تقریباََ سوا پانچ بجے لاہور جانے والی ٹرین جناح ایکسپریس حیدر آباد کے قریب پٹھان گوٹھ کے مقام پر پنجاب کے مقام یوسف والا جانے والی مال گاڑی سے جا ٹکرائی ۔ اس حادثے کے نتیجے میں ڈرائیور سمیت 4 افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے ۔ مال گاڑی کے تین ڈبے پٹڑی سے اُترکر تباہ ہوگئے جب کہ خوش قسمتی سے مسافر ٹرین کی کوئی بوگی پٹڑی سے نہیں اُتری ، البتہ اس کا انجن تباہ ہوگیا ۔
اس کے علاوہ ریل کی پٹڑی کا ایک حصہ بھی اس حادثے سے متاثر ہوا جس کی مرمت کے بعد بحالی کے باعث کئی ٹرینوں کی آمدو رفت میں کافی تاخیر ہوئی اور مسافروںپریشانی اورکوفت برداشت کرنا پڑی ۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے حادثے کی فوری انکوائری کے احکامات صادر کر دیے تاہم ماضی کے تجربے کے حوالے سے اس انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بارے میں بزبان ِ غالب محض یہی کہنے پر اکتفا کرنا پڑے گا :
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
باالفرض اگر انکوائری کا کوئی نتیجہ آ بھی گیا تو اس میں کسی پتلی گردن میں ہی پھندا ڈالنے کی کوشش کے امکانات مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب تک کی روش یا وطیرہ یہی ہے ۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کے ایک سابق وزیر ِ ریلوے آنجہانی لعل بہادر شاستری نے انڈین ریلوے کے ایک حادثے کے فوراََ بعد اپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے نتیجے میں ان کی عوامی مقبولیت کا گراف اتنا بلند ہوا کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم کے بلند ترین منصب پر فائز ہوئے ۔
موجودہ حکومت کی دس ماہ کی مختصر مدت کے دوران دو چار نہیں بلکہ 44 ٹرین حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں ایک جانب پاکستان ریلوے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور دوسری جانب ریلوے کے شیڈول کو درہم برہم کر دیا ہے ۔ شیخ رشید احمد ریلوے کی وزارت میں نو وارد نہیں ہیں ۔ ریلوے کی وزارت کا قلمدان انھیں ان کے سابقہ تجربے کی بناء پر ہی دوسری مرتبہ سونپا گیا ہے ۔ اب اگر وہ توقع پر پورے نہ اُترے تو اس میں بیچارے وزیر اعظم عمران خان کا بھلا کیا قصور ہے ۔ 1861 میں برِصغیر میں انگریز حکمرانوں کا قائم کیا ہوا ریلوے نظام ہمیں بھی بھارت کی طرح آزادی کے وقت ورثے میں ملا تھا ۔لیکن نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ریلوے کے نظام کے سدھارنے اور سنوارنے کے بجائے ٹھیک سے برقرار بھی نہ رکھ سکے۔ اس کے برعکس آزادی کے بعد بھارتی ریلوے نے قابل رشک ترقی کی ہے جس کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے :
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
انڈین ریلویز صرف حکومت کا ایک اہم ترین محکمہ ہی نہیں بلکہ سرکاری آمدن کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ یہ ایک کماؤ پُوت ہے ۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومت نے ، خواہ اس کا تعلق بھارت کی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اس محکمے کی ترقی و توسیع پر بھر پور توجہ دی ہے اور بھارتی ریلوے کے ہر وزیر نے اپنی کارکردگی کے لحاظ سے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لالو پرساد یادَو جیسے بدنامِ زمانہ سیاستدان نے بھی وزیر ریلوے کی حیثیت سے اپنے محکمے کی ترقی اور توسیع کے لیے گرِاں قدر خدمات انجام دیں جن کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے ۔ قومی ادارہ خواہ کوئی بھی ہو اس کی ترقی کا دارومدار مخلص اور اہل قیادت پر ہوتا ہے ۔
قومی ایئرلائن پی آئی اے کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے ایئر مارشل اصغر خان اور ایئرمارشل نورخان جیسے مخلص ، بے لوث اور لائق و فائق سربراہوں نے اپنی انتھک محنت و خدمت کی بدولت فرش سے اُٹھا کر عرش کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ۔ لیکن اس کے بعد قیادت کے فقدان کی وجہ سے یہ مثالی ادارہ مسلسل زوال کا شکار ہوکر خسارے میں چلا گیا جس کی بحالی کے لیے کوششیں کیں جارہی ہیں ۔ پاکستان ریلوے کا حالیہ حادثہ اس ادارے کی جانب مسلسل عدم توجہی بلکہ مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے ۔البتہ صدر جنرل ضیاء الحق کے منتخب کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے وزیر ریلوے کی حیثیت سے اس ادارے کی اصلاح و ترقی کے لے مثالی خدمات انجام دیں ۔
شیخ رشید صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سروس سے زیادہ لِپ سروس یعنی زبانی جمع خرچ کے زیادہ قائل ہیں چنانچہ جب وہ بولنے پر آتے ہیں تو بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی طوفان میل ٹرین کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ عوامی ہونے کے حوالے سے ان کا لب و لہجہ بھی خالص '' عوامی'' ہوتا ہے جسے عوام بہت انجوائے کرتے ہیں۔ کسی قادر الکلام شاعر کی طرح شیخ صاحب کو بھی اپنے بارے میں شائد یہ گمان ہے کہ :
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
شیخ صاحب ہمہ صفت موصوف ہیں ۔ وہ اردولغت میں بہت سے نئے الفاظ کے اضافے کے حامل ہیں جن کا استعمال صرف ان ہی کے منہ سے اچھا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے سیاست کی زبان میں بہت سی اصطلاحات بھی متعارف کروائی ہیں۔ عوامی ذوق کے حامل ناظرین اچھے سے اچھے شو پر ان کے پروگرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہی ان کی کامیابی کی کنجی ہے ۔ عوام سے گہری اور سچی محبت کا ثبوت بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ شیخ صاحب نے اپنی سیاسی جماعت کا نام عوامی مسلم لیگ رکھا ہے ۔
شیخ رشید احمد پر ٹرینوں کی تعداد بڑھانے کا جنون سوار ہے اور وہ نئی نئی ٹرینیں چلا کر اپنی کامیابی کا لوہا منوانا چاہتے ہیں جس کے لیے ایک طرف پرانی کوچوں اور انجنوں کو ٹھوک پیٹ کر کام میں لایا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب ان کوچوں اور انجنوں کو بھی بروئے کار لایا جارہا ہے جو کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سنبھال کر رکھے گئے تھے ۔ کاش ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بجائے ریلوے کے فر سودہ نظام کو درست کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہوتی تاکہ حادثات کا تدارک ہوتا اور ریل گاڑیوں کی آمدو رفت کو یقینی بنایا جاسکتا ۔
بہرحال شیخ صاحب نے ٹرین کے حالیہ حادثے پر عوام سے معافی مانگ لی ہے جو ایک خوش آیند بات ہے ۔ اگر وہ یہ زحمت بھی گوارہ نہ کرتے تو کوئی ان کا بھلا کیا بگاڑ لیتا۔ لیکن اگر وہ عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیتے تو قوم انھیں اپنے سر پر بیٹھالیتی اور پاکستان کی تاریخ میں ان کا نام امر ہوجاتا ۔ عوام ان کی عظمت کو سلام کرتے اور ان کی تعریف میں قصیدے پڑھتے۔ افسوس انھوں نے یہ نادر موقع ضایع کر دیا ۔