ڈاکٹر فرمان فتح پوری شخصیت کے مختلف رُخ
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو نہ صرف کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا بلکہ علم بھی تھا۔
بالآخر ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی (3 اگست2013کو) رخصت ہوگئے۔ ایک عرصے سے اپنی علالت اور اس کے نتیجے میں نقاہت اور کم زوری کی وجہ سے گھر سے نکلنا اور معمولات کے برعکس تقریبات میں شریک ہونا انہوں نے تقریباً چھوڑ دیا تھا۔
آخری بار دیکھا اور ملاقات ہوئی تو وہ طے شدہ نہ تھی۔ ایک میٹنگ میں یونیورسٹی جانا ہوا تو کلیہ فنون میں سا جگہ سے گزر ہوا، جہاں درسی کمرے شمال مغربی سمت میں ایک قطار میں سڑک کی جانب واقع ہیں۔ وہیں ''سمعی بصری مرکز'' سے ملحقہ ایک چھوٹا سا کمرہ حال ہی میں گورنر سندھ کی عنایت سے ''پروفیسر ایمریطس'' مقرر کیے جانے کی وجہ سے انہیں تفویض ہوگیا تھا کہ وہ وہاں بیٹھا کریں، تاکہ طلبہ اور خواہش مند ان سے استفادہ کرسکیں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کمرے کے باہر چھڑی کے سہارے تنہا ٹہل رہے تھے۔
ان کا کمرہ مقفل تھا اور انہیں انتظار تھا کہ کوئی آکر دروازہ کھول دے۔ دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور گرم جوشی سے، جو ان کی مستقل عادت تھی، لپٹا کر خیریت پوچھی اور میرے دو ایک تازہ مقالات کا خصوصی حوالے دے کر دل کھول کر تعریف کرتے اور کمال شفقت سے دعائیں دیتے رہے۔ اس دوران چابی آگئی تو ڈاکٹر صاحب تو کمرے میں داخل ہوئے اور میں نے میٹنگ میں شرکت کے لیے جانے کی اجازت چاہی اور ان سے رخصت ہوا۔
یہ ان سے میری آخری اور بہت سرسری سی ملاقات تھی۔ اس بات کو بھی مہینوں کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اس عرصے میں ملاقات کا کوئی موقع نہ مل سکا جس میں خود میری کوتاہیوں کا دخل ہے کہ بے حد مصروف رہتا ہوں اور مزاج بھی گوشہ نشینی کا پایا ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ''زندگی مختصر ہے کام بہت'' کہیں آنا جانا کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اب ملال ہوتا ہے کہ کیا گنوایا ہے! وہ شفقت اور محبت جو ان سے ملتی تھی، وہ دل نشینی گفتار کہ جو ان ہی کا خاصہ تھی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ زندگی کی پہلی ملاقاتوں ہی سے یہ تاثرات ان کی شخصیت کے لازمے کے طور پر قلب و ذہن پر ثبت رہے ہیں۔
1965 سے کہ جب میں نے یونیورسٹی میں آنرز میں داخلہ لیا اور شعبے میں ڈاکٹر صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، ان کی تدریس شعبے سے وابستگی کا ایک جواز محسوس ہوئی تھی۔ اساتذہ سب ہی ایک سے ایک، فاضل و مہربان، اپنی اپنی جگہ علم کا ایک دریا، جو دوران تدریس، اور عام صحبتوں میں بھی، ٹھاٹھیں مارتا رہتا، فرمان صاحب ان میں سب سے مختلف اور تمام طلبہ میں سب سے زیادہ مقبول تھے۔ تدریس کا سارا وقت، چاہے سبق کتنا ہی خشک، بے کیف اور ادق و مشکل ہوتا، فرمان صاحب کی شگفتگی، بزلہ سنجی، لطیفہ گوئی، اور دل نشیں انداز بیان اسے آسان و سہل بنادیتا کہ ہر معاملہ و مسئلہ دل میں اترتا چلا جاتا۔
یہی صفات تھیں کہ ان دنوں یونیورسٹی کا سارا نظام ایک نظم و ضبط کے تحت تھا، کیوں کہ اساتذہ بھی بالعموم، اس وقت منظم، فرض شناس اور لائق ہوا کرتے تھے، سب طلبہ کے لیے حاضری لازم تھی اور سختی سے اس کی پابندی بھی کرائی جاتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود تدریس کے وقت فرمان صاحب کا کمرہ طلبہ سے بھرا رہتا اور کم ہی کوئی، کسی مجبوری ہی سے ان کی تدریس میں غیر حاضر ہوتا۔
میرے لیے ڈاکٹر صاحب کی حیثیت، محض ایک استاد سے بڑھ کر، کچھ اور بھی تھی۔ مجھے اور میرے رفقا کو یہ احساس ہمیشہ رہا کہ ڈاکٹر صاحب دیگر طالب علموں کے مقابلے میں مجھ پر زیادہ مہربان اور شفیق رہے۔ یوں تو دیگر تمام ہی اساتذہ مجھ پر انتہائی مشفقانہ توجہ فرماتے تھے، لیکن تدریس کے دوران اور دیگر صحبتوں میں فرمان صاحب کی توجہ اور شفقتیں مجھ پر زیادہ رہتیں۔ شعبے سے فراغت کے بعد یہ رشتہ دیگر صورتوں میں مزید استوار ہوا، جب ڈاکٹر صاحب نے 1976 میں قائد اعظم کی صد سالہ تقریبات منانے کے لیے قائم قومی مجلس کے ایک فیصلے کے تحت، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی سفارش پر، جو اس مجلس کے رکن تھے، اشاعتی منصوبے کے ذیل میں ''اردو۔ ہندی تنازع'' پر کتاب لکھنے کی پیش کش قبول کرلی۔
ڈاکٹر صاحب کے علم میں تھا کہ یہ میری دل چسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ ایم اے کی سطح پر 1969 میں میرا تحقیقی منصوبہ ''تحریک پاکستان کا لسانی پس منظر'' (زیر نگرانی: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) ڈاکٹر صاحب کے علم میں تھا اور قریب قریب اسی وقت (1975۔ 1976 میں) میں اپنے پی ایچ ڈی کے منصوبے: ''تحریک آزادی میں اردو کا حصہ'' (زیرنگرانی: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) سے فارغ ہوا تھا اور یہ مقالہ چھپ چکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کو کتابیں جمع کرنے کے میرے شوق کا بھی علم تھا۔ اردو۔ ہندی تنازع کے تعلق سے اہم ترین کمیاب و نادر کتابوں اور دستاویزات کا خاصا بڑا ذخیرہ میرے پاس موجود تھا، جو اب ڈاکٹر صاحب کے اس منصوبے کے لیے ناگزیر تھا۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحب کو شاذ ہی کہیں اور جانے کی ضرورت شاید پیش آئی ہو۔ اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اعتراف کے طور پر کھلے دل سے کیا بھی ہے۔
اس کتاب کی تحریر کے دوران ڈاکٹر صاحب کا یہ معمول بن گیا کہ وہ ہر ہفتے دس دن میں غریب خانے پر، جو ان دنوں ان کے گھر واقع رفاہ عام سوسائٹی، ملیر سے خاصے فاصلے پر کورنگی میں تھا، تشریف لاتے اور کتابوں کا ایک انبار ساتھ لے جاتے اور پھر نہایت حفاظت سے واپس کرکے مزید کتابیں لے جاتے۔ میرے تجربے میں کم ہی دوست احباب اور بزرگ بلکہ اساتذہ بھی ایسے رہے ہیں جو اتنی پابندی سے اور اس قدر حفاظت سے کتابیں خود واپس کرنے آتے ہوں۔ ورنہ کتابیں لے کر انجان بنتے دیکھنا اور کتاب کے نقصان کو بھگتنا میرا یہ ایک عام تجربہ ہے۔ صرف فرمان صاحب اور ایک پروفیسر ممتاز حسین تھے جو کتابیں لے جاتے اور بحفاظت خود واپس کرنے آتے۔ ایسی باتیں اور ایسی صفات انسان بھولتا نہیں ہے۔
اردو۔ ہندی تنازع ایسا اہم موضوع تھا کہ ہماری پوری قومی سیاست اس کے زیر اثر علیحدگی کے راستے پر چلی ہے۔ اسلام تو وہ عنصر تھا کہ جس کی وجہ سے ہماری ساری تہذیب و معاشرت یہاں کی دیگر قوموں اور قومیتوں سے مسلمانوں کو ایک الگ قوم ہونے کا ہر دور میں احساس دلاتی رہی ہیں، لیکن اردو زبان نے مسلمانوں میں اس احساس کو مزید تقویت دینے اور انہیں بطور ایک علیحدہ قوم اپنے لیے علیحدہ حقوق حاصل کرنے پر تیار کیا اور بالآخر مسلم ملت کی خاطر ایک علیحدہ ملک کے قیام کی جدوجہد کے لیے سرگرم کیا جس کا نتیجہ قیام پاکستان ہے۔
یہی نقطۂ نظر میرے مذکورہ دونوں مطالعات کا لب لباب تھا۔ یہی نقطۂ نظر فرمان صاحب نے اپنی اس کتاب میں اختیار کیا اور اسے زیادہ مفصل اور مدلل صورت میں پیش کیا۔ ظاہر ہے یہ نقطۂ نظر متحدہ قومیت کے تصور کی نفی اور خاص طور پر اردو کے مقابلے میں ہندی کے حامیوں کے نظریات سے متصادم ہے ۔ اسی لیے جب ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی تعصبانہ کتاب ''ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب'' لکھی تو پاکستانی مصنفین میں سے بیشتر مقامات پر ڈاکٹر فرمان کے خیالات پر کڑی تنقید کی (اور یہی رویہ متعدد مقامات پر راقم کی مذکورہ تصانیف، اور خاص طور پر ''اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل، افکار اور تحریکات'' میں مسلم قومیت اور مسلم سیاست کی تشکیل میں اردو زبان کے کردار پر میرے پیش کردہ نقطہ نظر پر اختیار کی، بلکہ میری موخر الذکر تصنیف کو تو ''علیحدگی پسندی کا صحیفہ'' (ص 217) قرار دیا۔
موصوف کا ایسا ہی جارحانہ رویہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی تصنیف ''تاریخ اردو زبان وادب'' میں ہندی کے ضمن میں ان کے خیالات کے بارے میں بھی رہا) ڈاکٹر فرمان زبان کی قومی و سیاسی حیثیت کے بارے میں بہت واضح قومی نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ اردو زبان کے قومی و سیاسی کردار کی اہمیت کو مذکورہ ان تصانیف کے علاوہ سیکڑوں تصانیف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اردو۔ ہندی تنازع اور اس کے سیاسی اثرات کو متعدد مغربی مصنفین نے بھی، خاص طور پر امریکا و برطانیہ اور جرمنی میں، موضوع بنایا اور اپنے اپنے زاویے سے داد تحقیق دی ہے۔ ممالک غیر میں اس موضوع کو اس کی قومی اہمیت کے سبب، مجھے جب اٹلی میں (1986۔ 1987میں) اورینٹل یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے وابستگی کے دوران بہ اعتبار منصب سیمینار پیش کرنے کا موقع دیا گیا تو اس کے لیے میں نے اسی موضوع کو ترجیح دی اور ایسا ہی کچھ میرے جاپان کے قیام (1993۔ 2000) کے دوران بھی قدرے تبدیل شدہ موضوع کے ساتھ موقع ملا۔
اٹلی میں اس موضوع میں خاص دل چسپی لی گئی اور اس کی اہمیت کے پیش نظر کوشش کی گئی کہ ایک سیمینار یا سلسلہ خطبات کا اس موضوع پر چند ماہ بعد انعقاد کیا جائے۔ میرے قیام کی مدت وہاں ختم ہورہی تھی اور میں مزید وہاں بوجوہ رک نہ سکتا تھا۔ اس لیے میں تو واپس آگیا لیکن وہاں ایشین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر اندریا نورُسی (بلوچی زبان و تاریخ کے ماہر) اور شعبہ زبان ہائے جنوبی ایشیا کے ایک ذمے دار اور میرے دیرینہ دوست پروفیسر ڈاکٹر رحیم رضا سے اپنے متبادل کے طور پر اس اعتماد کے ساتھ کہ اگر اس سیمینار یا توسیعی خطبات کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو مدعو کیا جائے تو وہ زیادہ بہتر صورت میں یہ حق ادا کرسکیں گے جن کی ایک معیاری تحقیق بھی اس موضوع پر سامنے آچکی ہے۔
چناں چہ یہ ذمے داری میرے ہی سپرد کی گئی کہ میں کراچی واپس جاکر ڈاکٹر صاحب سے عندیہ اور منظوری لے کر اس سلسلے کو آگے بڑھاؤں۔ چناں چہ یہ ہوا اور ڈاکٹر صاحب کا تعارف و رابطہ پروفیسر رُسی اور ڈاکٹر رحیم رضا سے قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مقصد کے لیے خاصی تیاری کی اور 1988 کی گرمیوں میں وہاں تشریف لے گئے اور قریباً ایک ماہ اٹلی میں قیام کیا۔ وہاں سے جو اطلاعات ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات اور ان کے خطبات کی ملتی رہیں وہ بے حد قابل اطمینان اور قابل فخر تھیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اردو کی اہمیت اور اس کے قومی و سیاسی کردار پر وہاں نہایت عمدہ وکالت کی اور ان خطبات کے دوران وہاں موجود ہندوستانیوں کو بھی سر چڑھنے نہ دیا۔
مجھے یہ خوشی ہمیشہ حاصل رہی کہ ڈاکٹر صاحب مجھ پر ہمیشہ مہربان رہے اور میری درخواستوں کو کبھی نظرانداز نہ کیا۔ کبھی ان کے مزاج کے خلاف بھی اگر کوئی بات ہوتی تب بھی وہ میری گزارش کو مان لیتے۔ ایسے ہی مواقع پر ایک بار کراچی کے قونصل خانہ جاپان نے جاپانی شاعری کی ایک مقبول صنف ''ہائیکو'' کو یہاں کراچی کے شاعروں میں متعارف کرانے کے لیے سالانہ مشاعروں کا اہتمام کیا۔ میرا رابطہ قونصل خانے کے جاپانیوں سے ایک عرصے سے قائم تھا۔ وہاں کے ایک سرکردہ ذمے دار عظمت اتاکا میرے دیرینہ دوست ہیں۔
وہی اس خیال کے محرک اور منتظم تھے اور ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ قونصل خانے کی ثقافتی تقریبات کے انعقاد میں، اگر ان کا کوئی تعلق ادب سے ہو، تو مجھ سے بھی مشورہ لیا ہے۔ انہوں نے ایک مجلس مشاورت اس مقصد کے لیے تشکیل دینے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے مجھ سے دو مزید نام تجویز کرنے کے لیے کہا۔ میں نے کسی تامل کے بغیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور پیرزادہ قاسم کے نام دے دیے۔
چناں چہ یہ مجلس بن گئی اور اس کے چند اجلاس بھی ہوئے۔ پہلے مشاعرے کے لیے یہ بھی تجویز ہوا کہ اس میں ''ہائیکو'' کی روایت اور فن اور اردو میں اس کے فروغ کے امکانات پر ایک مقالہ ڈاکٹر فرمان پیش کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے، نہ صرف اس مجلس میں شامل ہونا اور اس کے اجلاسوں میں شرکت کرنا گوارا کیا بلکہ میری گزارش پر وہ مقالہ تحریر کیا جو بہت جامع اور مبسوط تھا۔ یہ بعد میں شائع بھی ہوا۔ یہ اردو میں، کوئی تین دہائی قبل، ہائیکو مشاعروں کا آغاز تھا اور اس کے ابتدائی سرپرستوں میں ڈاکٹر فرمان صاحب کا نام بھی شامل تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو اردو زبان، اس کے قواعد واملا، اس کے مسائل اور لغت نویسی سے جو دل چسپی تھی وہ ہر ایک کے علم میں ہے۔ اردو لغت بورڈ کی ''اردو لغت'' کی ترتیب و اشاعت کے لیے جس منظم انداز سے انہوں نے کام کیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ اور اس سے قبل یہ بھی ایک مثال ہے کہ انہوں نے شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے اس دور میں جب وہ شعبے کی صدارت پر فائز ہوئے تو انہوں نے شعبے کی ترقی اور بہتری کے لیے جو کام کیے وہ شعبے کی تاریخ میں منفرد اور مثالی ہیں۔ اس وقت خوش قسمتی سے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب تھے، جنہوں نے یونیورسٹی کے زوال کو روکنے کی پوری کوششیں کیں اور ان ہی کوششوں کے تحت ڈاکٹر فرمان کو پوری طرح آزادی دے دی کہ وہ ہر طرح شعبے کی بھلائی و بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
چناں چہ فرمان صاحب نے ایک تو شعبے کے نصاب کو جو فرسودہ ہوچکا تھا، نئے تقاضوں کے مطابق مرتب کرنے کے لیے پیش رفت کی اور ساتھ ہی شعبے میں نئے اساتذہ کے تقرر کا منصوبہ بنایا کہ 22-20 سال سے کسی کا تقرر ہی نہیں کیا گیا تھا۔ میری کراچی یونیورسٹی سے وابستگی اسی ضمن میں ممکن ہوسکی تھی اور مجھے راضی کرنے کے لیے کہ میں شعبے کے دیرینہ حالات کے باعث اس سے وابستگی کے لیے کچھ خوش گمان نہ رہا تھا، ڈاکٹر صاحب نے میرے پاس ازخود آنے کی زحمت گوارا فرمائی اور نہ صرف تشریف لائے بلکہ ساتھ میں درخواست فارم بھی لائے، جو ان ہی دنوں جاری ایک اشتہار کے مطابق دستیاب تھے، کہ میں اسے پر کرکے داخل کردوں اور ساتھ ہی اسی پیش کش پر مبنی ڈاکٹر جالبی صاحب کا پیغام بھی پہنچایا۔
اس طرح کی کوششوں کے باوصف انہوں نے واقعتاً شعبے کو ہر لحاظ سے نئی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ بھی چاہا کہ اونچی سطح پر کم ازکم ایک پروفیسر کا تقرر بھی کیا جائے جو شعبے کے لیے وقار کا سبب بن سکے۔ اس مقصد کے لیے، ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی شہ پر کوشش کی گئی کہ سندھ یونیورسٹی سے نام ور محقق و استاد ڈاکٹر نجم الاسلام صاحب کو یہاں بحیثیت پروفیسر مدعو کیا جائے۔ ٹیلی فون کی سہولتیں اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھیں اس لیے اس کام کے لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ انہیں یہ دعوت بالمشافہ حیدرآباد جاکر دی جائے۔
اس مقصد کے لیے ڈاکٹر فرمان نے، بصد راز داری، خود حیدرآباد کا سفر کیا اور رفاقت کے لیے مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ ہم دونوں ڈھونڈتے ڈھانڈتے لطیف آباد میں ان کے گھر پہنچے۔ لیکن افسوس ڈاکٹر نجم الاسلام نے یہاں شعبے کے حالات کی وجہ سے اس وقت یہاں آنا قبول نہ کیا لیکن بعد میں ایک موقع پر جب سندھ یونیورسٹی میں ان کے لیے بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے یہاں آنے کی کوشش کی اور تقرر کے قریب تک کا مرحلہ آگیا لیکن یہاں سے انہیں ''ٹانگیں توڑ دینے'' کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے یہاں نہ آنے اور وہیں رہنے کو غنیمت جانا۔ یہ ہے ہماری یونیورسٹیوں کی اخلاقیات! آج کا شعبہ اردو لگتا ہے اپنی ایسی ہی روایت پر پوری طرح کاربند ہے کہ کہیں کوئی قابل، معروف اور فرض شناس شخص شعبے میں نہ آجائے، جو مختلف سا لگے۔
ڈاکٹر فرمان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ایسے وقت رخصت ہوئے ہیں جب یوں ہی ہر سمت میں، ہر شعبے میں ایک قحط الرجال وسیع سے وسیع تر ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب ایسے کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں رہ گئے تھے؟ اب یہ بھی نہ رہے!
آخری بار دیکھا اور ملاقات ہوئی تو وہ طے شدہ نہ تھی۔ ایک میٹنگ میں یونیورسٹی جانا ہوا تو کلیہ فنون میں سا جگہ سے گزر ہوا، جہاں درسی کمرے شمال مغربی سمت میں ایک قطار میں سڑک کی جانب واقع ہیں۔ وہیں ''سمعی بصری مرکز'' سے ملحقہ ایک چھوٹا سا کمرہ حال ہی میں گورنر سندھ کی عنایت سے ''پروفیسر ایمریطس'' مقرر کیے جانے کی وجہ سے انہیں تفویض ہوگیا تھا کہ وہ وہاں بیٹھا کریں، تاکہ طلبہ اور خواہش مند ان سے استفادہ کرسکیں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کمرے کے باہر چھڑی کے سہارے تنہا ٹہل رہے تھے۔
ان کا کمرہ مقفل تھا اور انہیں انتظار تھا کہ کوئی آکر دروازہ کھول دے۔ دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور گرم جوشی سے، جو ان کی مستقل عادت تھی، لپٹا کر خیریت پوچھی اور میرے دو ایک تازہ مقالات کا خصوصی حوالے دے کر دل کھول کر تعریف کرتے اور کمال شفقت سے دعائیں دیتے رہے۔ اس دوران چابی آگئی تو ڈاکٹر صاحب تو کمرے میں داخل ہوئے اور میں نے میٹنگ میں شرکت کے لیے جانے کی اجازت چاہی اور ان سے رخصت ہوا۔
یہ ان سے میری آخری اور بہت سرسری سی ملاقات تھی۔ اس بات کو بھی مہینوں کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اس عرصے میں ملاقات کا کوئی موقع نہ مل سکا جس میں خود میری کوتاہیوں کا دخل ہے کہ بے حد مصروف رہتا ہوں اور مزاج بھی گوشہ نشینی کا پایا ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ''زندگی مختصر ہے کام بہت'' کہیں آنا جانا کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اب ملال ہوتا ہے کہ کیا گنوایا ہے! وہ شفقت اور محبت جو ان سے ملتی تھی، وہ دل نشینی گفتار کہ جو ان ہی کا خاصہ تھی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ زندگی کی پہلی ملاقاتوں ہی سے یہ تاثرات ان کی شخصیت کے لازمے کے طور پر قلب و ذہن پر ثبت رہے ہیں۔
1965 سے کہ جب میں نے یونیورسٹی میں آنرز میں داخلہ لیا اور شعبے میں ڈاکٹر صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، ان کی تدریس شعبے سے وابستگی کا ایک جواز محسوس ہوئی تھی۔ اساتذہ سب ہی ایک سے ایک، فاضل و مہربان، اپنی اپنی جگہ علم کا ایک دریا، جو دوران تدریس، اور عام صحبتوں میں بھی، ٹھاٹھیں مارتا رہتا، فرمان صاحب ان میں سب سے مختلف اور تمام طلبہ میں سب سے زیادہ مقبول تھے۔ تدریس کا سارا وقت، چاہے سبق کتنا ہی خشک، بے کیف اور ادق و مشکل ہوتا، فرمان صاحب کی شگفتگی، بزلہ سنجی، لطیفہ گوئی، اور دل نشیں انداز بیان اسے آسان و سہل بنادیتا کہ ہر معاملہ و مسئلہ دل میں اترتا چلا جاتا۔
یہی صفات تھیں کہ ان دنوں یونیورسٹی کا سارا نظام ایک نظم و ضبط کے تحت تھا، کیوں کہ اساتذہ بھی بالعموم، اس وقت منظم، فرض شناس اور لائق ہوا کرتے تھے، سب طلبہ کے لیے حاضری لازم تھی اور سختی سے اس کی پابندی بھی کرائی جاتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود تدریس کے وقت فرمان صاحب کا کمرہ طلبہ سے بھرا رہتا اور کم ہی کوئی، کسی مجبوری ہی سے ان کی تدریس میں غیر حاضر ہوتا۔
میرے لیے ڈاکٹر صاحب کی حیثیت، محض ایک استاد سے بڑھ کر، کچھ اور بھی تھی۔ مجھے اور میرے رفقا کو یہ احساس ہمیشہ رہا کہ ڈاکٹر صاحب دیگر طالب علموں کے مقابلے میں مجھ پر زیادہ مہربان اور شفیق رہے۔ یوں تو دیگر تمام ہی اساتذہ مجھ پر انتہائی مشفقانہ توجہ فرماتے تھے، لیکن تدریس کے دوران اور دیگر صحبتوں میں فرمان صاحب کی توجہ اور شفقتیں مجھ پر زیادہ رہتیں۔ شعبے سے فراغت کے بعد یہ رشتہ دیگر صورتوں میں مزید استوار ہوا، جب ڈاکٹر صاحب نے 1976 میں قائد اعظم کی صد سالہ تقریبات منانے کے لیے قائم قومی مجلس کے ایک فیصلے کے تحت، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی سفارش پر، جو اس مجلس کے رکن تھے، اشاعتی منصوبے کے ذیل میں ''اردو۔ ہندی تنازع'' پر کتاب لکھنے کی پیش کش قبول کرلی۔
ڈاکٹر صاحب کے علم میں تھا کہ یہ میری دل چسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ ایم اے کی سطح پر 1969 میں میرا تحقیقی منصوبہ ''تحریک پاکستان کا لسانی پس منظر'' (زیر نگرانی: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) ڈاکٹر صاحب کے علم میں تھا اور قریب قریب اسی وقت (1975۔ 1976 میں) میں اپنے پی ایچ ڈی کے منصوبے: ''تحریک آزادی میں اردو کا حصہ'' (زیرنگرانی: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) سے فارغ ہوا تھا اور یہ مقالہ چھپ چکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کو کتابیں جمع کرنے کے میرے شوق کا بھی علم تھا۔ اردو۔ ہندی تنازع کے تعلق سے اہم ترین کمیاب و نادر کتابوں اور دستاویزات کا خاصا بڑا ذخیرہ میرے پاس موجود تھا، جو اب ڈاکٹر صاحب کے اس منصوبے کے لیے ناگزیر تھا۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحب کو شاذ ہی کہیں اور جانے کی ضرورت شاید پیش آئی ہو۔ اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اعتراف کے طور پر کھلے دل سے کیا بھی ہے۔
اس کتاب کی تحریر کے دوران ڈاکٹر صاحب کا یہ معمول بن گیا کہ وہ ہر ہفتے دس دن میں غریب خانے پر، جو ان دنوں ان کے گھر واقع رفاہ عام سوسائٹی، ملیر سے خاصے فاصلے پر کورنگی میں تھا، تشریف لاتے اور کتابوں کا ایک انبار ساتھ لے جاتے اور پھر نہایت حفاظت سے واپس کرکے مزید کتابیں لے جاتے۔ میرے تجربے میں کم ہی دوست احباب اور بزرگ بلکہ اساتذہ بھی ایسے رہے ہیں جو اتنی پابندی سے اور اس قدر حفاظت سے کتابیں خود واپس کرنے آتے ہوں۔ ورنہ کتابیں لے کر انجان بنتے دیکھنا اور کتاب کے نقصان کو بھگتنا میرا یہ ایک عام تجربہ ہے۔ صرف فرمان صاحب اور ایک پروفیسر ممتاز حسین تھے جو کتابیں لے جاتے اور بحفاظت خود واپس کرنے آتے۔ ایسی باتیں اور ایسی صفات انسان بھولتا نہیں ہے۔
اردو۔ ہندی تنازع ایسا اہم موضوع تھا کہ ہماری پوری قومی سیاست اس کے زیر اثر علیحدگی کے راستے پر چلی ہے۔ اسلام تو وہ عنصر تھا کہ جس کی وجہ سے ہماری ساری تہذیب و معاشرت یہاں کی دیگر قوموں اور قومیتوں سے مسلمانوں کو ایک الگ قوم ہونے کا ہر دور میں احساس دلاتی رہی ہیں، لیکن اردو زبان نے مسلمانوں میں اس احساس کو مزید تقویت دینے اور انہیں بطور ایک علیحدہ قوم اپنے لیے علیحدہ حقوق حاصل کرنے پر تیار کیا اور بالآخر مسلم ملت کی خاطر ایک علیحدہ ملک کے قیام کی جدوجہد کے لیے سرگرم کیا جس کا نتیجہ قیام پاکستان ہے۔
یہی نقطۂ نظر میرے مذکورہ دونوں مطالعات کا لب لباب تھا۔ یہی نقطۂ نظر فرمان صاحب نے اپنی اس کتاب میں اختیار کیا اور اسے زیادہ مفصل اور مدلل صورت میں پیش کیا۔ ظاہر ہے یہ نقطۂ نظر متحدہ قومیت کے تصور کی نفی اور خاص طور پر اردو کے مقابلے میں ہندی کے حامیوں کے نظریات سے متصادم ہے ۔ اسی لیے جب ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی تعصبانہ کتاب ''ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب'' لکھی تو پاکستانی مصنفین میں سے بیشتر مقامات پر ڈاکٹر فرمان کے خیالات پر کڑی تنقید کی (اور یہی رویہ متعدد مقامات پر راقم کی مذکورہ تصانیف، اور خاص طور پر ''اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل، افکار اور تحریکات'' میں مسلم قومیت اور مسلم سیاست کی تشکیل میں اردو زبان کے کردار پر میرے پیش کردہ نقطہ نظر پر اختیار کی، بلکہ میری موخر الذکر تصنیف کو تو ''علیحدگی پسندی کا صحیفہ'' (ص 217) قرار دیا۔
موصوف کا ایسا ہی جارحانہ رویہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی تصنیف ''تاریخ اردو زبان وادب'' میں ہندی کے ضمن میں ان کے خیالات کے بارے میں بھی رہا) ڈاکٹر فرمان زبان کی قومی و سیاسی حیثیت کے بارے میں بہت واضح قومی نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ اردو زبان کے قومی و سیاسی کردار کی اہمیت کو مذکورہ ان تصانیف کے علاوہ سیکڑوں تصانیف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اردو۔ ہندی تنازع اور اس کے سیاسی اثرات کو متعدد مغربی مصنفین نے بھی، خاص طور پر امریکا و برطانیہ اور جرمنی میں، موضوع بنایا اور اپنے اپنے زاویے سے داد تحقیق دی ہے۔ ممالک غیر میں اس موضوع کو اس کی قومی اہمیت کے سبب، مجھے جب اٹلی میں (1986۔ 1987میں) اورینٹل یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے وابستگی کے دوران بہ اعتبار منصب سیمینار پیش کرنے کا موقع دیا گیا تو اس کے لیے میں نے اسی موضوع کو ترجیح دی اور ایسا ہی کچھ میرے جاپان کے قیام (1993۔ 2000) کے دوران بھی قدرے تبدیل شدہ موضوع کے ساتھ موقع ملا۔
اٹلی میں اس موضوع میں خاص دل چسپی لی گئی اور اس کی اہمیت کے پیش نظر کوشش کی گئی کہ ایک سیمینار یا سلسلہ خطبات کا اس موضوع پر چند ماہ بعد انعقاد کیا جائے۔ میرے قیام کی مدت وہاں ختم ہورہی تھی اور میں مزید وہاں بوجوہ رک نہ سکتا تھا۔ اس لیے میں تو واپس آگیا لیکن وہاں ایشین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر اندریا نورُسی (بلوچی زبان و تاریخ کے ماہر) اور شعبہ زبان ہائے جنوبی ایشیا کے ایک ذمے دار اور میرے دیرینہ دوست پروفیسر ڈاکٹر رحیم رضا سے اپنے متبادل کے طور پر اس اعتماد کے ساتھ کہ اگر اس سیمینار یا توسیعی خطبات کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو مدعو کیا جائے تو وہ زیادہ بہتر صورت میں یہ حق ادا کرسکیں گے جن کی ایک معیاری تحقیق بھی اس موضوع پر سامنے آچکی ہے۔
چناں چہ یہ ذمے داری میرے ہی سپرد کی گئی کہ میں کراچی واپس جاکر ڈاکٹر صاحب سے عندیہ اور منظوری لے کر اس سلسلے کو آگے بڑھاؤں۔ چناں چہ یہ ہوا اور ڈاکٹر صاحب کا تعارف و رابطہ پروفیسر رُسی اور ڈاکٹر رحیم رضا سے قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مقصد کے لیے خاصی تیاری کی اور 1988 کی گرمیوں میں وہاں تشریف لے گئے اور قریباً ایک ماہ اٹلی میں قیام کیا۔ وہاں سے جو اطلاعات ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات اور ان کے خطبات کی ملتی رہیں وہ بے حد قابل اطمینان اور قابل فخر تھیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اردو کی اہمیت اور اس کے قومی و سیاسی کردار پر وہاں نہایت عمدہ وکالت کی اور ان خطبات کے دوران وہاں موجود ہندوستانیوں کو بھی سر چڑھنے نہ دیا۔
مجھے یہ خوشی ہمیشہ حاصل رہی کہ ڈاکٹر صاحب مجھ پر ہمیشہ مہربان رہے اور میری درخواستوں کو کبھی نظرانداز نہ کیا۔ کبھی ان کے مزاج کے خلاف بھی اگر کوئی بات ہوتی تب بھی وہ میری گزارش کو مان لیتے۔ ایسے ہی مواقع پر ایک بار کراچی کے قونصل خانہ جاپان نے جاپانی شاعری کی ایک مقبول صنف ''ہائیکو'' کو یہاں کراچی کے شاعروں میں متعارف کرانے کے لیے سالانہ مشاعروں کا اہتمام کیا۔ میرا رابطہ قونصل خانے کے جاپانیوں سے ایک عرصے سے قائم تھا۔ وہاں کے ایک سرکردہ ذمے دار عظمت اتاکا میرے دیرینہ دوست ہیں۔
وہی اس خیال کے محرک اور منتظم تھے اور ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ قونصل خانے کی ثقافتی تقریبات کے انعقاد میں، اگر ان کا کوئی تعلق ادب سے ہو، تو مجھ سے بھی مشورہ لیا ہے۔ انہوں نے ایک مجلس مشاورت اس مقصد کے لیے تشکیل دینے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے مجھ سے دو مزید نام تجویز کرنے کے لیے کہا۔ میں نے کسی تامل کے بغیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور پیرزادہ قاسم کے نام دے دیے۔
چناں چہ یہ مجلس بن گئی اور اس کے چند اجلاس بھی ہوئے۔ پہلے مشاعرے کے لیے یہ بھی تجویز ہوا کہ اس میں ''ہائیکو'' کی روایت اور فن اور اردو میں اس کے فروغ کے امکانات پر ایک مقالہ ڈاکٹر فرمان پیش کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے، نہ صرف اس مجلس میں شامل ہونا اور اس کے اجلاسوں میں شرکت کرنا گوارا کیا بلکہ میری گزارش پر وہ مقالہ تحریر کیا جو بہت جامع اور مبسوط تھا۔ یہ بعد میں شائع بھی ہوا۔ یہ اردو میں، کوئی تین دہائی قبل، ہائیکو مشاعروں کا آغاز تھا اور اس کے ابتدائی سرپرستوں میں ڈاکٹر فرمان صاحب کا نام بھی شامل تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو اردو زبان، اس کے قواعد واملا، اس کے مسائل اور لغت نویسی سے جو دل چسپی تھی وہ ہر ایک کے علم میں ہے۔ اردو لغت بورڈ کی ''اردو لغت'' کی ترتیب و اشاعت کے لیے جس منظم انداز سے انہوں نے کام کیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ اور اس سے قبل یہ بھی ایک مثال ہے کہ انہوں نے شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے اس دور میں جب وہ شعبے کی صدارت پر فائز ہوئے تو انہوں نے شعبے کی ترقی اور بہتری کے لیے جو کام کیے وہ شعبے کی تاریخ میں منفرد اور مثالی ہیں۔ اس وقت خوش قسمتی سے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب تھے، جنہوں نے یونیورسٹی کے زوال کو روکنے کی پوری کوششیں کیں اور ان ہی کوششوں کے تحت ڈاکٹر فرمان کو پوری طرح آزادی دے دی کہ وہ ہر طرح شعبے کی بھلائی و بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
چناں چہ فرمان صاحب نے ایک تو شعبے کے نصاب کو جو فرسودہ ہوچکا تھا، نئے تقاضوں کے مطابق مرتب کرنے کے لیے پیش رفت کی اور ساتھ ہی شعبے میں نئے اساتذہ کے تقرر کا منصوبہ بنایا کہ 22-20 سال سے کسی کا تقرر ہی نہیں کیا گیا تھا۔ میری کراچی یونیورسٹی سے وابستگی اسی ضمن میں ممکن ہوسکی تھی اور مجھے راضی کرنے کے لیے کہ میں شعبے کے دیرینہ حالات کے باعث اس سے وابستگی کے لیے کچھ خوش گمان نہ رہا تھا، ڈاکٹر صاحب نے میرے پاس ازخود آنے کی زحمت گوارا فرمائی اور نہ صرف تشریف لائے بلکہ ساتھ میں درخواست فارم بھی لائے، جو ان ہی دنوں جاری ایک اشتہار کے مطابق دستیاب تھے، کہ میں اسے پر کرکے داخل کردوں اور ساتھ ہی اسی پیش کش پر مبنی ڈاکٹر جالبی صاحب کا پیغام بھی پہنچایا۔
اس طرح کی کوششوں کے باوصف انہوں نے واقعتاً شعبے کو ہر لحاظ سے نئی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ بھی چاہا کہ اونچی سطح پر کم ازکم ایک پروفیسر کا تقرر بھی کیا جائے جو شعبے کے لیے وقار کا سبب بن سکے۔ اس مقصد کے لیے، ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی شہ پر کوشش کی گئی کہ سندھ یونیورسٹی سے نام ور محقق و استاد ڈاکٹر نجم الاسلام صاحب کو یہاں بحیثیت پروفیسر مدعو کیا جائے۔ ٹیلی فون کی سہولتیں اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھیں اس لیے اس کام کے لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ انہیں یہ دعوت بالمشافہ حیدرآباد جاکر دی جائے۔
اس مقصد کے لیے ڈاکٹر فرمان نے، بصد راز داری، خود حیدرآباد کا سفر کیا اور رفاقت کے لیے مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ ہم دونوں ڈھونڈتے ڈھانڈتے لطیف آباد میں ان کے گھر پہنچے۔ لیکن افسوس ڈاکٹر نجم الاسلام نے یہاں شعبے کے حالات کی وجہ سے اس وقت یہاں آنا قبول نہ کیا لیکن بعد میں ایک موقع پر جب سندھ یونیورسٹی میں ان کے لیے بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے یہاں آنے کی کوشش کی اور تقرر کے قریب تک کا مرحلہ آگیا لیکن یہاں سے انہیں ''ٹانگیں توڑ دینے'' کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے یہاں نہ آنے اور وہیں رہنے کو غنیمت جانا۔ یہ ہے ہماری یونیورسٹیوں کی اخلاقیات! آج کا شعبہ اردو لگتا ہے اپنی ایسی ہی روایت پر پوری طرح کاربند ہے کہ کہیں کوئی قابل، معروف اور فرض شناس شخص شعبے میں نہ آجائے، جو مختلف سا لگے۔
ڈاکٹر فرمان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ایسے وقت رخصت ہوئے ہیں جب یوں ہی ہر سمت میں، ہر شعبے میں ایک قحط الرجال وسیع سے وسیع تر ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب ایسے کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں رہ گئے تھے؟ اب یہ بھی نہ رہے!