کیا قدرت میں توازن موجود ہے
انسان اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا میں براجمان ہے۔
زمین پر سب سے زیادہ ارتقا یافتہ مخلوق ہونے کی بنیاد پر ایک مدت دراز تک انسان نے ہر شے کو اپنی ملکیت سمجھا، بہت سے انسان تو آج بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ انسان کی اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر ذہین انسان خود سے پوچھتا پھرتا ہے۔کیا یہ کائنات اونچ نیچ کے اصول پر بنی ہے یا اسے صرف مساوات کی بنیاد پر تخلیق کیا گیا؟
کاش انسان نے زینوکا یہ قول نظرانداز نہ کیا ہوتا کہ زندگی کا مقصد فطرت سے سمجھوتا کرنا ہے۔'' انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی، چھوٹی بڑی اور زندہ مردہ چیزوں میں آج کوئی توازن ہے یا نہیں؟ اگر آج نہیں تو کیا ماضی میں تھا؟ ماضی میں تھا تو اسے کس نے بگاڑا؟ کیا خود انسان نے توازن قدرت کو مجروح کیا؟
یہ اور ایسے بیسیوں سوال اس وقت انسانی ذہن میں ابھرتے ہیں جب اسے زندگی کی مصنوعی خوبصورتی کے جال سے رہائی پا کر فطرت کے حسن کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ شاید ایسے ہی کسی سوال نے ذہنی بلوغت کے آغاز ہی میں اسے قدرتی خاندانوں اور گروہوں کی طرف متوجہ کرلیا۔ شکارکی جستجو میں جب وہ جنگلوں میں نکلتا تو اس بات پر بھی یقینا غور کرتا کہ کس گوشے میں شکار ہے اور کہاں خطرے کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ بس یہیں سے اس نے قدرت سے اپنے اور دوسروں کے رشتے پر سوچ کی عادت ڈال لی۔
اس حقیقت کے باوجود جوکہ انسان نے ابتدائے دانش ہی سے قدرت اور اس کے مناظر پر غور شروع کردیا تھا۔ قدرتی توازن کی سائنس بیسویں صدی ہی میں سامنے آئی۔ چنانچہ پرنسٹن یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان روبرٹ مے کہتے ہیں کہ اس سائنس کی جو ذمے داریاں ہیں وہ طبیعاتی سائنس سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم جن اشیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس تیزی سے غائب ہوتی جا رہی ہیں یقینا طبیعاتی سائنسدانوں کو ایسی پریشانیاں لاحق نہیں۔
ابھی کچھ عرصے تک تو اس بات کا فیشن چل نکلا تھا کہ تمام حیاتیات کے گروہ ایسے منظم نظام ہیں جو خاص قوتوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کسی جزیرے پر جانور موجود ہوں تو ان کے درمیان شکار اور مسابقت سے توازن قائم رہتا ہے۔ مثال کے طور پر (الف) قسم کے جانوروں کا شکار (ب) قسم کے جانورکرتے ہیں۔ اور (ب) قسم کے جانوروں کے لیے پ اور ت قسم کے جانوروں میں مسابقت جاری رہتی ہے لیکن اب یہ خیال سامنے آرہا ہے کہ انسانی ذہن ہر شے میں خود ہی ترتیب تلاش کرلیتا ہے۔ چنانچہ فلوریڈا یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان ڈینیل سمبر لوف کہتے ہیں:
''ہم سب کی یہ عادت ہے کہ ہر شے میں ترتیب تلاش کرتے ہیں، قدرت کے متعلق سوچتے وقت ہم اسی عادت کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن اس وقت بے چینی محسوس کرتا ہے جب کسی شے میں ترتیب نہیں پاتا۔''
ایسے ہی خیالات کے نتیجے میں اب رجحان قطعی بدل رہا ہے اور انسانی ذہن میں موجود قدرتی تعصب سے دامن بچاتے ہوئے بے ترتیبی پر غور کا آغاز ہو رہا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے رابرٹ کوول ایسے ہی مشاہدات کی بنا پر کہتے ہیں:
''جوں جوں اس زاویے سے غور و فکر کا دامن وسیع کیا جاتا ہے یہ دنیا ایک بے ترتیب طوفانی جگہ محسوس ہوتی ہے جنگوں میں گرتے درختوں اور طوفانوں سے بدلتے ساحلوں پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف انواع کے بیک وقت رہنے کی گنجائش ہے۔''
ایک دوسرے سائنسدان ہنری ولیر (پروفیسر حیوانیات ڈیوک یونیورسٹی) اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
''لوگوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ گو حیاتیاتی گروہوں کی سرگرمیوں کا رخ توازن ہی کی طرف رہتا ہے۔ اس کے باوجود اس کھیل کے اصول جلد جلد بدلتے رہتے ہیں۔''
قدرتی ماحول کی میکانیت اور توازن کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں ایکو سسٹم کا کردار بنیادی ہے یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کون سے آلات ، تدابیر، تکنیکات اور اشیا ہیں جن سے ایکو سسٹم مدد لیتا ہے۔
دوسرے مسائل کی طرح ان مسائل کے حل میں بھی کمپیوٹر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چنانچہ برکلے یونیورسٹی کے کوول نے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے جس میں تمام حیاتیاتی انواع کی تفصیل موجود ہوگی۔ ہنری ولبر اس کے مقابلے میں مختلف انداز سے تحقیق کر رہے ہیں پچھلے بارہ برس کے دوران انھوں نے کئی قسم کے مصنوعی تالاب بناکر اس میں ٹیڈپول اور دوسری حیاتی اشیا فراہم کی ہیں۔ ان مصنوعی تالابوں میں قدرتی ماحول پیدا کرکے وہ مسابقت اور دوسری حیاتیاتی اشیا کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نئے نئے تصورات اور تجربات کی انسانی صلاحیت کمپیوٹر سے بڑھ کر ہے۔
جیرڈ ڈائمنڈ کا نام بھی اس ضمن میں نظرانداز کردینا ممکن نہیں۔ اس امریکی فزیالوجسٹ نے ان پرندوں کا قابل ذکر مطالعہ کیا ہے جو منطقہ مارہ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں، ڈائمنڈ کا اس ضمن میں یہ کہنا ہے کہ:
'' توازن کے متعلق کوئی کائناتی قانون موجود نہیں، قدرت میں بے شمار متغیرات موجود ہیں۔ سالمیاتی حیاتیات دان اس وقت کیا کرتے جب جینیاتی کوڈ میں صرف ڈی این اے کی اہمیت نہ ہوتی۔ بلکہ مچھلیوں کی بنیادی اکائی الگ ہوتی اور پرندوں کی الگ ۔اسی طرح ٹھنڈے علاقوں کے زندہ جسم اور شے سے بنے ہوتے اور گرم علاقوں کے اور شے سے، خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اسی حقیقت کے انکشاف پر کہ سارے زندہ اجسام کی بنیادی اکائی ایک سی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں نوبل انعام دیا گیا۔ ماحولیاتی سائنس کے لحاظ سے ایسا بڑا کارنامہ اب اور کوئی نہ ہوگا۔''
مذکورہ بالا حقائق اور مشاہدات کی مدد سے قدرت میں توازن موجود ہونے یا نہ ہونے کی تردید یا تصدیق محال ہے۔ اس کے باوجود انسانی فہم و فلسفہ اور منطق یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ قدرت کا کارخانہ ڈانواں ڈول چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات توازن اور اعتدال ہی کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ جہاں عدم توازن اور بے اعتدالی پیدا ہوئی وہاں موت ناچتی دیکھی گئی ہے، زندگی کو مسکراتا ہوا نہیں پایا گیا۔ اس لیے جلد یا بدیر اس سوال کا یہی جواب آنے کی امید ہے کہ جی ہاں! قدرت میں توازن موجود ہے۔ لیکن ارضی ماحول ایک ایسی چیز ہے جس نے پوری زندگی اور زمین پر موجود ہر شے کو ایک اٹوٹ رشتے میں منسلک کر رکھا ہے۔ اگر اس چادر کا ایک بھی دھاگا کہیں ٹوٹ گیا تو زمین پر زندگی کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ آج ماحول میں موجود نازک توازن قدرت بگڑ گیا ہے۔ اس کو بگاڑنے والا کون ہوسکتا ہے؟ صرف حضرت انسان۔
انسان اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا میں براجمان ہے۔ اپنے ان تماشوں کو وہ صنعتی ترقی کہتا ہے لیکن اس کے لیے جو چیز ترقی ہے وہ قدرت کے نظام کے ساتھ جنگ بھی ہے۔ وہ جگہ جگہ درخت کاٹ رہا ہے اور ہوا میں زہریلی گیس پھیلا رہا ہے۔ صنعتی دھوئیں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اورکلورو فلور وکاربن مرکبات شامل ہیں۔ ان مرکبات کی وجہ سے کرہ ہوا میں موجودہ اوزون کی تہہ ختم ہو رہی ہے۔ اوزون کی یہ تہہ ہمیں سورج کی مہلک بالا بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جمع ہونے سے زمین پر گرمی بڑھ رہی ہے۔
پھر انسان کو شکار کا بھی شوق ہے۔ حیوانات کی ڈھیروں اقسام اس کے شوق کی نذر ہوچکی ہیں اور کئی مٹ جانے کے قریب ہیں۔ یہ سب جانور، چرند پرند، نازک ترین ماحولیاتی نظام کا حصہ تھے اور اب ان کے نہ رہنے کی وجہ سے ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ان حماقتوں کا نقصان آخر کار پوری بنی نوع انسانی کو بھگتنا پڑے گا کہ وہ بھی ایک دن مٹ جائے گی اس لیے کہ زمین کا موسم اور آب و ہوا ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔ کیا ہم یہ چاہیں گے کہ زمین بھی زہرہ کی طرح جہنم زار اور چاند کی طرح ویران ہوجائے؟ اگر نہیں تو آج اپنے ماحول کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ یہ کوئی عظیم سوال تو نہیں۔ ہاں البتہ وقت کی ضرورت بھی ہے، پکار بھی اور عظیم ترین چیلنج بھی۔
کاش انسان نے زینوکا یہ قول نظرانداز نہ کیا ہوتا کہ زندگی کا مقصد فطرت سے سمجھوتا کرنا ہے۔'' انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی، چھوٹی بڑی اور زندہ مردہ چیزوں میں آج کوئی توازن ہے یا نہیں؟ اگر آج نہیں تو کیا ماضی میں تھا؟ ماضی میں تھا تو اسے کس نے بگاڑا؟ کیا خود انسان نے توازن قدرت کو مجروح کیا؟
یہ اور ایسے بیسیوں سوال اس وقت انسانی ذہن میں ابھرتے ہیں جب اسے زندگی کی مصنوعی خوبصورتی کے جال سے رہائی پا کر فطرت کے حسن کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ شاید ایسے ہی کسی سوال نے ذہنی بلوغت کے آغاز ہی میں اسے قدرتی خاندانوں اور گروہوں کی طرف متوجہ کرلیا۔ شکارکی جستجو میں جب وہ جنگلوں میں نکلتا تو اس بات پر بھی یقینا غور کرتا کہ کس گوشے میں شکار ہے اور کہاں خطرے کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ بس یہیں سے اس نے قدرت سے اپنے اور دوسروں کے رشتے پر سوچ کی عادت ڈال لی۔
اس حقیقت کے باوجود جوکہ انسان نے ابتدائے دانش ہی سے قدرت اور اس کے مناظر پر غور شروع کردیا تھا۔ قدرتی توازن کی سائنس بیسویں صدی ہی میں سامنے آئی۔ چنانچہ پرنسٹن یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان روبرٹ مے کہتے ہیں کہ اس سائنس کی جو ذمے داریاں ہیں وہ طبیعاتی سائنس سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم جن اشیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس تیزی سے غائب ہوتی جا رہی ہیں یقینا طبیعاتی سائنسدانوں کو ایسی پریشانیاں لاحق نہیں۔
ابھی کچھ عرصے تک تو اس بات کا فیشن چل نکلا تھا کہ تمام حیاتیات کے گروہ ایسے منظم نظام ہیں جو خاص قوتوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کسی جزیرے پر جانور موجود ہوں تو ان کے درمیان شکار اور مسابقت سے توازن قائم رہتا ہے۔ مثال کے طور پر (الف) قسم کے جانوروں کا شکار (ب) قسم کے جانورکرتے ہیں۔ اور (ب) قسم کے جانوروں کے لیے پ اور ت قسم کے جانوروں میں مسابقت جاری رہتی ہے لیکن اب یہ خیال سامنے آرہا ہے کہ انسانی ذہن ہر شے میں خود ہی ترتیب تلاش کرلیتا ہے۔ چنانچہ فلوریڈا یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان ڈینیل سمبر لوف کہتے ہیں:
''ہم سب کی یہ عادت ہے کہ ہر شے میں ترتیب تلاش کرتے ہیں، قدرت کے متعلق سوچتے وقت ہم اسی عادت کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن اس وقت بے چینی محسوس کرتا ہے جب کسی شے میں ترتیب نہیں پاتا۔''
ایسے ہی خیالات کے نتیجے میں اب رجحان قطعی بدل رہا ہے اور انسانی ذہن میں موجود قدرتی تعصب سے دامن بچاتے ہوئے بے ترتیبی پر غور کا آغاز ہو رہا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے رابرٹ کوول ایسے ہی مشاہدات کی بنا پر کہتے ہیں:
''جوں جوں اس زاویے سے غور و فکر کا دامن وسیع کیا جاتا ہے یہ دنیا ایک بے ترتیب طوفانی جگہ محسوس ہوتی ہے جنگوں میں گرتے درختوں اور طوفانوں سے بدلتے ساحلوں پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف انواع کے بیک وقت رہنے کی گنجائش ہے۔''
ایک دوسرے سائنسدان ہنری ولیر (پروفیسر حیوانیات ڈیوک یونیورسٹی) اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
''لوگوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ گو حیاتیاتی گروہوں کی سرگرمیوں کا رخ توازن ہی کی طرف رہتا ہے۔ اس کے باوجود اس کھیل کے اصول جلد جلد بدلتے رہتے ہیں۔''
قدرتی ماحول کی میکانیت اور توازن کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں ایکو سسٹم کا کردار بنیادی ہے یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کون سے آلات ، تدابیر، تکنیکات اور اشیا ہیں جن سے ایکو سسٹم مدد لیتا ہے۔
دوسرے مسائل کی طرح ان مسائل کے حل میں بھی کمپیوٹر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چنانچہ برکلے یونیورسٹی کے کوول نے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے جس میں تمام حیاتیاتی انواع کی تفصیل موجود ہوگی۔ ہنری ولبر اس کے مقابلے میں مختلف انداز سے تحقیق کر رہے ہیں پچھلے بارہ برس کے دوران انھوں نے کئی قسم کے مصنوعی تالاب بناکر اس میں ٹیڈپول اور دوسری حیاتی اشیا فراہم کی ہیں۔ ان مصنوعی تالابوں میں قدرتی ماحول پیدا کرکے وہ مسابقت اور دوسری حیاتیاتی اشیا کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نئے نئے تصورات اور تجربات کی انسانی صلاحیت کمپیوٹر سے بڑھ کر ہے۔
جیرڈ ڈائمنڈ کا نام بھی اس ضمن میں نظرانداز کردینا ممکن نہیں۔ اس امریکی فزیالوجسٹ نے ان پرندوں کا قابل ذکر مطالعہ کیا ہے جو منطقہ مارہ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں، ڈائمنڈ کا اس ضمن میں یہ کہنا ہے کہ:
'' توازن کے متعلق کوئی کائناتی قانون موجود نہیں، قدرت میں بے شمار متغیرات موجود ہیں۔ سالمیاتی حیاتیات دان اس وقت کیا کرتے جب جینیاتی کوڈ میں صرف ڈی این اے کی اہمیت نہ ہوتی۔ بلکہ مچھلیوں کی بنیادی اکائی الگ ہوتی اور پرندوں کی الگ ۔اسی طرح ٹھنڈے علاقوں کے زندہ جسم اور شے سے بنے ہوتے اور گرم علاقوں کے اور شے سے، خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اسی حقیقت کے انکشاف پر کہ سارے زندہ اجسام کی بنیادی اکائی ایک سی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں نوبل انعام دیا گیا۔ ماحولیاتی سائنس کے لحاظ سے ایسا بڑا کارنامہ اب اور کوئی نہ ہوگا۔''
مذکورہ بالا حقائق اور مشاہدات کی مدد سے قدرت میں توازن موجود ہونے یا نہ ہونے کی تردید یا تصدیق محال ہے۔ اس کے باوجود انسانی فہم و فلسفہ اور منطق یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ قدرت کا کارخانہ ڈانواں ڈول چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات توازن اور اعتدال ہی کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ جہاں عدم توازن اور بے اعتدالی پیدا ہوئی وہاں موت ناچتی دیکھی گئی ہے، زندگی کو مسکراتا ہوا نہیں پایا گیا۔ اس لیے جلد یا بدیر اس سوال کا یہی جواب آنے کی امید ہے کہ جی ہاں! قدرت میں توازن موجود ہے۔ لیکن ارضی ماحول ایک ایسی چیز ہے جس نے پوری زندگی اور زمین پر موجود ہر شے کو ایک اٹوٹ رشتے میں منسلک کر رکھا ہے۔ اگر اس چادر کا ایک بھی دھاگا کہیں ٹوٹ گیا تو زمین پر زندگی کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ آج ماحول میں موجود نازک توازن قدرت بگڑ گیا ہے۔ اس کو بگاڑنے والا کون ہوسکتا ہے؟ صرف حضرت انسان۔
انسان اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا میں براجمان ہے۔ اپنے ان تماشوں کو وہ صنعتی ترقی کہتا ہے لیکن اس کے لیے جو چیز ترقی ہے وہ قدرت کے نظام کے ساتھ جنگ بھی ہے۔ وہ جگہ جگہ درخت کاٹ رہا ہے اور ہوا میں زہریلی گیس پھیلا رہا ہے۔ صنعتی دھوئیں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اورکلورو فلور وکاربن مرکبات شامل ہیں۔ ان مرکبات کی وجہ سے کرہ ہوا میں موجودہ اوزون کی تہہ ختم ہو رہی ہے۔ اوزون کی یہ تہہ ہمیں سورج کی مہلک بالا بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جمع ہونے سے زمین پر گرمی بڑھ رہی ہے۔
پھر انسان کو شکار کا بھی شوق ہے۔ حیوانات کی ڈھیروں اقسام اس کے شوق کی نذر ہوچکی ہیں اور کئی مٹ جانے کے قریب ہیں۔ یہ سب جانور، چرند پرند، نازک ترین ماحولیاتی نظام کا حصہ تھے اور اب ان کے نہ رہنے کی وجہ سے ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ان حماقتوں کا نقصان آخر کار پوری بنی نوع انسانی کو بھگتنا پڑے گا کہ وہ بھی ایک دن مٹ جائے گی اس لیے کہ زمین کا موسم اور آب و ہوا ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔ کیا ہم یہ چاہیں گے کہ زمین بھی زہرہ کی طرح جہنم زار اور چاند کی طرح ویران ہوجائے؟ اگر نہیں تو آج اپنے ماحول کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ یہ کوئی عظیم سوال تو نہیں۔ ہاں البتہ وقت کی ضرورت بھی ہے، پکار بھی اور عظیم ترین چیلنج بھی۔