چین کا ’’علی بابا‘‘
چینی کمپنی چند سالوں میں امریکا اوربرطانیہ کی ای کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دے گی۔
MULTAN:
چین کی ترقی دنیا کے تمام ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔
چین ایک ایسا ملک ہے جو ساٹھ ستر سال تک افیم ، افیمیوں اور اپنی کثرت آبادی کی وجہ سے دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اب یہی ملک اپنی ترقی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہونے کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔چینی کمپنیاں یورپی اور جاپانی کمپنیوں کا مقابلہ کررہی ہیں اور کسی حد تک یورپی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہیں۔چینی مصنوعات کا اعلیٰ معیار اور کم قیمت دنیا بھر کے صارفین کے لیے کشش رکھتا ہے۔
چین نہ صرف اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہے بلکہ اب اس نے ایک اور سنگ میل عبور کرنے کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اس کی ای کامرس کی صنعت امریکہ کی ای کامرس کی صنعت سے آگے بڑھ رہی ہے۔اس میں اس کی ایک عظیم الشان فرم مارکیٹ پر چھا رہی ہے اور یہ ہے ''علی بابا ڈاٹ کام۔۔۔۔۔Alibaba.com'' ،جو اس وقت کسی حد تک دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی بن چکی ہے۔گذشتہ دو سال کے دوران علی بابا کی دو ذیلی کمپنیاں 170ارب ڈالر کمانے میں کامیاب ہوچکی ہیں جو eBay اور ایمازون Amazon کی مجموعی سیلز سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ علی بابا اس وقت دنیا کی سب سے پہلی کمپنی بننے جارہی ہے جو ایک سال میں ایک ٹریلین ڈالر کی ٹرانزیکشن کرچکی ہے۔ تاہم اس قدر غیرمعمولی کامیابی کے باوجود چین سے باہر لوگوں کی بڑی تعداد اس پرائیویٹ کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔
یہ صورت حال اب تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فرم کے بانی جیک ما ،جو انگلش کے سابق ٹیچر ہیں، نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال مئی تک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو کی کرسی اپنے بااعتماد ساتھی جوناتھن لو کے حوالے کردیں گے۔اس کے بعد جلد ہی اس بات کا امکان ہے کہ کمپنی اپنی ابتدائی پبلک آفرنگ (IPO)کی تفصیلات کا اعلان کرے گی جو کہ گذشتہ سال فیس بک کی IPO کے بعد مشہور ترین اور ممکنہ طورپر زیادہ بڑی پبلک آفرنگ ہوگی۔ یاد رہے کہ فیس بک کی پبلک آفرنگ کی مالیت 104 بلین ڈالر تھی (اس کی مارکیٹ کپیٹیلائزیشن اس وقت سے دوبارہ کم ہوکر 63ارب ڈالر پر واپس آگئی ہے)۔ علی بابا کی مالیت ممکنہ طورپر 55 بلین ڈالر سے لے کر 120 بلین ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
ابتدائی پبلک آفرنگ یا IPO کے نتیجے میں علی بابا کا شاندار عروج دنیا بھر کی توجہ حاصل کرے گا۔اس کے علاوہ کمپنی کا بغور جائزہ لینے کے اور بھی اسباب ہیں۔ان میں سے ایک مستقبل میں اس کی ترقی کے امکانات ہیں۔اگر یہ فیس بک کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچ جاتی ہے تو امکان ہے کہ آئندہ چند سال تک یہ دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بن جائے گی(اس وقت اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی Apple ہے جس کی نقد مالیت اس وقت لگ بھگ 420 بلین ڈالر ہے جبکہ 2009 میں اس کی مالیت صرف 90 بلین ڈالرتھی۔) علی بابا کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ یہ دیگر نئی مارکیٹوں میں بھی اپنے پاؤں پھیلا رہی ہے اور یہ چین کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
''میں یانگ زی کا ''مگرمچھ '' ہوں''
علی بابا کی کامیابی کی داستان دانش مندانہ اختراع کی ایک شاندار مثال ہے کہ چین میں مسابقانہ فوائد کو کیسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔جیک ما نے ایک مرتبہ کہا تھا:
''eBay سمندر کی شارک ہوسکتی ہے، لیکن میں یانگ زی کا مگرمچھ ہوں۔ اگر ہم سمندر میں لڑتے ہیں تو شاید ہم ہار جائیں لیکن اگر ہم دریا میں لڑتے ہیں تو ہم جیت جائیں گے۔''
اس وقت سے جیک ما کو ''یانگ زی کا مگرمچھ'' کہا جاتا ہے۔جیک ما نے 1999 میں ''علی باباڈاٹ کام'' کے نام سے اس کمپنی کا آغاز کیا تھا جو کہ ایک بزنس ٹو بزنس پورٹل تھی جو کہ چین کے چھوٹے مینو فیکچررز کو بیرون ملک خریداروں سے جوڑتی تھی۔اس کی دوسری ایجاد تاؤ باؤTaobao تھی جو کہ کنزیومر ٹو کنزیومر پورٹل تھی جو کوئی ایک ارب مصنوعات کو بیس کامیاب ترین ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں پیش کرتی تھی۔ Tmall اس کی ایک نئی کمپنی ہے جو کہ بزنس ٹو کنزیومر پورٹل ہے اور کسی حد تک ایمازون کی طرح عالمی سطح کے برانڈز جیسے ڈزنی اور لیویز کو چین کی مڈل کلاس تک رسائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔
''علی بابا'' چھا جائے گا
علی بابا اس سے بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔چین کی ای کامرس کی صنعت کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے کہ2020ء تک امریکا ، برطانیہ ، جاپان ، جرمنی اورفرانس کی ای کمپنیوں کی جومجموعی تعداد بنتی ہے ، ان سے بھی بڑی کمپنی بن جائے گی۔اگرچہ ابھی علی بابا امریکہ میں '' ایمازون'' کو چیلنج کرتی دکھائی نہیں دیتی لیکن عالمی سطح پر چین کے لوگ بیرون ملک جو اخراجات کرتے ہیں ، یہ ان کواپنے کنٹرول میں لارہی ہے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہورہی ہے۔اس سلسلے میں اس کی مدد کرنیوالی اس کی ذیلی کمپنی Alipay ہے ، یہ آن لائن پے منٹ سسٹم کے حوالے سے ایک دلچسپ کمپنی ہے ۔ یہ صرف اس وقت فروخت کنندگان کو پے منٹ کرتی ہے جب اس کی مصنوعات کے خریدار وصول شدہ مصنوعات کے معیار سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اس طرح جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی کمزورہے، وہاں پر یہ کمپنی لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔
شاید علی بابا کا سب سے عظیم الشان خزانہ اس کا غیر استعمال شدہ کسٹمر ڈیٹا ہے۔چین میں ڈیلیور کیے جانے والے کوئی ساٹھ فیصد پارسل اسی کی سائٹس کی وساطت سے ترسیل پاتے ہیں۔یہ چینی مڈل کلاس بشمول لاکھوں چینی تاجروں کی اخراجات کی عادات اور ''کریڈٹ ورتھی نیس'' کے حوالے سے سب سے زیادہ جانتی ہے۔''علی فنانس'' بھی اس کی ایک ذیلی کمپنی ہے جو چھوٹی فرموں کو چھوٹے قرضے دینے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔ اب یہ عام صارفین کوبھی قرضے دینے کے کاروبار تک رسائی حاصل کررہا ہے۔ حقیقت میں یہ چینی فنانس کو لبرلائز کرنے میں مدد دے رہا ہے۔چین کے بڑے بڑے سرکاری بینک جو کہ سرکاری اداروں کو سستا سرمایہ فراہم کرنے کا چینل ہیںطویل عرصے تک سب کو نظرانداز کرتے آئے ہیں۔فرم اپنے آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے انشورنس پراڈکٹس بھی فراہم کررہی ہے اور اس قسم کی مزید اختراعات تیاری کے مراحل میں ہیں۔
چنانچہ اس وقت علی بابا bamboo capitalism یعنی''بانس بھری سرمایہ داری'' کے قلب میں بیٹھی ہے۔یہ اصل میں چین میں آپس میں گتھی ہوئی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی پرائیویٹ سیکٹر کی فرمز جو کہ سرکاری اداروں سے زیادہ قابل ہیں، کے لیے ایک اصطلاح ہے۔ کوئی ساٹھ لاکھ کے قریب وینڈرز اس کی سائٹس پر موجود ہیں۔فرم کی کوششوں سے چین کے نااہل ترین ریٹیل اور لاجسٹک سیکٹر کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔علاوہ ازیں دیگرتمام کمپنیوں سے بڑھ کر یہ کمپنی ایک ایسا کام کررہی ہے جس کی سخت ضرورت ہے۔کمپنی چین کے انوسٹمنٹ ہیوی گروتھ کے ماڈل کو صارفی ماڈل میں تبدیل کررہی ہے۔ اس طرح یہ کمپنی ایسے اور بھی کئی اختراعی کاروباروں میں مصروف ہے جو چین کی ترقی کی رفتار میں قابل ذکر حد تک اضافہ کرسکتے ہیں۔
لیکن خطرات بھی ہیں
ہرکامیابی اور کامرانی کو خطرات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔جس طرح دریائے یانگ زی کے مگرمچھوں کے وجود کوخطرات لاحق ہیں ، اس طرح علی بابا کامستقبل بھی خطرات سے خالی نہیں۔تین خطرات ایسے ہیں جو فرم کو اس کی راہ سے بھٹکاسکتے ہیں۔
اس کو پہلا خطرہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی ترقی سے ہی ہے۔قابل ترین بانی کے معاملات سے علیحدگی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا کم ہی آسان ثابت ہوتا ہے۔چین کے کمتر معیارات کے حساب سے علی بابا عام طور پر اچھے نمبر حاصل کرتی ہے۔ ایک کیوییٹ(مشتری ہوشیار باش کی علامت) کے ساتھ مبصرین چند سال قبل جیک ما کی جانب سے مرکزی کمپنی میں سے مبہم طریقے سے Alipay کی لانچ کو شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرکاری کمپنیاں جس طرح منظر سے غائب ہوجاتی ہیں ، یہ اس طرح غائب نہیں ہوسکتی۔اس کی مصنوعات میں بھی اسی قسم کی شفافیت کی ضرورت ہے۔چینی معیار کے حساب سے علی بابا نے جعلی اشیاء سے لڑنے کے لیے بہت کام کیا ہے یہاں تک کہ امریکی حکومت نے حال ہی میں Taobao کو سرکاری اعزاز سے نواز دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود سائٹ پر بہت سی غلط اشیا بھی مل جاتی ہیں۔
صرف ان چیزوں سے نمٹ لینا کوئی اچھی مینیجمنٹ نہیں۔یہاں پر ایک اور خطرہ شروع ہوجاتا ہے۔یہ خطرہ ہے علی بابا کی غیرملکی سرمایہ کاری سے محرومی۔ چین کی کمپنیوں کو بیرون ملک شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے وسائل کے لیے بھوکے سرکاری اداروں کو افریقہ میں احتجاج کاسامنا ہوچکا ہے۔اکاؤنٹنگ سکینڈل کی وجہ سے شمالی امریکہ کے سٹاک ایکسچینجز میں موجود اس کی فرمز کو جرمانے ہوچکے ہیں۔ایک امریکی رکن کانگرس کی جانب سے چین کی عظیم الشان ٹیلی کام کمپنی Huaweiکو امریکہ کی دشمن قرار دیا جاچکا ہے۔یہ بات افسوس ناک ہوگی کہ علی بابا کو جس کا چینی حکومت کے ساتھ تعلق بہت کم ہے ، اس کو اسی قسم کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔
لیکن علی بابا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے ، وہ چین میں ہی ہے۔ایمازون اور ای بے کی طرح علی بابا کو بھی ضرورت ہے کہ اسے انٹی ٹرسٹ ریگولیٹرز کی جانب سے مانیٹر کیا جائے۔ لیکن چین کی سیاست اس کے لیے خاصی خطرناک ہے۔بڑے بڑے بینک اس کے معاشی بازوؤں کے خلاف پہلے ہی متحد ہورہے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی بھی اس سے حسد رکھتی ہے کہ محض ایک ادارہ اس کے شہریوں کے بارے میں اس قدر اعدادوشمار رکھتا ہے۔اگر چینی حکومت بغیر کسی ٹھوس جواز کے علی بابا کے پر کترنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غلط ہوگا۔علی بابا دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح چین کی ترقی میں بھی مددگار ہوسکتی ہے۔
چین کی ترقی دنیا کے تمام ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔
چین ایک ایسا ملک ہے جو ساٹھ ستر سال تک افیم ، افیمیوں اور اپنی کثرت آبادی کی وجہ سے دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اب یہی ملک اپنی ترقی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہونے کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔چینی کمپنیاں یورپی اور جاپانی کمپنیوں کا مقابلہ کررہی ہیں اور کسی حد تک یورپی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہیں۔چینی مصنوعات کا اعلیٰ معیار اور کم قیمت دنیا بھر کے صارفین کے لیے کشش رکھتا ہے۔
چین نہ صرف اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہے بلکہ اب اس نے ایک اور سنگ میل عبور کرنے کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اس کی ای کامرس کی صنعت امریکہ کی ای کامرس کی صنعت سے آگے بڑھ رہی ہے۔اس میں اس کی ایک عظیم الشان فرم مارکیٹ پر چھا رہی ہے اور یہ ہے ''علی بابا ڈاٹ کام۔۔۔۔۔Alibaba.com'' ،جو اس وقت کسی حد تک دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی بن چکی ہے۔گذشتہ دو سال کے دوران علی بابا کی دو ذیلی کمپنیاں 170ارب ڈالر کمانے میں کامیاب ہوچکی ہیں جو eBay اور ایمازون Amazon کی مجموعی سیلز سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ علی بابا اس وقت دنیا کی سب سے پہلی کمپنی بننے جارہی ہے جو ایک سال میں ایک ٹریلین ڈالر کی ٹرانزیکشن کرچکی ہے۔ تاہم اس قدر غیرمعمولی کامیابی کے باوجود چین سے باہر لوگوں کی بڑی تعداد اس پرائیویٹ کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔
یہ صورت حال اب تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فرم کے بانی جیک ما ،جو انگلش کے سابق ٹیچر ہیں، نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال مئی تک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو کی کرسی اپنے بااعتماد ساتھی جوناتھن لو کے حوالے کردیں گے۔اس کے بعد جلد ہی اس بات کا امکان ہے کہ کمپنی اپنی ابتدائی پبلک آفرنگ (IPO)کی تفصیلات کا اعلان کرے گی جو کہ گذشتہ سال فیس بک کی IPO کے بعد مشہور ترین اور ممکنہ طورپر زیادہ بڑی پبلک آفرنگ ہوگی۔ یاد رہے کہ فیس بک کی پبلک آفرنگ کی مالیت 104 بلین ڈالر تھی (اس کی مارکیٹ کپیٹیلائزیشن اس وقت سے دوبارہ کم ہوکر 63ارب ڈالر پر واپس آگئی ہے)۔ علی بابا کی مالیت ممکنہ طورپر 55 بلین ڈالر سے لے کر 120 بلین ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
ابتدائی پبلک آفرنگ یا IPO کے نتیجے میں علی بابا کا شاندار عروج دنیا بھر کی توجہ حاصل کرے گا۔اس کے علاوہ کمپنی کا بغور جائزہ لینے کے اور بھی اسباب ہیں۔ان میں سے ایک مستقبل میں اس کی ترقی کے امکانات ہیں۔اگر یہ فیس بک کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچ جاتی ہے تو امکان ہے کہ آئندہ چند سال تک یہ دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بن جائے گی(اس وقت اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی Apple ہے جس کی نقد مالیت اس وقت لگ بھگ 420 بلین ڈالر ہے جبکہ 2009 میں اس کی مالیت صرف 90 بلین ڈالرتھی۔) علی بابا کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ یہ دیگر نئی مارکیٹوں میں بھی اپنے پاؤں پھیلا رہی ہے اور یہ چین کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
''میں یانگ زی کا ''مگرمچھ '' ہوں''
علی بابا کی کامیابی کی داستان دانش مندانہ اختراع کی ایک شاندار مثال ہے کہ چین میں مسابقانہ فوائد کو کیسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔جیک ما نے ایک مرتبہ کہا تھا:
''eBay سمندر کی شارک ہوسکتی ہے، لیکن میں یانگ زی کا مگرمچھ ہوں۔ اگر ہم سمندر میں لڑتے ہیں تو شاید ہم ہار جائیں لیکن اگر ہم دریا میں لڑتے ہیں تو ہم جیت جائیں گے۔''
اس وقت سے جیک ما کو ''یانگ زی کا مگرمچھ'' کہا جاتا ہے۔جیک ما نے 1999 میں ''علی باباڈاٹ کام'' کے نام سے اس کمپنی کا آغاز کیا تھا جو کہ ایک بزنس ٹو بزنس پورٹل تھی جو کہ چین کے چھوٹے مینو فیکچررز کو بیرون ملک خریداروں سے جوڑتی تھی۔اس کی دوسری ایجاد تاؤ باؤTaobao تھی جو کہ کنزیومر ٹو کنزیومر پورٹل تھی جو کوئی ایک ارب مصنوعات کو بیس کامیاب ترین ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں پیش کرتی تھی۔ Tmall اس کی ایک نئی کمپنی ہے جو کہ بزنس ٹو کنزیومر پورٹل ہے اور کسی حد تک ایمازون کی طرح عالمی سطح کے برانڈز جیسے ڈزنی اور لیویز کو چین کی مڈل کلاس تک رسائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔
''علی بابا'' چھا جائے گا
علی بابا اس سے بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔چین کی ای کامرس کی صنعت کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے کہ2020ء تک امریکا ، برطانیہ ، جاپان ، جرمنی اورفرانس کی ای کمپنیوں کی جومجموعی تعداد بنتی ہے ، ان سے بھی بڑی کمپنی بن جائے گی۔اگرچہ ابھی علی بابا امریکہ میں '' ایمازون'' کو چیلنج کرتی دکھائی نہیں دیتی لیکن عالمی سطح پر چین کے لوگ بیرون ملک جو اخراجات کرتے ہیں ، یہ ان کواپنے کنٹرول میں لارہی ہے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہورہی ہے۔اس سلسلے میں اس کی مدد کرنیوالی اس کی ذیلی کمپنی Alipay ہے ، یہ آن لائن پے منٹ سسٹم کے حوالے سے ایک دلچسپ کمپنی ہے ۔ یہ صرف اس وقت فروخت کنندگان کو پے منٹ کرتی ہے جب اس کی مصنوعات کے خریدار وصول شدہ مصنوعات کے معیار سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اس طرح جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی کمزورہے، وہاں پر یہ کمپنی لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔
شاید علی بابا کا سب سے عظیم الشان خزانہ اس کا غیر استعمال شدہ کسٹمر ڈیٹا ہے۔چین میں ڈیلیور کیے جانے والے کوئی ساٹھ فیصد پارسل اسی کی سائٹس کی وساطت سے ترسیل پاتے ہیں۔یہ چینی مڈل کلاس بشمول لاکھوں چینی تاجروں کی اخراجات کی عادات اور ''کریڈٹ ورتھی نیس'' کے حوالے سے سب سے زیادہ جانتی ہے۔''علی فنانس'' بھی اس کی ایک ذیلی کمپنی ہے جو چھوٹی فرموں کو چھوٹے قرضے دینے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔ اب یہ عام صارفین کوبھی قرضے دینے کے کاروبار تک رسائی حاصل کررہا ہے۔ حقیقت میں یہ چینی فنانس کو لبرلائز کرنے میں مدد دے رہا ہے۔چین کے بڑے بڑے سرکاری بینک جو کہ سرکاری اداروں کو سستا سرمایہ فراہم کرنے کا چینل ہیںطویل عرصے تک سب کو نظرانداز کرتے آئے ہیں۔فرم اپنے آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے انشورنس پراڈکٹس بھی فراہم کررہی ہے اور اس قسم کی مزید اختراعات تیاری کے مراحل میں ہیں۔
چنانچہ اس وقت علی بابا bamboo capitalism یعنی''بانس بھری سرمایہ داری'' کے قلب میں بیٹھی ہے۔یہ اصل میں چین میں آپس میں گتھی ہوئی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی پرائیویٹ سیکٹر کی فرمز جو کہ سرکاری اداروں سے زیادہ قابل ہیں، کے لیے ایک اصطلاح ہے۔ کوئی ساٹھ لاکھ کے قریب وینڈرز اس کی سائٹس پر موجود ہیں۔فرم کی کوششوں سے چین کے نااہل ترین ریٹیل اور لاجسٹک سیکٹر کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔علاوہ ازیں دیگرتمام کمپنیوں سے بڑھ کر یہ کمپنی ایک ایسا کام کررہی ہے جس کی سخت ضرورت ہے۔کمپنی چین کے انوسٹمنٹ ہیوی گروتھ کے ماڈل کو صارفی ماڈل میں تبدیل کررہی ہے۔ اس طرح یہ کمپنی ایسے اور بھی کئی اختراعی کاروباروں میں مصروف ہے جو چین کی ترقی کی رفتار میں قابل ذکر حد تک اضافہ کرسکتے ہیں۔
لیکن خطرات بھی ہیں
ہرکامیابی اور کامرانی کو خطرات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔جس طرح دریائے یانگ زی کے مگرمچھوں کے وجود کوخطرات لاحق ہیں ، اس طرح علی بابا کامستقبل بھی خطرات سے خالی نہیں۔تین خطرات ایسے ہیں جو فرم کو اس کی راہ سے بھٹکاسکتے ہیں۔
اس کو پہلا خطرہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی ترقی سے ہی ہے۔قابل ترین بانی کے معاملات سے علیحدگی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا کم ہی آسان ثابت ہوتا ہے۔چین کے کمتر معیارات کے حساب سے علی بابا عام طور پر اچھے نمبر حاصل کرتی ہے۔ ایک کیوییٹ(مشتری ہوشیار باش کی علامت) کے ساتھ مبصرین چند سال قبل جیک ما کی جانب سے مرکزی کمپنی میں سے مبہم طریقے سے Alipay کی لانچ کو شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرکاری کمپنیاں جس طرح منظر سے غائب ہوجاتی ہیں ، یہ اس طرح غائب نہیں ہوسکتی۔اس کی مصنوعات میں بھی اسی قسم کی شفافیت کی ضرورت ہے۔چینی معیار کے حساب سے علی بابا نے جعلی اشیاء سے لڑنے کے لیے بہت کام کیا ہے یہاں تک کہ امریکی حکومت نے حال ہی میں Taobao کو سرکاری اعزاز سے نواز دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود سائٹ پر بہت سی غلط اشیا بھی مل جاتی ہیں۔
صرف ان چیزوں سے نمٹ لینا کوئی اچھی مینیجمنٹ نہیں۔یہاں پر ایک اور خطرہ شروع ہوجاتا ہے۔یہ خطرہ ہے علی بابا کی غیرملکی سرمایہ کاری سے محرومی۔ چین کی کمپنیوں کو بیرون ملک شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے وسائل کے لیے بھوکے سرکاری اداروں کو افریقہ میں احتجاج کاسامنا ہوچکا ہے۔اکاؤنٹنگ سکینڈل کی وجہ سے شمالی امریکہ کے سٹاک ایکسچینجز میں موجود اس کی فرمز کو جرمانے ہوچکے ہیں۔ایک امریکی رکن کانگرس کی جانب سے چین کی عظیم الشان ٹیلی کام کمپنی Huaweiکو امریکہ کی دشمن قرار دیا جاچکا ہے۔یہ بات افسوس ناک ہوگی کہ علی بابا کو جس کا چینی حکومت کے ساتھ تعلق بہت کم ہے ، اس کو اسی قسم کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔
لیکن علی بابا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے ، وہ چین میں ہی ہے۔ایمازون اور ای بے کی طرح علی بابا کو بھی ضرورت ہے کہ اسے انٹی ٹرسٹ ریگولیٹرز کی جانب سے مانیٹر کیا جائے۔ لیکن چین کی سیاست اس کے لیے خاصی خطرناک ہے۔بڑے بڑے بینک اس کے معاشی بازوؤں کے خلاف پہلے ہی متحد ہورہے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی بھی اس سے حسد رکھتی ہے کہ محض ایک ادارہ اس کے شہریوں کے بارے میں اس قدر اعدادوشمار رکھتا ہے۔اگر چینی حکومت بغیر کسی ٹھوس جواز کے علی بابا کے پر کترنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غلط ہوگا۔علی بابا دنیا کی سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح چین کی ترقی میں بھی مددگار ہوسکتی ہے۔