معین اختر یاد آگیا
میرے شہر کراچی میں موت کا رقص جاری ہے۔ ڈھول تاشوں کی لے تیز تر ہورہی ہے۔ رقص کو لے کے ساتھ ساتھ رہنا ہے۔
میرے شہر کراچی میں موت کا رقص جاری ہے۔ ڈھول تاشوں کی لے تیز تر ہورہی ہے۔ رقص کو لے کے ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ سو رقص میں بھی تیزی آرہی ہے۔ میں ہی کیا دوسرے بہت سے بھی شہر کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکے اور لکھ رہے ہیں۔ مجھے ان حالات میں معین اختر یاد آگیا ہے۔ میرے شہر میں پیدا ہونے والا، پھلنے پھولنے والا ایک بہت اچھا انسان، جو میرا بہت قریبی دوست تھا۔ آج کا لکھا معین اختر کے نام۔
یہ 1965 کی بات ہے۔ جنگ ستمبر ہوچکی تھی۔ پورا ملک کیف و سرور میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر سو فتح مبین کے نغمے گونج رہے تھے۔ پوری قوم یک جان بنی ہوئی تھی۔ آزادی وطن پر مر مٹنے کا جذبہ عروج پر تھا۔ جگہ جگہ ملی نغموں اور ترانوں کی محفلیں سجائی جارہی تھیں۔ نوجوانوں کے حوصلے بلند تھے۔ ایسے میں چند باحوصلہ نوجوانوں نے ''شائینرز'' کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کے روح رواں سید محمد مصطفیٰ تھے۔ مصطفیٰ بھائی اور میں ان دنوں محکمہ انکم ٹیکس کراچی میں ملازم تھے۔ مصطفیٰ سینئر کلرک اور میں جونیئر کلرک تھا۔ ''شائینرز'' کے تحت ہم نے شہر کراچی میں میوزیکل پروگرام کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ مجھے خوب یاد ہے ''شائینرز'' کے تحت ڈاؤ میڈیکل کالج میں پروگرام ہورہا تھا، اور اس پروگرام میں ایک نہایت منحنی سا لڑکا بطور مزاحیہ فنکار اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
یہ جنگ ستمبر کے فوری بعد کا زمانہ تھا اور دبلا پتلا مزاحیہ فنکار، جیٹ طیاروں کی آواز اور دشمن کے علاقوں پر بم برسانے کی آوازیں اس مہارت سے اپنے گلے سے نکال رہا تھا کہ سامعین دم بخود بیٹھے سن رہے تھے اور بے تحاشا تالیاں بجا بجا کر اسے داد و تحسین سے نواز رہے تھے، پھر اس نوجوان نے صدر جنرل ایوب خان کی تقریر (جو انھوں نے بطور صدر پاکستان قوم سے خطاب کیا تھا) کی نقل اس خوبی سے ادا کی کہ سامعین عش عش کر اٹھے۔ جنرل ایوب خان کی تقریر اس زمانے میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ تقریر کا ابتدائیہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے ''میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم! ہندوستان نے بلااشتعال ہمارے ملک پر حملہ کردیا ہے۔ دشمن کو پتا نہیں ہے کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔'' یہ الفاظ صدر ایوب کے لہجے میں وہ نوجوان لڑکا خوب ادا کر رہا تھا۔ یہ اس نوجوان فنکار کی فن کی دنیا میں پہلی انٹری تھی۔ یہ عظیم انسان اور عظیم فنکار معین اختر تھا، جسے آج پورا برصغیر لیجنڈ فنکار تسلیم کرتا ہے۔
معین اختر کے فن کی خوشبو پوری دنیا میں پھیلی۔ اس نے دنیا گھومی اور وہ جہاں بھی گیا داستاں چھوڑ آیا۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والے ہر سربراہ نے معین اختر سے ملاقات چاہی۔ اداکار محمد علی سے دلیپ کمار تک، سب معین اختر کے دیوانے تھے۔ مگر وہ عظیم انسان اتنا عروج دیکھنے کے بعد بھی اپنے پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ جب معین اختر اپنی فنکارانہ زندگی میں بے پناہ مصروف ہوگیا تو میرا اور اس کا رابطہ بس یہ رہ گیا کہ میں اخباروں میں، رسائل میں اس کی خبریں پڑھتا یا ٹیلی ویژن پر اس کے ڈرامے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ یوں ہی بہت سا وقت گزر گیا، معین اختر دن رات کام میں مصروف رہتا تھا اور اسی تھکا دینے والی صورت حال نے اسے ایک دن دل کے اسپتال پہنچادیا۔ وہ کراچی کے جناح اسپتال میں زیر علاج تھا۔ وہ چاہتا تو بیرون ملک اچھے سے اچھے اسپتال میں Open Heart Surgery کروا سکتا تھا، مگر اس نے اپنے وطن کے ڈاکٹروں پر اعتماد کا اظہار کیا۔
معین اختر ICU کے بعد اسپتال میں ہی آرام کر رہا تھا کہ میں اس کی عیادت کے لیے چلا گیا۔ ڈاکٹرز نے ملاقات پر پابندی لگا رکھی تھی۔ میں نے اپنے Visiting Card کے پیچھے لکھا ''معین! تمہاری ترقی کی خبریں اخبارات میں پڑھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں، بیماری کی خبر سن کر نہ رہ سکا اور عیادت کے لیے آگیا، خدا تمہیں صحت دے، فقط سعید پرویز''۔
میرے بچے بھی اب جوان ہوچکے تھے، کبھی کبھی میں انھیں بتاتا کہ ''معین اختر میرا بڑا اچھا دوست ہے'' تو میرے بچے یقین نہیں کرتے تھے اور میں بھی اصرار نہیں کرتا تھا۔ خیر معین اختر اسپتال سے گھر آگیا تو ایک دن اس کا فون آیا۔ میرے بڑے بیٹے فرحان حسن نے فون ریسیو کیا۔ ''سعید پرویز بول رہے ہو؟'' معین اختر پوچھ رہا تھا۔ میرے بیٹے نے کہا کہ وہ تو آفس گئے ہوئے ہیں۔ معین اختر نے اختتامی فقرہ ادا کیا۔ ''اچھا وہ آئیں تو بتا دیجیے گا کہ معین اختر کا فون آیا تھا''۔ میرے بیٹے نے کہا ''جی اچھا'' اور پھر اسی لمحے میں چونک کر معین اختر سے پوچھا ''جی آپ معین اختر بول رہے ہیں؟ وہی معین اختر جو اداکار ہیں؟'' معین اختر نے بڑے تحمل سے میرے بیٹے سے کہا ''ہاں بیٹا! میں وہی معین اختر ہوں''۔
اب جو شام کو میں گھر پہنچا تو میرے بیٹے فرحان نے مجھے بڑے فخر اور خوشی سے بتایا ''ڈیڈی! وہ معین اختر آپ کے دوست ہیں۔ ان کا فون آیا تھا''۔ میں پھر یہ بات دہراؤں گا کہ معین اختر سربراہان مملکت سے ملا، بڑے فوجی جرنیلوں سے ملا، بڑے نامور اداکاروں سے ملا، دنیا گھومی، مگر وہ اپنے پرانے دوستوں کو کبھی نہ بھول سکا۔ میرے اور معین اختر کے ساتھیوں میں گلوکار اخلاق احمد بھی اگلے جہان چلے گئے۔ اب ہم دو ایک ہی رہ گئے ہیں، یہی گلوکار جمال اکبر اور اداکار شبیر رانا۔ انتقال سے بیس روز پہلے معین اختر مجھے ملا۔ میں آرٹس کونسل سے نکل رہا تھا اور معین اختر اپنی سیاہ ہنڈا اکارڈ میں داخل ہورہا تھا، اس دن بھی وہ خوش لباس نظر آیا۔ خوش لباسی معین کی خاص صفت تھی۔ میں اس سے ملا، میں نے کہا ''مجھے اپنا سیل نمبر دو'' معین اختر واش روم کی طرف جارہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی (وہ بھی نوجوان کامیڈین ہے) سے کہا ''سعید کو میرا سیل نمبر لکھوادو''۔ اس روز معین اختر کسی تعلیمی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھا۔
میں سوچتا ہی رہ گیا کہ آج فون کروں گا، کل فون کروں گا اور معین اختر کا سفر اختتام کو پہنچ گیا۔ اپریل کا مہینہ تھا، کراچی گرمی میں جھلس رہا تھا۔ میں بھی اس کے جنازے میں شریک تھا۔ ایسا پرہجوم جنازہ میں نے نہیں دیکھا۔ ہزاروں انسان، سیکڑوں کاریں، موٹرسائیکلیں اور پیدل چلتے لوگ، غریب مائیں اپنے بچوں کو گودوں میں اٹھائے زاروقطار رو رہی تھیں وہ بین کر رہی تھیں ''اب ہمارا ماہانہ خرچہ کون اٹھائے گا؟''
معین اختر خاموشی سے ہر ماہ سیکڑوں ضرورت مند گھرانوں کی مالی مدد کرتا تھا۔ معین اختر نے غربت دیکھی تھی، اس کا مزہ چکھا تھا، پھر قدرت نے اس کو کروڑوں روپے دیے اور اس نے اپنی اور بچوں کی ضرورت کے علاوہ سب کچھ حق داروں کو لوٹا دیا۔ معین اختر جیسے لوگ ہی مرنے کے بعد بھی زندہ رہ جاتے ہیں۔ آج یوں ہی معین یاد آگیا اور کچھ وقت ہی سہی اس کی یاد میں گزار لیا۔ معین اختر! تم چلے گئے، اچھا ہوا۔ ورنہ آج اپنے شہر کا یہ حال تم کہاں برداشت کرپاتے۔
کراچی ایئرپورٹ سے نہ جانے کتنی بار معین اختر نے فلائی کیا ہوگا اور اترا ہوگا۔ آج اسی ایئرپورٹ کے عین سامنے واقع قبرستان میں اس عظیم انسان کی کچی قبر دنیا کی حقیقت کا نشان بن کر موجود ہے۔ خدا معین اختر کے درجات بلند فرمائے(آمین!)