عورت اور مقدس ’’خلائی مخلوق‘‘ کا تخیلاتی ہیولا
بالعموم شوہر ایک ایسا حاکم ہے جو بیوی کو اپنی عزت کا استعارہ سمجھتا ہے لیکن عورت کو ذلت کی علامت بنا کر رکھ دیتا ہے
KARACHI:
خلا میں زندگی کے اثرات نہیں، لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خلا میں کہیں آج بھی ایک مخلوق بستی ہے جسے ''خلائی مخلوق'' کہا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم کےلیے خلائی مخلوق کا تصور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے دوران سامنے آیا۔ لیکن چاند پر بڑھیا کے چرخے کی آواز سننے والی بنت حوا کو بچپن ہی سے ایک اور خلائی مخلوق سے متعارف کرایا جاتا ہے جسے والدین ''خاوند'' یا ''شوہر'' کا نام دیتے ہیں جبکہ معاشرہ اس خلائی مخلوق کو مجازی خدا کا نام دیتا ہے۔ وہ بچی جسے اپنی ذات کے بارے میں علم نہیں ہوتا، اس کے ذہن میں ایک تخیلاتی شوہر کا نقشہ ثبت کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رنگوں سے کھیلنے والی کم سن بچی، گڑیا کی شادی جیسے کھیلوں میں دلچسپی لیتی ہے۔
میرا خاندان نسبتاً روشن خیال ہے لیکن مجھے بھی اپنی پسند کی چیز استعمال کرنے اور زندگی جینے کےلیے پابندی کا سامنا ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ تم تمام شوق اپنے شوہر کے گھر جاکر پورے کرلینا۔ مجھے ساڑھی باندھنا بہت پسند ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ساڑھی باندھوں مگر میری امی جان مجھے اجازت نہیں دیتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے شوہر سے اجازت لینا اور پہن لینا شادی کے بعد۔ مطلب کہ شوہر ہو تو میں اجازت بھی لوں۔ ابھی تو شادی بھی نہیں ہوئی مگر وہ موصوف میری زندگی میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی میں شامل ہیں۔
گھر میں بیٹھنے، بولنے اور سننے پر قفلِ مادر لگا ہوا ہے، جس کی چابی اسی خلائی یا تصوراتی مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی یہ قفل جاکر اسی کے گھر میں کھلے گا۔ لڑکی کی سانسیں اسی نامعلوم شخص کے ہاتھ میں ہیں جو آپ کے پاس موجود نہ ہو کر بھی اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے۔ معاشرہ خاوند کے تصور کو دین کے ساتھ جوڑتا ہے۔ لیکن یہ تصور خالصتاً مشرقی روایات کا حصہ ہے، جہاں بیٹی کو تعلیم اور شعور دینے کے بجائے اس کے دل و دماغ پر ایک خوف مسلط کردیا جاتا ہے۔ جہاں اس کی زندگی میں راحت و رومان، خوشی اور پیار کی جگہ خوف اور احساس کمتری کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جہاں بیٹی کو ''شوہر سر کا تاج ہے'' کا سبق پڑھایا جاتا ہے جبکہ بیٹوں کو ''بیوی پاؤں کی جوتی ہے'' کا درس دیا جاتا ہے۔ جہاں تخیلاتی شوہر کا خوف بیٹی کے ذہن پر مسلط کردیا جاتا ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ باہمی اعتماد، محبت اور یگانگت کا عملی نمونہ ہوتا ہے لیکن بچپن سے بنت حوا کے ذہن میں مسلط کردہ ہیولا اس کے اعتماد اور زندگی کے گرد خوف کا اندھیرا پیدا کردیتا ہے۔
دوسری جانب ابنِ آدم حق حاکمیت کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ عورت پر حکم چلانا وہ اپنی مردانگی کی علامت سمجھتا ہے۔ چاروں جانب نگاہ دوڑاتی ہوں تو مجھے مرد کی شکل میں ایک حاکم نظر آتا ہے، جو اپنی بیوی پر حق حاکمیت برقرار رکھنے کےلیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ جو عورت کو اپنی عزت کا استعارہ سمجھتا ہے، لیکن عورت کو ذلت کی علامت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
عورت اگر عزت کی علامت ہے تو اسے بچپن سے عزت دی جانی چاہیے۔ ہواؤں کے دوش اور اوج ثریا پر قدم رکھنے کی صلاحیت رکھنے والی لڑکی کی زندگی خاک میں بسر ہوتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ ہر بیوی اپنے شوہر کا احترام کرے مگر اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی ایک گمنام ہیولے کے حصار میں کیوں جکڑ دی جاتی ہے؟ وہ گڑیا سے دل کی باتیں کرنے کے بجائے اس کی شادی رچانے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ پنگھٹ پر کم سن ہمجولیوں کے ہمراہ دل کی باتیں کرنے کے بجائے شادی کے قصے لیے بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے رشتوں کی الجھی ڈوریں سلجھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہوتی ہے۔
بچپن سے مسلط شدہ تخیلاتی شوہر کا خاکہ اس کے ذہن پر ایک ظالم و جابر شخص کے طور پر نقش ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی کے بعد اس شخص کا دل کے بجائے خوف کے باعث احترام کرتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کی پرورش کے دوران کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہ اپنائیں۔ بیٹی ہو یا بیٹا، یکسانیت کو فروغ دیں۔ انہیں برابری کی بنیاد پر توجہ دیں، کیونکہ کسی بھی سوسائٹی کی تبدیلی میں ماں کا کلیدی کردار ہوگا۔ بچیوں کے ذہنوں میں شوہر کا خوف ڈالنے کے بجائے انہیں زندگی جینے کا ہنر دیجیے، انہیں زندگی کے اسرار و رموز سے آگہی دیجیے۔ اور ہاں! سب سے اہم بات، اپنی بیٹی پر اعتماد کیجیے، اس کا سہارا بنیں، اسے زندگی جینے دیجیے کیونکہ اگر بیٹی نے باپ کے گھر میں زندگی نہ جی تو شوہر کے گھر میں اسے راحت کہاں نصیب ہوگی؟ اگر اسے ماں نے تتلیوں کے ساتھ اڑنے کا حوصلہ نہ دیا تو ساس کی تیز قینجی اس کے پر کہاں سلامت رہنے دے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خلا میں زندگی کے اثرات نہیں، لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خلا میں کہیں آج بھی ایک مخلوق بستی ہے جسے ''خلائی مخلوق'' کہا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم کےلیے خلائی مخلوق کا تصور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے دوران سامنے آیا۔ لیکن چاند پر بڑھیا کے چرخے کی آواز سننے والی بنت حوا کو بچپن ہی سے ایک اور خلائی مخلوق سے متعارف کرایا جاتا ہے جسے والدین ''خاوند'' یا ''شوہر'' کا نام دیتے ہیں جبکہ معاشرہ اس خلائی مخلوق کو مجازی خدا کا نام دیتا ہے۔ وہ بچی جسے اپنی ذات کے بارے میں علم نہیں ہوتا، اس کے ذہن میں ایک تخیلاتی شوہر کا نقشہ ثبت کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رنگوں سے کھیلنے والی کم سن بچی، گڑیا کی شادی جیسے کھیلوں میں دلچسپی لیتی ہے۔
میرا خاندان نسبتاً روشن خیال ہے لیکن مجھے بھی اپنی پسند کی چیز استعمال کرنے اور زندگی جینے کےلیے پابندی کا سامنا ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ تم تمام شوق اپنے شوہر کے گھر جاکر پورے کرلینا۔ مجھے ساڑھی باندھنا بہت پسند ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ساڑھی باندھوں مگر میری امی جان مجھے اجازت نہیں دیتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے شوہر سے اجازت لینا اور پہن لینا شادی کے بعد۔ مطلب کہ شوہر ہو تو میں اجازت بھی لوں۔ ابھی تو شادی بھی نہیں ہوئی مگر وہ موصوف میری زندگی میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی میں شامل ہیں۔
گھر میں بیٹھنے، بولنے اور سننے پر قفلِ مادر لگا ہوا ہے، جس کی چابی اسی خلائی یا تصوراتی مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی یہ قفل جاکر اسی کے گھر میں کھلے گا۔ لڑکی کی سانسیں اسی نامعلوم شخص کے ہاتھ میں ہیں جو آپ کے پاس موجود نہ ہو کر بھی اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے۔ معاشرہ خاوند کے تصور کو دین کے ساتھ جوڑتا ہے۔ لیکن یہ تصور خالصتاً مشرقی روایات کا حصہ ہے، جہاں بیٹی کو تعلیم اور شعور دینے کے بجائے اس کے دل و دماغ پر ایک خوف مسلط کردیا جاتا ہے۔ جہاں اس کی زندگی میں راحت و رومان، خوشی اور پیار کی جگہ خوف اور احساس کمتری کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جہاں بیٹی کو ''شوہر سر کا تاج ہے'' کا سبق پڑھایا جاتا ہے جبکہ بیٹوں کو ''بیوی پاؤں کی جوتی ہے'' کا درس دیا جاتا ہے۔ جہاں تخیلاتی شوہر کا خوف بیٹی کے ذہن پر مسلط کردیا جاتا ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ باہمی اعتماد، محبت اور یگانگت کا عملی نمونہ ہوتا ہے لیکن بچپن سے بنت حوا کے ذہن میں مسلط کردہ ہیولا اس کے اعتماد اور زندگی کے گرد خوف کا اندھیرا پیدا کردیتا ہے۔
دوسری جانب ابنِ آدم حق حاکمیت کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ عورت پر حکم چلانا وہ اپنی مردانگی کی علامت سمجھتا ہے۔ چاروں جانب نگاہ دوڑاتی ہوں تو مجھے مرد کی شکل میں ایک حاکم نظر آتا ہے، جو اپنی بیوی پر حق حاکمیت برقرار رکھنے کےلیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ جو عورت کو اپنی عزت کا استعارہ سمجھتا ہے، لیکن عورت کو ذلت کی علامت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
عورت اگر عزت کی علامت ہے تو اسے بچپن سے عزت دی جانی چاہیے۔ ہواؤں کے دوش اور اوج ثریا پر قدم رکھنے کی صلاحیت رکھنے والی لڑکی کی زندگی خاک میں بسر ہوتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ ہر بیوی اپنے شوہر کا احترام کرے مگر اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی ایک گمنام ہیولے کے حصار میں کیوں جکڑ دی جاتی ہے؟ وہ گڑیا سے دل کی باتیں کرنے کے بجائے اس کی شادی رچانے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ پنگھٹ پر کم سن ہمجولیوں کے ہمراہ دل کی باتیں کرنے کے بجائے شادی کے قصے لیے بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے رشتوں کی الجھی ڈوریں سلجھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہوتی ہے۔
بچپن سے مسلط شدہ تخیلاتی شوہر کا خاکہ اس کے ذہن پر ایک ظالم و جابر شخص کے طور پر نقش ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی کے بعد اس شخص کا دل کے بجائے خوف کے باعث احترام کرتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کی پرورش کے دوران کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہ اپنائیں۔ بیٹی ہو یا بیٹا، یکسانیت کو فروغ دیں۔ انہیں برابری کی بنیاد پر توجہ دیں، کیونکہ کسی بھی سوسائٹی کی تبدیلی میں ماں کا کلیدی کردار ہوگا۔ بچیوں کے ذہنوں میں شوہر کا خوف ڈالنے کے بجائے انہیں زندگی جینے کا ہنر دیجیے، انہیں زندگی کے اسرار و رموز سے آگہی دیجیے۔ اور ہاں! سب سے اہم بات، اپنی بیٹی پر اعتماد کیجیے، اس کا سہارا بنیں، اسے زندگی جینے دیجیے کیونکہ اگر بیٹی نے باپ کے گھر میں زندگی نہ جی تو شوہر کے گھر میں اسے راحت کہاں نصیب ہوگی؟ اگر اسے ماں نے تتلیوں کے ساتھ اڑنے کا حوصلہ نہ دیا تو ساس کی تیز قینجی اس کے پر کہاں سلامت رہنے دے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔