لمیٹڈ ٹائم آفر

سچ کو تسلیم کیجیے اور استحکام کے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام کر جائیے


زوہیب اختر July 01, 2019
خود فریب طبقے کو اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: پاکستان کی تاریخ ہمیشہ سے دو طبقات کے درمیان تناؤ کا شکار رہی ہے۔ اس تناؤ کو نظریات کی جنگ کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ یہ دنیا کے چلن سے مطابقت رکھنے والا معمول کا واقعہ ہے۔ نظریات کی بنیاد پر اختلاف رائے اور پھر اس اختلاف رائے میں پائے جانے والی شدت ہمیشہ ہی کسی منطقی انجام پر پہنچ کر قوموں کی زندگیاں بدلنے کا سبب بنی ہے۔ یہ عرفان شعور کی علامت بھی ہے اور قوموں کے عقلی وجود کا حسن بھی۔

دنیا بھر میں جب بھی دو یا دو سے زائد طبقات کے مابین نظریاتی جنگیں ہوئی ہیں تو جیتنے والے طبقے کو مال غنیمت کے طور پر ایک ایسے حسین مستقبل کی بنیاد سمیٹنے کو ملتی ہے جس پر وہ اپنی آنے والی نسلوں کےلیے اپنے نظریات کی عکاسی کرتی آزاد، خود مختار اور صحت مند معاشرت کی عمارت تعمیر کرسکے، اس بات کو یقینی بنا سکے کہ اس طبقے کے نظریات اس کی قوم کےلیے ترقی کی وہ راہیں ہموار کرسکیں جو مخالف نظریہ نہیں کرسکتا تھا۔

2008 پاکستان میں ایسی ہی ایک جنگ کے اختتام کا سال تھا۔ سالہاسال کے ٹکراؤ اور مزاحمت کے بعد بالآخر تمام ریاستی ادارے، پس ماندہ عوام اور پریشاں حال دانشوروں نے ایک خاص نقطے پر پہنچ کر اپنے مستقبل کا طرزِ عمل اختیار کرنے کےلیے ایک مخصوص طبقے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ خدا کرنی تھی کہ مخالف نظریات کے حامل فریق نے بھی اس ضمن میں اپنے ذاتی و ادارہ جاتی عناد کو پس پشت ڈالتے ہوئے عوامی فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا اور ریاست کی فلاح کےلیے منتخب عوامی نمائندگان کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔

آج اس واقعے کو 11 سال گزر چکے ہیں۔ یہ گیارہ سال پاکستان کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ یہ گیارہ سال آنے والی نسلوں کےلیے تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کرسکتے تھے۔ یہ گیارہ سال ہمارے حکمرانوں کےلیے قابل رشک ہوسکتے تھے؛ اور یہ گیارہ سال ہمارے عوام کے صحت مند خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکتے تھے۔ لیکن...

لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو معاملہ ہی کچھ اور نظر آتا ہے۔ جس طبقے کو نصف صدی ہمارے حکمران ملکی فلاح کی رکاوٹ بتاتے آئے تھے، انہی گیارہ سال میں وہ ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور مزید پیشہ ور ادارے کی صورت ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ یہ ادارہ اپنی غلطیوں پر ڈٹے رہنے کے بجائے تمام تر تنقید سنتا ہوا مثبت اصلاحات کے بعد آج اپنی توقیر کے ساتھ قوم کے دلوں میں دوبارہ اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ دوسری طرف جس نظریئے کا ہم نے ساتھ دیا تھا، وہ نظریہ عوامی فلاح کے بجائے ذاتی مفادات اور تخت و دولت کے حصول کا نظریہ ثابت ہوا۔

ہماری نسلوں کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا جب کہ ہمارے حکمراں خاندانوں نے دولت و ثروت سمیٹنے کے ہنر میں ان گیارہ سال کے دوران دنیا بھر کو زیر کرکے رکھ دیا۔ میں قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہماری نسلیں سنوارنے کے ضامن طبقے نے جس جنونی طرز سے ان گیارہ برسوں میں دولت بٹوری ہے، کم از کم جمہوری حکومتوں کے آغاز سے آج تک دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ ہوگا۔

تاریخ اس قوم کے ساتھ کھیلے گئے اس کھیل کے ہر کردار کو دیکھ رہی ہے۔ عوام بھی بیدار ہوچکے ہیں۔ اس حکمراں ٹولے نے اپنے مخالف طبقے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ یہ جاہل اور اناپرست، بھرے شکموں والا ٹولا آج بھی اپنی غلطیوں پر ڈٹا ہے۔ یہ آج بھی خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ یہ قوم کو مزید بے وقوف بنا سکتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ بے خبر ہیں، یہ نہیں جانتے کہ یہ خود فریبی انہیں اصلاحات کے بجائے مزید بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہے۔

یہ بگاڑ اب جتنا بڑھے گا، شعور اتنی ہی تیزی سے عوام کی سوچ میں سرایت کرتا نظر آئے گا۔ یہ نہیں جانتے کہ تغیر فطری امر ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو جدت کی راہ ہموار کرتے شعوری تغیر کی رفتار ہمیں عام معاملات میں تبدیلی سے کئی گنا تیز نظر آتی ہے۔ ان کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اس خود فریبی سے نکلیں۔ جو معصوم عوامی طبقہ اب بھی ان کی تقلید کر رہا ہے، اسے لے کر درست سمت میں نکل چلیں۔

تاریخ سب دیکھ رہی ہے، تاریخ خود فریب نہیں ہوتی۔ یہ زمانہ شیشے میں اترا ہوا زمانہ ہے، یہاں ہر عمل ہر فعل خود اپنا آئینہ دار ہے، کچھ بھی جھٹلایا جانا ممکن نہیں۔ کچھ بھی مٹایا جانا ممکن نہیں۔ ہم جو کر ہے ہیں، ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اسی کیے پر پرکھیں گی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا دور نہیں، یہاں تاریخ کو مسخ کرنے کےلیے کوئی ترک سلطان سلیمان نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے، یہ انٹرنیٹ کا دور ہے، یہاں لائبریریوں کی جگہ ہارڈ ڈسک نے لے لی ہے۔

اب بھی وقت ہے، خود فریب طبقے کو اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے۔ آنے والی نسلوں کےلیے نہ سہی، ملک کےلیے نہ سہی، ریاست کےلیے نہ سہی، کم از کم تاریخ میں اپنے نام اور پہچان کی توقیر کےلیے۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو لیں ورنہ تاریخ آپ کی آنے والی نسلوں کو ضرور شرمندہ رکھے گی۔

ریاست اعلانیہ طور پر متحد و مستحکم ہونے جا رہی ہے۔ آپ کی خود فریبی ریاست کے استحکام کی بحالی میں مشکلات تو پیدا کرسکتی ہے لیکن ریاست کو مستحکم ہونے سے روک نہیں سکتی۔ آنکھیں کھول لیجیے، سچ کو تسلیم کیجیے اور استحکام کے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام کر جائیے۔

یہ لمیٹڈ ٹائم آفر ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں