ہمارا اصل دشمن

ہم برسوں سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم کو درپیش سارے مسائل، ساری برائیاں، ساری خرابیاں غیر ملکیوں نے سازش کے۔۔۔

ہم برسوں سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم کو درپیش سارے مسائل، ساری برائیاں، ساری خرابیاں غیر ملکیوں نے سازش کے تحت ملک میں پھیلائی ہیں، ہم اس حد تک ذہنی مریض ہوگئے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے ساری دنیا ہماری دشمن بن چکی ہے، ہم دن رات دنیا بھر کو کوستے رہتے ہیں، برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ہر ملکی مسئلے کے پیچھے ہمیں غیرملکی ہاتھ نظر آتا ہے۔ اصل میں سارا مسئلہ ہماری سوچ کا ہے۔ ہم اپنے قصور، غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہماری دشمن دنیا نہیں بلکہ غربت، افلاس، رجعت پسندی، انتہا پسندی، دہشتگردی ہمار ے اصل دشمن ہیں۔ ان دشمنوں کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے، ہم تو انھیں اپنا دشمن ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں، ان دشمنوں کے خالق غیر ملکی نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔

کوئی اگر ہمیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے تو ہم اس کے دشمن بن جاتے ہیں، کوئی ہماری غلطیوں، برائیوں، خرابیوں سے فائد ہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں اس کا نہیں بلکہ خود ہمارا اپنا قصور ہے۔ کس نے ہمیں روکا ہے کہ ہم ملک سے غربت، مہنگائی، افلاس، انتہا پسندی کا خاتمہ کرکے خوشحالی اور ترقی کی جانب سفر کا آغاز شروع نہ کریں۔ دنیا میں نہ کسی کو ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کو اتنی فرصت ہے کہ وہ ہمارے خلاف سارا وقت سازش کرتا رہے۔ کیا ہمارے ملک میں ہونے والی ملاوٹ، جھوٹ، منافقت، کرپشن، لوٹ مار کے پیچھے بھی غیر ملکی ہاتھ ہے؟ کیا یہ سب کچھ بھی 9/11 یا ڈرون حملوں کا ری ایکشن ہیں؟

تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق غربت انسان کی ذہانت کو کھا جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی بالکل یہ ہی ہوا ہے، ہماری ذہانت غربت کھا چکی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے مذہبی ادارے نے اپنے ایک تازہ ترین فتویٰ میں فرمایا ہے کہ کارٹون دیکھنا غیر شرعی اور اسلام کے منافی ہے۔ 1440 میں جرمنی میں پرنٹنگ پریس (چھاپہ خانہ) ایجاد ہوتا ہے اور پورے یورپ میں آگ کی طرح پھیلتا ہے اور ادھر سلطنت عثمانیہ کا شیخ الاسلام فتویٰ دیتا ہے کہ ہماری مقدس کتابیں مشینوں پر نہیں لکھی جائے گی۔ 1550 میں انگریزوں نے انڈیا (Goa) میں پرنٹنگ پریس لگایا تو ہند کے علما نے بھی شیخ الاسلام کے فتوے کی توثیق کردی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سے ہمارے کاتبوں کی روزی روٹی چھن جائے گی۔ ایجاد کے تقریباً 250 سال بعد مسلمانوں نے اس انقلابی ایجاد سے مستفید ہونے کی شروعات کی۔


1665 میں پہلے بلڈ ٹرانسفیوژن کا کامیاب تجربہ کیا جاتا ہے، ادھر پھر مذہب کے ٹھیکیداروں نے فتویٰ دیا کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان پر حرام ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ڈاکٹر اس فیلڈ میں 3 سو سال پیچھے رہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں رائٹ برادران نے امریکا میں ہوائی پرواز کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہاں یہ فتویٰ دیا گیا کہ جولوگ یہ مانتے ہیں کہ لوہا ہوا پر اڑ سکتا ہے اس کا ایمان چلا جائے گا۔ ساری دنیا اس نئی ایجاد کو دیکھ کر انجوائے کررہی تھی اور مسلمان کنفیوژ گھوم رہے تھے کہ یہ لوہا ہوا میں اڑ رہا ہے لیکن اگر اس پر یقین کرو گے تو ایمان چلا جائے گا۔ سرسید احمد خان نے انگریزی تعلیم پر زور دیا تو ان کو کافر کہا گیا۔ علامہ اقبال نے شکوہ لکھ دیا، ان پر کفر کا لیبل لگ گیا۔ وہ ذہین آدمی تھے، انھوں نے جلدی جواب شکوہ لکھ دیا تو وہ لیبل اتار دیا گیا۔

ساری دنیا بیماریوں، خرابیوں، برائیوں کے خلاف کامیابی سے جنگ میں مصروف ہے، علم و فن و ہنر میں معراج کی حدوں کو چھو رہی ہے، مریخ، چاند اور دیگر سیاروں کو مسخر کررہی ہے، انسان کی زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور دوسری طرف ہم دن رات اپنا قیمتی وقت آیا کارٹون دیکھنا شرعی ہے یا غیر شرعی، اسی فکر میں ضایع کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہم مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ نجانے کیوں ہمیں اپنی حالت، اپنی سوچ، فکر پر ترس نہیں آتا، حالانکہ ہماری حالت اس وقت قابل رحم کی انتہائی سطح پر ہے۔ ہمارے چاروں طرف مسائل، خرابیوں اور برائیوں کے انبار بن چکے ہیں۔

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 70 لاکھ بچے اپنی اہم ترین ضرورت ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ عالمی سطح پر اپنے سب سے زیادہ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے والوں میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور خوفناک خطرہ جس کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے، وہ ہے پاکستان کی آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ۔ پاکستان کی آبادی دنیا بھر میں تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ 66 سال میں یہ آبادی 3 کروڑ سے 18 کروڑ تک جا پہنچی ہے اور اگر اسی طرح رفتار جاری رہی تو ممکن ہے کہ آئندہ 67 سال میں یہ آبادی ایک ارب تک جا پہنچے۔ آبادی میں اتنے اضافے سے اس قدر بھیانک صورتحال پیدا ہوجائے گی کہ اس سے نمٹنے کا موقع ہی نہ مل پائے گا۔ یہ اضافہ بھوک، افلاس، غربت، قحط، لوٹ مار، خانہ جنگی، قتل عام، ناخواندگی، آلودگی، بیماریاں اور نجانے کیا کیا عذاب لے کر آسکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر ماہرین تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ آپ معیشت میں کتنی ہی بہتری کیوں نہ لے آئیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جب ہر سال چار یا پانچ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور ہر دفعہ اضافہ مزید بڑھتا جارہا ہے تو تصور کریں آئندہ کیا صورتحال ہوگی۔ سوچنے کی بات ہے کیا ہمارے پاس ایسے وسائل موجود ہیں کہ ہم اتنے افراد کے لیے سٹرکیں، پانی، خوراک، رہائش، ادویات وغیرہ مہیا کرسکیں؟ افسوس کا مقام ہے کہ ہم صرف اور صرف سیاسی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں اور اصل مسئلوں کی طرف کوئی توجہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ تو یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں کہ یہ سب کوئی مسئلے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ خدارا جا گ جائیے۔ وقت کبھی نہیں رکتا، نئے زمانے کے نئے تقاضے ہوتے ہیں، زمانے کے ساتھ چلیے ورنہ آپ اتنے پیچھے رہ جائیں گے کہ پھر کبھی آپ اسے دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے۔ آپ اپنی حرکتوں اور سوچ کی وجہ سے دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں۔ دنیا ایک طرف ہے تو آپ دوسری طرف ہیں۔ آپ دنیا سے کٹ کر تنہا ہوکر کبھی بھی زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ ٹی، ایس، ایلیٹ کہتا ہے ''ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گرد و پیش کی دنیا بدلتی ہے، خود بھی بدلتا رہتا ہے مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا، ہندوئوں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سو سال قبل ہمارے آبائو اجداد کا تھا، یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارے اپنے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔'' ہمیں نئے تقاضوںکے تحت فکری تبدیلی برتنی چاہیے تھی، وہ نہیں برتی، جس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہمیں اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر فکری تبدیلی لے کر آئیں کیونکہ بوسیدہ دیواروں کو توڑ کر ہی نئی عمارت کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہم نے غلطیاں کی ہیں لیکن ان غلطیوں پر قائم رہنا دانش مندی کی دلیل نہیں۔ اگر اب بھی ہم نے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا اور زمانے کے ساتھ نہیں چلے تو مکمل تباہی اور بربادی آپ کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
Load Next Story