بہترین لوگ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر


کرو مہربانی تم اہل زمیں پر۔ فوٹو : فائل

'' بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔''

زندگی کا حق ہے کہ اسے تقسیم کرو اور جو تقسیم کرو گے اس کی تمہارے ساتھ فراوانی ہوگی۔ چاہے وہ دولت ہو، علم ہو، محبت ہو، آسانیاں ہوں یا خدا نہ خواستہ کسی کو دی ہوئی پریشانیاں۔ اسے جتنا تقسیم کرو گے اتنا اضافہ ہوگا۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو گے تو خدا آپ کی زندگی آسان فرما دے گا۔ مال تقسیم کرو گے تو اللہ تعالی آپ کے لیے غیبی خزانوں سے مال عطا فرمائے گا۔ دوسروں کی مدد کیا کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ دوسروں کو سکون دو، اللہ تمہیں سکون دے گا۔ جو چیز لینا چاہتے ہو تو وہ دوسروں کو دینا شروع کر دو۔

انسان کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنا چاہیے لیکن بغیر کسی غرض کے۔ کیوں کہ جو بدلہ آپ کو اللہ کے ہاں ملے گا وہ دنیا میں کوئی نہیں دے سکتا۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑگیا۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیا تھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کردیا تھا۔ اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی، لوگ دانے دانے کے لیے محتاج ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس دوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچا تو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی۔ بچے بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا۔

اس وفد نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرکے بہت سارا نفع کمائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو دگنا نفع دیں گے۔ یعنی ایک دینار کا مال دو دینار میں خریدیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا۔ پھر بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔ انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہی کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔

یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہم اہل مدینہ کو خوب جانتے ہیں، یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ۔ جو نفع تم مجھے دے رہے ہو، میرے رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی، مفہوم: ''جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔'' (البقرہ)

آج کل لوگ ایک دوسرے کی مدد اس لیے نہیں کرتے کیوں کہ انھیں اپنی اچھائی کا بدلہ نہیں ملتا، لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں جس کی بھی مدد کرنا ہے بغیر کسی غرض کے کرے اور اس کی امید صرف ایک اللہ سے رکھیں۔ کیوں کہ جو کچھ ہمیں اللہ دے سکتا ہے وہ اس دنیا میں کوئی نہیں دے سکتا۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ''جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہے اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، نہ ان کو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔

بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور اللہ بڑا بے نیاز، بڑا برد بار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سائل کسی سے مانگے اور وہ کس وجہ سے دے نہ سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کر لینا اور اگر وہ مانگنے پر نارو ا اصرار کرے تو اس کی غلطی سے درگزر کرنا۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کرکے تکلیف پہنچائے۔ سچ کہا ہے کہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا، عرش بریں پر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں